مسلم اتحاد نا گزیر

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: شفقت اللہ
ہلاکو خان ایل خانی حکومت کا بانی اور منگول حکمران چنگیز خان کا پوتا تھا۔ چنگیز خان کے لڑکے تولی خان کے تین بیٹے تھے۔ ان میں ایک منگو خان تھا جو قراقرم میں رہتا تھا اور پوری منگول سلطنت کا خان اعظم تھا، دوسرا بیٹا قبلائی خان تھا جو چین میں منگول سلطنت کا بانی تھا جبکہ تیسرا لڑکا ہلاکو خان تھا۔ منگو خان کے زمانے میں شمال مغربی ایران میں ایک اسماعیلی گروہ حشاشین نے بڑا ہنگامہ اور خونریزی شروع کردی۔ یہ علاقہ منگولوں کے زیر حکومت تھا اس لئے وہاں کے باشندوں نے منگو خان سے اس ظلم و ستم کے خلاف فریاد کی۔ منگو خان نے اس شکایت پر اپنے بھائی ہلاکو خان کو 1256ء میں ایران کا حاکم بناکر روانہ کیا اور اس کو اسماعیلیوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا۔ ہلاکو نے اسی سال اسماعیلیوں کے مرکز قلعہ الموت پر قبضہ کرکے اسماعیلی حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا اور ان کے آخری بادشاہ خور شاہ کو قتل کردیا۔اسماعیلیوں کا زور توڑنے کے بعد ہلاکو خان نے بغداد کا رخ کیا جو اس زمانے میں شیعہ سنی فساد کا گڑھ بنا ہوا تھا اور جس کی وجہ سے خلیفہ مستعصم باللہ کے شیعہ وزیر ابن علقمی نے ہلاکو خان کو بغداد پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا تھا۔ 1258ء میں بغداد تباہ کرنے کے بعد ہلاکو خان نے پورے عراق پر قبضہ کرلیا اور بصرہ اور کوفہ کے عظیم شہر تباہ و برباد کردیے۔ اس کے بعد منگول فوجوں نے جزیرہ کے راستے شام پر حملہ کیا۔ منگول فوجیں نصیبین، رہا اور حران کے شہروں کو تباہ کرتے ہوئی حلب پہنچ گئیں جہاں 50 ہزار مرد قتل عام میں مارے گئے اور ہزاروں عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا گیا۔ منگول فوجیں اسی طرح قتل و غارت کرتی اور بربادی پھیلاتی ہوئی فلسطین پہنچ گئیں لیکن یہاں ناصرہ کے جنوب میں عین جالوت کے مقام پر 25 رمضان 658ھ بمطابق 1260ء کو ایک خونریز جنگ میں مصر کے مملوکوں نے ان کو شکست دے کر پورے شام سے نکال دیا اور اس طرح مصر منگولوں کے ہاتھوں تباہی سے بچ گیا۔منگو خان کے بعد قراقرم کی حکومت کا اقتدار کمزور پڑگیا اور ہلاکو خان نے ایران میں اپنی مستقل حکومت قائم کرلی جو ایل خانی حکومت کہلاتی تھی۔ اس نے مراغہ کو جو تبریز سے 70 میل جنوب میں واقع ہے اپنا دارالحکومت بنایا۔ بعد میں دارالحکومت تبریز منتقل کردیا گیا۔ہلاکو کے بعد اس کا بیٹا اباقا خان تخت نشین ہوا اس نے بھی اپنے باپ کی اسلام دشمن حکمت عملی جاری رکھی۔ اس نے پوپ اور یورپ کے حکمرانوں سے قریبی تعلقات قائم کئے اور عیسائیوں کو بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ اس نے یورپ کی تائید اور اپنی مملکت کے آرمینی اور گرجستانی باشندوں کی مدد سے شام پر حملہ بھی کیا لیکن 1250ء میں حماص کے قریب مملوک حکمران قلاؤن سے شکست کھاکر پسپا ہونے پر مجبور ہوا۔ہلاکو خان کے بغداد فتح کرنے کے بعد ایک دن اس کی بیٹی بازار سے سے گزر رہی تھی تو دیکھا کہ ایک جگہ بہت سا ہجوم لگا ہوا ہے اس نے اپنے غلاموں سے معاملہ دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کے ایک بڑے بزرگ عالمؒ آئے ہوئے ہیں اور مسلمان ان کے گرد جمع ہیں یہ ماجرا سن کر ہلاکو خان کی بیٹی سواری سے اتر کر اس بزرگؒ کے پاس گئی اور کہا کہ میں آپ سے سوال کرنا چاہتی ہوں !تو بزرگ ؒ فرمانے لگے جی پوچھئے جو پوچھنا چاہتی ہیں تو اس لڑکی نے کہا کہ کیا آپ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی ہر بات پر یقین کرتے ہیں تو بزرگ نے جواب دیا کہ با لکل ہر ایک بات اس میں درست لکھی ہے تو اس لڑکی نے پھر سے سوال کیا کہ پھر تو آپ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ جس قوم کو بلند سمجھتا ہے اسے دوسری قوم پر برتر ی دیتا ہے؟ تو اس بزرگؒ نے بہت اچھا جواب دیتے ہوئے اس لڑکی سے سوال کیا کہ ! کیا تم نے کبھی ریوڑ کو چرتے ہوئے دیکھا ہے اس میں چرواہوں کے ساتھ دو کتے بھی ہوتے ہیں؟لڑکی نے اثبات میں جواب دیا تو اس بزرگ ؒ نے پھر سے کہا کہ کیا تم جانتی ہو کہ ریوڑ کے ساتھ ان کتوں کا کیا کام ہوتا ہے؟اگر نہیں تو میں بتاتا ہوں کہ جب بھی ریوڑ سے کوئی بھیڑ یا بکری علیحدہ ہونے لگے یا راستہ بھٹکنے لگے تو وہ کتے ان کو ہانپ کر ریوڑ میں دوبار ہ ملا دیتے ہیں !اسی طرح تم لوگ بھی اللہ کی جانب سے بھیجے گئے کتے ہو اور تمہیں اس لئے بھیجا گیا ہے کہ مسلمان اس وقت راستہ بھٹک رہے ہیں اور تمہارے ظلموں کی وجہ سے وہ پھر سے اللہ کے قریب ہو جائیں ۔ یہ بزرگ حضرت بہلول ؒ تھے ۔اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ وقت خود کو دوہرا رہا ہے جس طرح منگولوں نے تباہی مچائی اور عراق و شام سمیت دنیا بھر میں قتل و غارت گری کی اسی طرح اس وقت امریکہ بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر وہی حالات پیدا کر رہا ہے شام میں حلب پھر سے فتح ہو چکا ہے اور ایران بھی امریکی اتحاد کا حصہ بنا ہوا ہے جبکہ امریکہ پر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شدت پسند انسان کا حکمران بننا بھی اس طرف اشارہ ہے کہ یہ اس دور کا ہلاکو خان ہے کیونکہ اس نے آتے ہی سب سے پہلے اپنے مسلمانوں کے خلاف شدت پسندانہ عزائم کو ظاہر کر دیا ہے اور اس بات کا اقرار بھی کہ وہ تشدد کو پسند کرتا ہے جو کہ ہمارے مذہب اسلام میں حرام ہے ۔مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے مظالم اور یہودی لابی کی سازشیں اب بے نقاب ہو چکی ہیں لیکن پھر بھی ہم سبق نہیں سیکھ پا رہے اس بار وقت مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہتا ہے کیونکہ اس بار اسلامی ممالک کا ایک بہت بڑا اتحاد تشکیل ہو چکا ہے جسکا کا م بھی شدت پسندی کے خلاف جنگ اور جہاد کرنا ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ اتحاد ڈونلڈ ٹرمپ کے شدت پسندانہ عزائم کے خلاف بھی اقدامات کرے گا؟نتیجہ جو بھی ہو لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ رویہ مسلمانوں کو اکٹھا کر دے گا اور ایک دوسرے کے قریب لائے گا جو دنیا کے حالات میں تبدیلی کا باعث بنے گی۔

Short URL: http://tinyurl.com/ybuxmvgd
QR Code: