ہمارے سیاستدان یا بیوپاری؟

Umer Khan Jozvi
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: عمرخان جوزوی

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتمادکے اہم موقع پرحکومتی گونسلوں سے اڑان بھرکراپوزیشن سے جاملنے والے سیاسی پرندوں نے اس اڑان بھرنے کی کوئی فیس یا کوئی پیسے لئے یانہیں اس کاہمیں تو نہیں پتہ لیکن بھاری فیس اورچارجزکے ذریعے ایک زمانے میں انہی سیاسی پرندوں کے ناتواں پروں یاکندھوں پرحکومت قائم کرنے والے کپتان اوراس کے کھلاڑی بڑے زوروشورسے ان سیاسی پرندوں یا منحرف ارکان کوضمیرفروشی کے طغنے دیکران پرضمیربیچنے کے بدلے اپوزیشن سے بھاری رقوم لینے کاالزام لگارہے ہیں۔کس نے پیسے لئے اورکس نے دیئے۔؟ یہ حقیقت تواللہ ہی جانتاہے لیکن ویسے اس ملک کی سیاست میں ضمیروں کالین دین اورکاروباریہ کوئی نئی بات نہیں۔کپتان اورکپتان کے کھلاڑیوں کوہم سے زیادہ اس کاعلم ہے کیونکہ وہ ماضی قریب میں سیاسی پرندوں یاضمیرفروشوں کی اسی منڈی سے ایک ایک دن میں کئی بارنہ صرف ہوکر گزرے ہیں بلکہ ان کے بارے میں تو یہ بھی بہت مشہورہے کہ منڈی سے گزرنے کے وقت ان کے بیوپاریوں نے منڈی میں کوئی ایک سیاسی پرندہ یاضمیرفروش کسی اورگاہک کے لئے پیچھے چھوڑابھی نہیں۔وزرات عظمیٰ کے خواب دیکھنے والے کپتان اوران کے کھلاڑیوں کے ہاتھ اس وقت جوبھی پرندہ لگاانہوں نے چھان بین اوردیکھنے پرکھنے کے بغیرہی منہ مانگے دام دے کراسے یوں غنیمت جاناکہ جیسے ان جیساہیرااورموتی اس دنیامیں اورکوئی ہوہی نہیں۔بڑھتی عمرکے باعث کپتان کاحافظہ اوریاداشت کمزورہے شائدکہ انہیں یادنہ ہولیکن اس ملک کے بچے بچے کومعلوم ہے کہ آج منحرف اراکین اسمبلی کوضمیرفروشی کے طغنے دینے والے اسی کپتان کے کھلاڑیوں نے اپنے کپتان کے ایک خواب کوپوراکرنے کے لئے ایسے کتنے بے ضمیروں کے ضمیرخریدے۔؟منحرف ارکان کوآج قبروحشرکے قصے وکہانیاں سناکرڈرانے والے کپتان کواس وقت قبروحشرکی یادنہ آئی جب وہ اپنی حکومت بنانے کے لئے ان اچھے بھلے ضمیروں کوبے ضمیرکررہے تھے۔؟کیااس وقت بے ضمیری کے اس کچرے،اس گنداوراس گناہ کوثواب سمجھ کراکٹھانہیں کیاگیا۔؟کیااس وقت انہی بے ضمیروں سے جہازوں پرجہازنہیں بھرے گئے۔؟یہ تودنیاکاقانون ہے کہ جیساکروگے ویساپھربھروگے۔کپتان اورکپتان کے کھلاڑی آج وہی فصل کاٹ رہے ہیں جوانہوں نے 2018کے الیکشن اورانتخابات کے فوری بعدبوئی تھی۔کپتان وزیراعظم بننے کے خواب کوشرمندہ تعبیرکرنے کے لئے اگرضمیروں اوربے ضمیروں میں تفریق ختم نہ کرتے توآج اس ملک میں انہیں یہ بے ضمیردکھائی نہ دیتے۔دوسروں کونصیحت اورخودمیاں فصیحت بننے والے کپتان اگراس وقت اقتدارپانے کی بجائے موسمی سیاسی پرندوں اوربے ضمیروں پرایک صرف ایک بارلعنت بھی بھیج دیتے توآج کپتان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ہم نے پہلے بہت پہلے ہی کہہ دیاتھاکہ منڈی میں بکنے والے یہ سیاسی پرندے کسی کے نہیں۔لیکن افسوس ہماری ان باتوں پرکان دھرنے کی بجائے الٹاہمیں نوازشریف کاچمچا،زرداری اورمولاناکاایجنٹ کہہ کر ماں اوربہن کی گالیاں تک دی گئیں۔ضمیروں کاکاروبارکرکے اس وقت اگرآپ نے ٹھیک کیاتوپھرآج اپوزیشن والے غلط کیسے ہوگئے۔۔؟جوآپ نے کیاوہی تواب اپوزیشن والے بھی کررہے ہیں۔ آپ تون لیگ،پیپلزپارٹی اوردیگرپارٹیوں کی ایک ایک وکٹ اڑانے کی خوشخبری دیاکرتے تھے آج اگرانہوں نے ایک ہی واری میں آپ کودس دس وکٹیں اڑانے کی خوشخبریاں سنا دیں تواس میں براکیا۔؟خان صاحب یہ کرکٹ نہیں سیاست ہے اوریہاں نواز،زرداری اورمولانا جیسے لوگ ایک ایک گیندپردس نہیں بیس بیس وکٹیں بھی اڑادیتے ہیں۔ صاحب جوآپ نے کیاہم نے نہ اس کی کبھی حمایت کی اورنہ جوکچھ اب اپوزیشن کررہی ہے ہم اس کی کوئی حمایت کررہے ہیں۔سیاست کوعبادت اورخدمت کے طورپرکرناچاہئیے کاروبارکے طورپرنہیں۔یہ توہم شروع دن سے کہہ رہے ہیں کہ جولوگ ایک پارٹی اورایک قائدکے ساتھ وفانہیں کرسکتے وہ ہزاروں اورلاکھوں ووٹروں کے ساتھ کیاوفاکریں گے۔؟بھگوڑے بھگوڑے اورضمیرفروش ضمیرفروش ہی ہوتے ہیں چاہے وہ ن لیگ میں جائیں یاپیپلزپارٹی اورتحریک انصاف میں۔منحرف ارکان کاآج حکمران جماعت سے اپوزیشن کے گونسلوں کی طرف چھلانگ لگانایہ اتناہی جرم اورگناہ ہے جتنایہ ان ضمیرفروشوں کان لیگ،پیپلزپارٹی اوردیگرپارٹیوں سے تحریک انصاف میں چھلانگ لگانے کے وقت تھا۔عمران خان آج جس طرح چیخ چیخ اورسینہ پھاڑکران منحرف اراکین پرضمیرفروشی کے فتوے ٹھونس رہے ہیں یہی کام اگریہ اس وقت کرتے جب یہی لوگ اپنی پارٹیوں اورقائدین کوچھوڑکراقتدارکی خاطران سے مل رہے تھے توشائدنہیں یقینناًکپتان کوآج یہ دن کبھی دیکھنا نہ پڑتا۔اب توکپتان کواحساس ہواہوگاکہ پیسوں کی بوریوں اورلالچ کی چادروں میں دوسروں کے بچوں کوچھپاکرگودلینے سے ان کوملنے والی اذیت،درداورتکلیف کیاہوتی ہے۔؟ اپنوں کے غیرہونے پرآج جتنی تکلیف،دکھ اوردردکپتان کوہورہاہے اتنی بلکہ اس سے بھی زیادہ دکھ،درداورتکلیف ان نافرمان اراکین کے سابق سیاسی قائدین کوبھی تو ہوئی ہوگی۔جوہوناتھاسووہ تو ہوچکالیکن اب آئندہ کے لئے کپتان کوایک بات یادرکھنی چاہئے کہ دوسروں کے سیاسی گھراجاڑنے والوں کے اپنے سیاسی آشیانے بھی پھر سلامت نہیں رہتے۔اب بھی اگرکپتان یاکپتان کے کسی کھلاڑی کویقین نہیں تووہ تحریک انصاف کے انجام کودیکھ لیں۔پی ٹی آئی آج اسی انجام سے گزررہی ہے جس انجام،امتحان یامکافات عمل سے کبھی مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی یادیگرپارٹیاں اورجماعتیں گزریں۔پاکستان کی سیاست میں ضمیرفروشی یاسیاسی قبلوں کی تبدیلی یہ کوئی نئی ایجادنہیں۔اس ملک میں آج تک یہی ہوتارہاہے اوراب بھی یہی ہورہاہے۔ہمارے ایک دونہیں بلکہ اکثرلیڈر،قائدین اورسیاستدان شروع سے لیکرآج تک ضمیروں کی اس خریداری کو بہت بڑی کامیابی اورکارنامہ سمجھتے ہیں حالانکہ سب کوپتہ ہے کہ ضمیروں کایہ سودااورکاروبارنہ ملک کے مفادمیں ہے نہ قوم کے اور نہ ہی جمہوریت کے حق میں لیکن اس کے باوجوددوسری پارٹیوں اورجماعتوں کے ایم این ایز،ایم پی ایز،ناظمین اورعہدیداروں کوتوڑنا،بھگوڑابنانااورانہیں ضمیربیچنے پرمجبورکرناہرلیڈر،ہرقائداورہرسیاستدان اپناایک جمہوری حق،تاریخی کارنامہ اورثواب کاکام سمجھتاہے۔اس ملک میں جب تک ضمیروں کے یہ سودے ہوتے رہیں گے اوراراکین اسمبلی کی خریدوفروخت کویہاں جب تک کاروبارکادرجہ حاصل ہوگاتب تک اس ملک میں نہ صرف عمران خان جیساوقت کاوزیراعظم وحکمران چیختااورچلاتارہے گابلکہ نوازشریف،زرداری،شہباز،مولانااوربلاول جیسے لیڈروں کوبھی ایک نہ ایک دن اس بیماری کے ہاتھوں رونادھوناپڑے گا۔

Short URL: https://tinyurl.com/2mlcfg7h
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *