ٰٰٓٓٓتھر میں تھر تھراتی انسانیت۔۔۔۔ تحریر: آر ایس مصطفی

RS Mustafa
Print Friendly, PDF & Email

تھر میں زندگی کی رمق برقرار رکھنے کے لیے مستقل بنیادوں پر پینے کا صاف پانی مہیا کرنا سب سے اہم مسئلہ ہے۔تھر کی زمین اورتھری باشندوں کی پیاس بجھانے کے لئے آراوپلانٹ بھی کام نہ آیا۔پلانٹ کے تالاب پر ٹینکر مافیا کے راج نے صحرائی علاقوں کو پانی پہنچانے کا خواب سچ نہ ہونے دیا۔ آراو پلانٹ کو انتظامیہ نیایشیا کا سب سے بڑا فلٹر پلانٹ قرار دیا۔ انتظامیہ کادعوی تھا کہ اس پلانٹ سے یومیہ بیس لاکھ گیلن میٹھا پانی تیار کر کے مٹھی کے شہریوں کو فراہم کیا جائے گا مگر ایک سال گزرنے کے باوجود بھی اس پلانٹ سے شہریوں کو پانی کی فراہمی ممکن نہ ہو سکی۔مشرف دور حکومت میں تھر کے شہر ڈوڈارو فارم میں اٹھتیس کروڑ روپے کی خطیر رقم سے ڈیپلو اور اس کے مضافاتی علاقوں کی رہائشی آبادی کو میٹھا پانی فراہم کرنے کے لیئے ڈوڈارو پمپنگ اسٹیشن بنایا گیا تھا جس کا مقصدڈوڈارو شہر سے ڈیپلو شہر تک 70 کلومیٹر کی حدود میں موجود پچاس ہزار سے زائد آبادی کو پینے کا میٹھا پانی فراہم کرنا تھامگر تھر پارکر میں ہونے والی 2011 کی طوفانی بارشوں میں ڈوڈارو پمپنگ اسٹیشن کی پائپ لائن جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی جس کے باعث ڈیپلو اور اس کے مضافاتی علاقوں میں شہریوں کو پانی کی فراہمی معطل کردی گئی جو آج بھی معطل ہے ،پانچ سال گذرجانے کے باوجود پائپ لائن کا مرمتی کام شروع نہیں کروایا گیا۔
سندھ میں پیپلز پارٹی پچھلے چالیس سالوں سے حکمران جماعت کے طور پر آگے رہی ہے اور پیپلز پارٹی کا منشور ہی روٹی ،کپڑا اور مکان رہا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی آج تک سندھ کے لوگوں کو اْن کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے ؟اس کی وجہ صرف اور صرف ایک ہے کہ حکمران اپنی عیاشیوں میں مصروف ہے،ہر طرف کرپشن کا بازار گرم ہے یہی وجہ ہے کہ وہ تھر جہاں مور ناچتے تھے آج وہاں موت کی گہری تاریکی چھائی رہتی ہے اب تھر میں اونٹوں کی گھنٹیاں سنائی دینے کی بجائے موت کا سارن سنائی دیتا ہے ۔آج حکمران روٹی پانی اور صحت جیسی سہولیات دینے کی بجائے بھوکی عوام کو سکیمیں دینے میں لگ گئے ہیں کیونکہ کمیشن یہی سے ملنا ہے ۔آج حکمرانوں کو کوئی خوف خدا نہیں کہ جب روز قیامت حساب ہوگا تو کیا جواب دے گے۔
حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت چوبیس لاکھ مربع میل پر تھی۔ راتوں کو اْٹھ اْٹھ کر پہرادیتے تھے اور لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے۔ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا توکل قیامت کے دن عمر(حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے اس بارے پوچھ ہوگئی۔آج تھر ہماری راہ تک رہا ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہو اور اس مشکل گھڑی میں ساتھ دیں ۔اہل قلم اس معاشرے کے سب سے حساس لوگ ہوتے ہیں اور ہر چیز کو بہت گہری نگاہ سے دیکھتے ہیں اسی سلسلے میں کالم نگاروں کی تنظیم پاکستان فیڈریل کونسل آف کالمسٹ نے تھر کی صورتحال کو اجاگر کرنے کیلئے ایک مہم کا آغاز کیا ہے اور تمام لکھنے والوں کو دعوت دی جارہی ہے کہ تھر کی صورت حال کو اجاگر کریں۔اسی سلسلے میں پاکستان فیڈریل کونسل آف کالمسٹ کا ایک ستائیس رکنی وفد تھر گیا ہے تاکہ تھر کی صورت حال کو قریب سے دیکھا جائے اور تھر کی صورت حال کو اور بہتر انداز میں اجاگر کیا جا سکے۔تھر میں زندگی تھر تھرا رہی ہے اور تھرئیوں کا پرسان حال نہیں،حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی ،اس صورت حال میں سماجی کارکنوں،ملکی وغیر ملکی این جی اوزکا فرض ہے کہ تھر میں تھر تھراتی انسانیت کا ہاتھ تھامے اور انسانیت کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

موسمِ پرواز تھا ‘ لیکن قحط ایسا پڑا
بھوک لگنے پر، پرند ہ اپنے ہی پر کھا گیا

Short URL: http://tinyurl.com/jxz97cc
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *