آج کے فرعون

Prof. M. Abdullah Bhatti
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

سسر صاحب فرعون بنے دھاڑ رہے تھے میں اور بیٹی کا باپ سسر صاحب کی بڑھکیں سننے پر مجبور تھے سسر کی ہر بڑھک پر بیچارہ لڑکی کا باپ مزید ہاتھ جوڑ کر جھک جاتا لیکن سسر کے اندر تو شاید کوئی بد روح فرعون کی روح گھس گئی تھی باپ بیچارہ جتنا عاجز ہو کر جھکتا سسر کے دل و دماغ کو تسکین ملتی وہ اور زور سے دھاڑتا اس دوران فاتحانہ نظروں سے چاروں طرف دیکھتا کہ دیکھو میں نے لڑکی کے باپ کو اپنے قدم چاٹنے پر مجبور کر دیا ہے یہ کیڑے مکوڑوں کی طرح زمین پر میرے قدم چاٹ رہا ہے جیسے ہی کو ئی نیا الزام لگاتا لڑکی چیختی کہ نہیں میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی تو سسر اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر حکم دیتا کہ دو اس کو طلاق دو یہ بکواس کر تی ہے اِس کو خاوند سسرال والوں کا بلکل بھی خیال نہیں اِس کی ضد اور اکڑ ابھی گئی نہیں اِس کی گردن کا سریا ابھی نکلا نہیں دو اِس کو طلا ق تو لڑکی کا باپ مزید ہاتھ جوڑ کر داماد کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگا تا سسر کے قدم پکڑ لیتا کہ آپ جو بھی کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے میں اور میری بیٹی جو بھی کہہ رہے ہیں وہ غلط‘آپ سچے ہم جھوٹے لیکن خدا کے لیے اپنے بچوں کا صدقہ دے دیں خدا رسول ؐ کے واسطے طلاق نہ دیں میری بیٹی مر جائے گی آپ میری بیٹی کے ماتھے پر طلاق کا دھبہ نہ لگائیں ہم آپ کی ہر بات مانتے ہیں سٹام پیپر پر لکھ کر انگوٹھے دستخط کرنے کو تیار ہیں آپ کی ہر شرط ماننے کو تیار ہیں جو آپ کے منہ سے نکلے گا ہم وہ مانیں گے لیکن ہماری بیٹی کو طلاق نہ دیں اِس دوران باپ بیچارہ زارو قطار رونا شروع کر دیتا کبھی داماد کبھی اُس کی ساس ماں اور کبھی سسر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جاتا مجھ سے سسر کی فرعونیت بلکل بھی برداشت نہیں ہو رہی تھی میرا کلیجہ کٹ رہا تھا کہ ایک غریب بے بس باپ کو لڑکے والے بس بے دردی سے کاٹ رہے ہیں ذلیل کررہے ہیں اور باپ بیچارہ اپنی بیٹی کا گھر بسا رہا منتیں ترلے کر رہا تھا میں نے دوتین بار درمیان میں مداخلت کر نے کی کو شش کی لیکن باپ نے مجھے بھی روک دیا کہ پروفیسر صاحب آپ اِن کو نہیں جانتے یہ اوپر سے بہت معصوم بنتے ہیں اندر سے کیا ہیں یہ ہم لوگ ہی جانتے ہیں آپ شریف انسان ہیں آپ ہمارے معاملے میں نہ ہی پڑیں تو بہتر ہے میرا اِن لوگوں کے ساتھ کوئی زیادہ تعلق نہیں تھا پچھلے کئی دنوں سے لڑکی کا باپ میرے پاس آرہا تھا سر میری بیٹی کا گھر اجڑ جائے گا لڑکا اپنے والدین کے ساتھ مل گیا ہے اُس کے والدین جو کہتے ہیں یہ وہی کرتا ہے میں غریب انسان ہوں کرائے کے گھر میں رہتا ہوں میری تین بیٹیاں ہیں بیٹا کوئی نہیں میری چھوٹی سی پرچون کی دوکان ہے اور اِس بھری کائنات میں میرا کچھ بھی نہیں ہے ساری زندگی کی کمائی اور کمیٹیاں ڈال کر یہ چھوٹی سی دوکان خرید ی اب میری کل جائداد یہ چھوٹی سی دوکان ہے جو میری وفات کے بعد میری بیٹیوں میں تقسیم ہو جائے گی لیکن میرا داماد اور اِس کا باپ بہت لالچی ہیں یہ کہتے ہیں یہ تمہارا بڑا داماد ہے تمہاری زندگی کا کوئی پتہ نہیں دوکان داماد کے نام لگا دو جبکہ میری دو اور بھی بیٹیاں ہیں میں تینوں کو دینا چاہتا ہوں لیکن ہمارے داماد نے دبے لفظوں میں کہنا شروع کر دیا کہ دوکان میرے نام لگا دیں میں آپ کی دونوں بیٹیوں کا خیال رکھوں گا اِن کی شادیاں بھی کراد وں گا لڑکی والے داماد اور سسرال والوں کی سازش دیکھ رہے تھے کہ کس طرح یہ لوٹ مار کر کے دوکان پر قبضہ چاہتے ہیں جب لڑکی والوں نے انکا ر کیا تو شروع میں تو نرم لہجے میں ڈیمانڈ کی گئی لیکن جب لڑکی والے نہیں مانے تو والد صاحب میدان میں آکودے کہ تم لوگوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوا اب میں اِس کو حل کروں گا اب سازش کے تحت بہو کو مختلف بہانوں سے تنگ کر نا شرو ع کر دیا پورے گھر کے کام کرنے کے ساتھ ذلیل بھی کر نا شروع کر دیا میکے جانے پر پابندی فون پر رابطہ بند کر ادیا گیااُس کی زندگی جہنم بنا دی گئی بہو بیچاری نے تنگ آکر زبان کھول دی یہی گستاخی بہو کو دھکے دے کر گھر سے نکال دیا گیا اور ساتھ ہی طلاق کا ایک نوٹس بھی بھیج دیا ایک نوٹس دینے کا مطلب لڑکی والوں کو خوب بلیک میل کر کے اپنا مطالبہ پورا کرا نا تھا اب لڑکے کا باپ فرعون کا روپ دھار کر دھمکیاں کہ آپ کی لڑکی کو آپ نے کوئی تہذیب نہیں سکھائی ہمارا اِس کے ساتھ گزارا نہیں لڑکی میں ہر عیب کے ساتھ بد کرداری کا الزام کہ یہ اِس کا شادی سے پہلے سے کسی کے ساتھ تعلق ہے جب لڑکی پر یہ الزام لگا تو اُس بیچاری نے زبان کھول دی کہ آپ اِس قدر ظلم نہ کروں میں بد کردار نہیں ہوں لیکن معصوم غریب بے گناہ کی سننے والا کوئی نہ تھا لڑکی کو گھر بھیج کر اب دھمکیاں کہ جلدی دوسرا نوٹس بھی آجائے گا لڑکی والوں نے صلح کرنے کی کو شش کی لیکن سسرال والے ماننے کو بلکل بھی تیار نہیں تھے لہذا یہاں پر لڑکی والوں نے روحانی مدد کے لیے ادھر ادھر بابوں بزرگوں کے پاس جانا شروع کر دیا تاکہ سنگدل لوگوں کا دل نرم پڑ سکے بیچارہ باپ میرے پاس آنا شروع ہو گیا جب بھی آتا خوب روتا آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اللہ سے مدد مدد پکارتا میں بھی حوصلہ دیتا لیکن ظالم ابھی نرم نہیں ہو رہے تھے کہ طلاق کے دوسرے نوٹس کا وقت آگیا باپ ماہی بے آب مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا میں اُس کو حوصلہ دے رہا تھا لیکن یہ بیچارہ تڑپ رہا تھا کہ میری بیٹی کا گھر اجڑ جائے گا میں نے گلے سے لگایا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی اِس کی مدد کیسے کروں آخر بولا سر آپ میرے ساتھ چل کر اُس کو روکنے کی کوشش کریں کہ وہ میری بیٹی کو طلاق نہ دے میں سسرال والوں کو نہیں جانتا تھا اِس لیے میں جانا نہیں چاہتا تھا لیکن مظلوم باپ منتیں کر رہا تھا کہ میں اُس کے ساتھ چلوں لہذا میں مقررہ دن اُس کے ساتھ لڑکی کے سسرال آگیا میں نے جب سمجھانے کی کوشش کی تو سسر بولا آ پ نہیں جانتے یہ لڑکی بد کردار ہے میں اِس کو طلاق دوں گا لیکن جب تنگ آکر باپ نے کہا آپ کی ساری شرطیں سٹام پیپر پر مانوں گا تو سسر اور داماد بولا ٹھیک ہے آپ اکیلے کل آجائیں ہم صلح کر لیں گے اِس کے بعد میں واپس آگیا لیکن میرا کلیجہ پر زے پرزے تھا کہ لڑکے والے کس طرح فرعون بن کے لڑکی والوں کو ذلیل کر تے ہیں خدا ایسے فرعون کو راہ راست پر لائے اِس واقعے کو دو سال گزر ے ہونگے کہ بیچارہ باپ میرے پاس آیا اور بولا سر میں ایک بار پھر آپ کو داماد کے باپ سے ملانا چاہتا ہوں تو میں بولا آپ کی تو صلح ہو گئی تھی اب مجھ سے کیوں ملانا چاہتے ہو تو بولا میں نے اِس کی ساری شرطیں اور دوکان لکھ کر اُن کو دے دی تھی خاموش ہو کر بیٹھ گیا پچھلے ماہ ساس فوت ہو گئی تو غم سے سسر کو فالج ہو گیا زبان اور آدھا جسم بے جان ہو گیا تو سسر صاحب جو حصہ مانگ رہا تھا خدا نے جسم کا ایک حصہ بے کار کر دیا لڑکی کے باپ سے معافی مانگی دوکان واپس کر دی اوربار بار اشاروں سے معافی مانگتا ہے مجھے ملنے کو کہتا ہے شاید مُجھ سے بھی معافی مانگنا چاہتا ہے میں قدرت کے انصاف پر حیران کہ پاکستانی معاشرے میں لڑکے والے کس طرح فرعون بن کر لڑکی والوں کو غلاموں کی طرح ذلیل اور روندتے ہیں حصہ مانگتے ہیں جہیز مانگتے ہیں تنگ کرتے ہیں طاقت جوانی میں لڑکی والوں کو غلام سمجھتے ہیں لیکن جب خدا کا غضب جاگتا ہے تو یہ فرعون ہمیں دریائے نیل میں غرق ہو تے نظر آئے خدا ایسے فرعونوں کو عبرت کا نشانہ بنا دیتا ہے۔

Short URL: https://tinyurl.com/2q4nwgja
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *