تصفیہ طلب

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: شفقت اللہ
جہا ں لفظ تصفیہ طلب کا استعمال ہوتا ہے وہیں انسان کے ذہن میں تنازعات بھی گردش کرنے لگتے ہیں کیونکہ زیادہ تر لفظ تصفیہ طلب کو تنازعات کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا ہے ۔اور جہاں تنازعات کا لفظ استعمال ہوتا ہے وہیں ذہن میں غور طلب معاشی و اقتصادی اور اخلاقی معاملات گردش کرنے لگتے ہیں درحقیقت اگر دیکھا جائے تو ہمیں ہر طرف سے تصفیہ طلب تنازعات نے گھیر رکھا ہے اور ہم ان میں کسی دلدل کی طرح دھنس کر رہ گئے ہیں ۔جیسے اگر اخلاقیات کی بات کی جائے تو ہمارے سیاستدان میڈیااور دنیا کے سامنے ایک دوسرے کے خلاف ایسے بیانات جاری کرتے نظر آتے ہیں کہ جیسے دوسرا کوئی انسان ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے پورے عالم میں پاکستانی سیاست کی درگت بنائی جاتی ہے ۔’’خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ بدلتا ہے ‘‘سیاست کی بات تو اپنی جگہ اداروں میں بھی یہی رویہ اختیار کیا جاتا ہے اگر آپ کا اتفاق کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے ملازم سے بھی بات کرنے کا ہو تو وہ اس طرح ردعمل ظاہر کرے گا کہ جیسے کسی انسان نے نہیں بلکہ کسی جانور نے اس پر آواز کس دی ہو اور اسے نا گوار گزری ہو !وڈیروں اور جاگیر داروں کی تو بات ہی نرالی ہے بہت پڑھے لکھے سرکاری ملازمت میں اونچی اونچی پوسٹوں سے ریٹائرڈ اور لوگوں کا حق غصب کرکے ان کا استحصال کر کے راتوں رات امیر ہونے والے معاشی دہشتگردوں نے تو اخلاقیات کے نام پر الٹا ہاتھ دیا ہوا ہے ۔اسی طرح اگر بنیادی سہولیات کی بات کی جائے تو پاکستان اس وقت ستر سال کا ہو چکا ہے اور یہ بہت وقت ہوتا ہے کسی بھی ملک کو مستحکم ہونے کیلئے حالانکہ دشمن نے توکوئی کثر اٹھا نہیں رکھی تھی اس کو ختم کرنے کیلئے پینسٹھ اور اکہتر کی جنگ میں لیکن پھر بھی جانے اللہ کو کیا منظور ہے کہ یہ آج بھی قائم و دائم ہے اور بڑی حیرانگی ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ کیسے! کیونکہ اول دن سے آج تک صرف اسے سونے کی چڑیا سمجھ کر پر نوچے گئے اور کیک سمجھ کر کھایا جاتا رہا ہے اس میں بسنے والی عوام کی اخلاقی قدریں بہت وسیع ہیں کیونکہ چاہے ان کے ساتھ جتنی بھی نا انصافی ہو جائے وہ کبھی آپ کو اف نہیں کہے گی اور قربانی دینا تو کوئی ان سے سیکھے ہاں کچھ جوشیلے نوجوان بھی ہیں لیکن اب وہ جوش بھی منشیات کے ہاتھوں ہر سکول اور یونیورسٹیوں میں پٹتا دکھائی دیتا ہے ہماری ریاست کے دستور اور آئین کے مطابق اس بات پر واضح روشنی ڈالی گئی ہے کہ اگر عوام ریاست کا ٹیکس ادا کرتی ہے تو وہ اس کی تمام بنیادی سہولیات دینے کی پابند ہے اب ان بنیادی سہولیات میں جو خاص چیزیں ہیں جن کے بغیر آج زندگی کا پہیا چلنا مشکل ہے ان میں صحت ، صاف پانی،صحت مند غذا ،بجلی اور اعلیٰ معیارِ تعلیم کی فراہمی ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ہسپتالوں کی حالت زار یہ ہے کہ مریض ٹھنڈے فرش پر تڑپتا اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے ڈاکٹر نرسوں کے پیچھے پڑے ہیں اور نرسیں بننے سنورنے میں !دوائی تو آپکو میسر نہیں ہوگی بلکہ ڈاکٹر سے رابطہ میں رہنے والی کمپنیوں کی ادویات آپ کو خریدنی پڑتی ہیں جو آپکو مہنگے داموں بازار سے با رعائیت دستیاب ہوتیں ہیں اگر دیکھا جائے تو اب ہسپتالوں میں آپکو ادویات میسر ہیں لیکن وہ بھی غریب طبقے کیلئے نہیں بلکہ امیر اور قریبی عزیزوں کیلئے ہیں ۔صاف پانی کا حال یہ ہے کہ نہروں میں اب گندہ پانی آتا ہے دنیا بھر میں سب سے بڑا آبپاشی نظام ہونے کے با وجود آج بھی پاکستان کو صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے ،تھر میں بچے پیاس سے سسکتے ہوئے مر گئے ،گندے پانی سے بیشتر لوگ یرقان اور پیٹ کے کینسر جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں اور کئی چل بسے یہاں تک کہ صاف پانی کی فراہمی کو بھی لوگوں نے اپنا کاروبار بنا لیا اور انسانیت سے خوب کھلوار کیا جو واٹر فلٹر پلانٹس نصب کئے گئے آج تک ان کی کارکردگی تو چیک کرنا دور فلٹرز بھی نہیں تبدیل کئے گئے اور بیشتر تو غیر فعال ہو چکے ہیں صحت مند غذا دینے کیلئے اور خوراک کی کمی کو پورا کرنے کیلئے گدھوں اور مردار کا گوشت عوام کو کھلایا گیا مرچوں کی کمی کو پورا کرنے کیلئے برادے سے کام لیا گیا او رگھی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے جانوروں کی ہڈیوں سے مدد لی گئی اور ادویات کی کمی کو پورا کرنے کیلئے جعلی دوا ساز کمپنیوں کا سہارا لیا گیا ۔تعلیم کی کیا بات کی جائے مخلوط تعلیم نے معاشرے کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے بچے سکول بعد میں جاتے ہیں اور انہیں پہلے ہی اپنی استانی سے عشق ہو جاتا ہے حال ہی میں ایک طالبعلم نے اپنی استانی سے عشق میں ناکامی پر خود کشی کر لی اور یونیورسٹی کی لڑکی نے کسی لڑکے سے عشق میں ناکامی پر خودکشی کر لی کوئی انہیں یہ تعلیم کیوں نہیں دیتا کہ یہ حرام موت ہے جس طرح حرام گوشت نہیں کھایا جا سکتا اسی طرح حرام موت بھی نہیں مرنا چاہئے ۔اساتذہ سڑکوں پر اور چوکوں میں پوری دنیا میں پاکستان کے نظام تعلیم کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں زنانہ اساتذہ آپکو ڈانس کرتے اور مردانہ اساتذہ بے ہودہ نعرے لگاتے نظر آئیں گے پورے سال میں بچوں کو صرف ایک ماہ ہی نصاب پڑھنے کیلئے میسر ہے اور باقی سال کبھی بچوں تو کبھی اساتذہ کی چھٹیوں میں گزر جاتا ہے تعلیم کا معیار حقیقت میں ہی بہت اونچا ہے جس تک کوئی غریب یا متوسط طبقہ رسائی حاصل نہیں کر سکتا صرف امیر طبقہ ہی کرسکتا ہے اور پھر عوام کو تعلیم کے نام سے یوں ذلیل و خوار اور زندگی سے تنگ کیا جاتا ہے کہ جو بچے اپنے گھروں کے کفالت دار ہوتے ہیں انہیں اٹھا کر زبر دستی سکول بھیج دیا جاتا ہے اب وہ بچہ پڑھائی کرے یا جو اس کا تصفیہ طلب تنازعہ اپنا اور خاندان کا پیٹ بھرنا ہے اس کو حل کرے ؟بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کی تو بات ہی نہ پوچھیں عوام کو بیوقوف بنا کر جتنا ان مسائل کی آڑ میں لوٹ کھسوٹ کی گئی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک بجلی پید اکرنے والا بیڑہ کرایہ پر برآمد کر کے بہت بڑا تیر مارا ،میاں صاحب نے قائد اعظم سولر پارک بنا کر اپنے لئے آرام گاہ بنائی وغیرہ وغیرہ ۔حال ہی میں میاں محمد نوا ز شریف نے اپنے ایک بیرون ملک دورے پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خطے کی ترقی اور استحکام کیلئے تمام تصفیہ طلب تنازعات کا حل ضروری ہے !بھائی میاں صاحب تو بڑے لوگ ہیں انکی بڑی بڑی باتیں ہیں خطے اور دنیا سے نیچے تو انہیں باتیں کرنی آتی ہی نہیں پاکستان کے جو اب تک تصفیہ طلب تنازعات ہیں ان کا حل کس نے کرنا ہے ! ان کی نظر میں پاناما لیکس ،سیاستدانوں کا دوہرا معیار ،اداروں پر سے عوام کا اٹھتا ہوا اعتماد ،انصاف کی عدم فراہمی،بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی یہ سب کوئی تنازعات یا غور طلب مسائل نہیں ہیں ۔لیکن ان تصفیہ طلب تنازعات کا حل پھر کون کرے گا؟؟کیا اسے ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا اور ایک دن پاکستان کو تباہی کے دہانے پر دھکا دے دیا جائے گا۔

Short URL: http://tinyurl.com/y8uh3ykc
QR Code: