مشن شکتی سے خلائی سٹیشن کو بھی خطرہ ہو سکتا تھا

Print Friendly, PDF & Email

امریکی خلائی ادارے ناسا نے انڈیا کی جانب سے میزائل کے ذریعے اپنے ایک مصنوعی سیارے کی خلا میں تباہی کو ایک ’خوفناک چیز‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے اس سے بین الاقوامی خلائی سٹیشن کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔

ناسا کے سربراہ جم برائڈسٹین نے کہا ہے کہ اس تجربے کی وجہ سے دس دن میں ملبے کے بین الاقوامی خلائی مرکز سے ٹکراؤ کا خطرہ 44 فیصد بڑھ گیا تھا۔

تاہم انھوں نے کہا کہ ’آئی ایس ایس فی الوقت محفوظ ہے اور اگر ہمیں اس کی جگہ بدلنی پڑی تو ہم ایسا کریں گے۔‘

انڈیا دنیا کا چوتھا ایسا ملک ہے جس نے یہ تجربہ کیا ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے 27 مارچ کو فاتحانہ انداز میں اس تجربے کا اعلان کیا تھا جسے ’مشن شکتی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تجربے کے نتیجے میں ثابت ہوا ہے کہ انڈیا ایک خلائی طاقت ہے۔

ناسا کے ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے جم برائڈسٹین نے سیٹلائٹ شکن ہتھیاروں کے تجربات پر کڑی تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ناسا نے خلائی ملبے کے 400 ٹکڑوں کی نشاندہی کی ہے جن میں سے 60 ٹکڑے ایسے ہی جو دس سنٹی میٹر سے بڑے ہیں۔ جم کے مطابق ان میں سے 24 ٹکڑے ایسے ہیں جو خلائی مرکز کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ انڈیا کے تجربے کے اگلے دن امریکہ کے وزیرِ دفاع پیٹرک شیناہن نے خبردار کیا تھا کہ اس قسم کے تجربات سے خلا میں افراتفری پھیل سکتی ہے۔

انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ تجربہ نچلے مدار میں تین سو کلومیٹر کی بلندی پر کیا تاکہ ملبہ اس علاقے میں نہ پھیلے جہاں عالمی خلائی مرکز موجود ہے۔

انڈیا کی دفاعی تحقیق اور ترقی کی تنظیم کے سربراہ جی ستیش ریڈی نے گذشتہ ہفتے روئٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اسی لیے ہم نے یہ تجربہ نچلے مدار میں کیا۔ یہ ملبہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔‘

جم برائڈسٹین نے بھی اس دعوے کی تصدیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اچھی بات یہ ہے کہ یہ زمین کے مدار میں کافی نیچے ہے اور وقت کے ساتھ یہ ملبہ ختم ہو جائے گا۔‘

خیال رہے کہ چین نے بھی 2007 میں ایسا تجربہ کیا تھا اور ناسا کے سربراہ کے مطابق اس کا کچھ ملبہ مدار میں موجود رہا۔ امریکی فوج اس وقت خلائی ملبے کے دس ہزار ٹکڑوں کی نگرانی کر رہی ہے جن میں سے ایک تہائی کے بارے میں خیال ہے کہ وہ چینی تجربے کا نتیجہ ہیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/y68hwhan
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *