۔100 پیاز،100 جوتے

M. Sarwar Siddiqi
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ایم سرورصدیقی
اپوزیشن اورماہرین معاشیات مسلسل چیخ رہے ہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں حکومت ملک چلانے کےلئے ہر قیمت پر نئے قرضے لینا چاہتی ہے نئی شرائط کو تسلیم کیا گیا تو بجلی اور گیس مزید مہنگی ہوجائے گی اس پر ایک ستم ظریف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ گھٹنے ہوتے ہی ٹیکنے کےلئے ہیں اس کے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا بہرحال پاکستان کی ہر حکومت نے ہمیشہ عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے گھٹنے ٹیک کرہی کام چلایاہے اسی لئے راتوں رات شوکت عزیز نامی شخص کو وزیر ِ اعظم بنانا پڑا اب وزیر خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر کو ہٹا دیا گیا پکی خبر ہے کہ نئے وزیر ِخزانہ عبدالحفیظ شیخ اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا تعلق بھی عالمی مالیاتی اداروں سے ہے حکومت بے چاری کو اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی آئی ایم ایف سے مذاکرات کرناپڑرہے ہیں تاکہ کچھ شرائط میں نرمی ہوجائے لیکن ”صاحب بہادر“ تاحال اکڑا ہوا ہے اور آئی ایم ایف نے ٹیکس شرائط سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا ہے اور پاکستانی حکام سے بجٹ میں 700 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کا نیا مطالبہ کر تے ہوئے ٹیکس پلان مانگ لیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کا پالیسی اقدامات کے ذریعے اضافی ٹیکسز لگانے کا پلان ہے، نئے اقدامات کے ذریعے ٹیکس آمدن بڑھانے کا پلان پیش کیا گیا ہے لگتاہے آئی ایم ایف ٹوٹے جوتے کی طرح بڑھتاہی چارہاہے کیونکہ وہ ٹیکسز سے متعلق شرائط نرم کرنے پر تیار نہیں اور عالمی مالیاتی ادارہ ایف بی آر کا ٹارگٹ 5200 ارب روپے سے زائد مقرر کرنا چاہتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنے کی آئی ایم ایف کی شرائط مان لی ہیں، بجلی،گیس کی مد میں 340 ارب روپے 3 سال میں صارفین کی جیبوں سے نکالے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے نیپرا اور اوگرا کو بجلی اور گیس کی قیمتوں کے تعین کے لئے خودمختار بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے اس طرح حکومت نے چھوٹے صارفین کے علاوہ سب کے لیے سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، صنعتی صارفین میں صرف ایکسپورٹ انڈسٹری کو محدود سبسڈی دی جائے گی اسے سوپیاز اور سو جوتے کھانا کہتے ہیں نہ جانے پاکستانی قوم کو اس صورت ِ حال سے کب تلک دوچارہونا پڑے گا اللہ ہم پررحم فرمائے۔بہرحال خوفناک اطلاعات یہ ہیں کہ و فاقی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنے کی شرائط تسلیم کر لی ہیں۔ جس کے بعد بجلی اورگیس قیمتوں میں مرحلہ واراضافہ کیا جائے گا۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے3سال میں340 ارب روپے وصول کئے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی اور گیس پر سبسڈی ختم کرنےکا بھی فیصلہ کرلیا گیاہے۔ برآمدات میں اضافے کےلئے برآمدی صنعتوں کو محدود سبسڈی دی جائےگی دوسری جانب ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اوگراکے معاملات میں مداخلت نہیں کرےگی۔اوگراگیس نرخوں کے تعین میں آزادانہ فیصلے کرےگی۔چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے اس صورت ِ حال پر بڑے تندوتد لہجے میں تبصرہ کیا ہے کہ ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ہو رہی ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے سامنے جھک گئی۔ ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے لوگ پوچھتے ہیں فیصلے کون کر رہا ہے؟ کیا وزیرخزانہ کا فیصلہ آئی ایم ایف کرے گا؟ وزیرخزانہ کو اچانک ہٹا دیا جاتاہے‘ لوگ سوال تو کریںگے۔ انہوں نے کہا خان صاحب کا ہر فیصلہ جھوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر کی تعیناتی کا ایک طریق کار ہے۔ وفاق اپنے اہداف حاصل نہیں کر رہا۔ وفاقی حکومت کو سندھ کی ترقی سے سیکھنا چاہئے۔ عام آدمی مشکلات کا شکار ہے۔ حکومتی نااہلی کا بوجھ عوام اٹھا رہے ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کمزور طبقے کا خیال رکھے۔ کہتے ہیں 18 ویں ترمیم کے باعث وفاق دیوالیہ کا شکار ہے اگر وزیراعظم وزیرخزانہ سے ملے ہی نہیں تو فیصلے کون کر رہا ہے؟ وفاق حملہ کرنے کی بجائے سندھ سے سیکھے۔ عوام ان کی نااہلی کا بوجھ کب تک اٹھاتے رہیں گے ٹیکس وصولی کا ہدف صرف 18 ویں ترمیم سے پورا ہوتا ہے۔ پوری ٹیکس وصولی نہ ہونے سے صوبوں کو نقصان ہو رہا ہے۔ حکومت ٹیکس وصولی میں بدترین کارکردگی دکھا رہی ہے۔ ہم نے کبھی پاکستان کے معاشی حقوق پر سمجھوتہ نہیں کیا ہم نے آئی ایم ایف سے ڈیل لی مگر نوکریاں دیں اس حکومت نے عوام کو لاوارث چھوڑ دیا۔ سندھ ٹیکس وصولی کا ہدف پورا کر رہا ہے۔ وفاقی ٹیکس کا اختیار سندھ کو دے 100 فیصد اہداف دیں گے۔ حکومت کی سیاسی جنگ سے عدم استحکام پیدا ہوگا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ پارلیمنٹ میں پیش نہ کیا گیا تو احتجاج کریں گے۔بہرحال عمران خان کی حکومت سخت ترین معاشی بدحالی کا شکارہے معیشت کی حقیقی تصویریہ ہے کہ جولائی تا اپریل 3 ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا گیا، جبکہ 10 ماہ کا مقررہ ہدف 3 ہزار 380 تھا، اپریل میں اب تک 300 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا گیا ہے۔ایف بی آر کو اگلے دو ماہ میں مزید ایک ہزار 400 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرنا ہے۔ 30 جون تک 4 ہزار 398 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا نہ ہوا تو چوہدری نثارعلی خان کی پیش گوئی پوری ہوجائے گی کہ اکتوبر تک اتنی مہنگائی ہوجائے گی کہ لوگ چیخیں مارتے پھریں گے ایسی ہی ایک پیش گوئی سابقہ وزیر ِ خزانہ اسدعمر کرچکے ہیں آج تک جتنے بھی غیرملکی قرضے لئے گئے موجودہ حکومت میں اخلاقی جرا¿ت ہے تو عوام کو بتائے وہ کن شرائط یرکیوں لئے گئے اور ان کا مصرف کیا تھا؟۔ہمارے حکومت اور اپوزیشن جماعتوںکو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہاں البتہ وہ قرضوںپر بھی سیاست سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں اور اس کھیل میں عوام کا جینا عذاب بن گیاہے عمران خان نے تو کہا تھامیں خودکشی کرلوںگا لیکن قرضے نہیں لوںگا انہیں اس معاملے پر یوٹرن نہیں لینا چاہےے تھا قوم کو جو لیڈر قرضوں سے نجات دلائے گا وہی حقیقی لیڈر کہلانے کا حقدارہے عالمی مالیاتی اداروںکے کڑی شرائط پر قرضے لینا کوئی دانش مندی نہیں اس فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے مقروض قوموںکی عزت ِ نفس اورغیرت مرجاتی ہے پھر وہی حشرہوتاہے جو ملکوں ملکوں پاکستانیوں کے ساتھ ہورہاہے غلطی حکمرانوںکی ہے ذلیل عوام ہورہے ہیں۔ سو پیاز سو جوتے کھانا ہمارا مقدرتو نہیں جناب ہمیں قرضوںکے اس جہنم سے نکالئے۔

Short URL: http://tinyurl.com/y27f8yhv
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *