ایس ایچ او تھانہ چوٹی زیریں، اشرف قریشی سے ایک ملاقات۔۔۔۔ انٹر ویو :منشاء فریدی

میری رائے :۔
امن کسی بھی خطے کے لیے ایک لازمی امر ہے۔جس کے بل بوتے پر معا شرہ ترقی کے مدارج طے کرتا ہے۔مگر ہمارے ہاں ان جزئیات کو سختی سے رد کر دیا جاتا ہے۔کہ سماج کی ترقی امن سے عبارت ہے۔یہاں تو دھونس ،دباؤ حرص و ہوس ۔ذاتی انتقام کے لئے اختیارات کے استعمال اور منطقہ کی ترقی کی بنیاد قرار دیا جاتاہے۔حکومتوں محکموں اور پھر اداروں کا قیام بظاہر نظام معاشرہ کو سنوارنے کے لئے وجود میں آیا۔اگر پس پردہ عوامل و محرکات پر نگاہ ڈالی جائے تو ایسا نہیں ہے اسی طرح محکمہ پولیس کا قیام جو ظاہری طور پر تو امن کا داعی ہے۔مگر معاملہ اس کے برعکس ہے۔پولیس کے اہلکار کو چاہیے کہ وہ گہری سوچ اور فکر کا حامل ہو۔امن کی حقیقی روح کا پیام برہو۔۔۔۔نا کہ۔۔۔۔وردی کی شکل میں کھال کی طاقت پر محض بندوق اور اسٹک کا غیر قانونی رعب و دبدبہ جھاڑے۔۔۔۔۔ ؟
سوال:اپنے خاندانی پس منظرو پیش منظر بارے مختصر روشنی ڈالیں اور ساتھ ہی تعلیمی سفر اور ملازمت سے متعلق قدرے تفصیل بیان کریں؟
جواب:جامپور کی قریشی فیملی سے تعلق ہے۔والد اور بھائی تجارت کرتے ہیں۔اور سب جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں ۔میٹرک جامپور۔ایف ایس سی ڈی جی خان اور B.Aگورنمنٹ کالج لاہور سے کی ہے۔ 1997میں بطور ASIبھرتی ہوا۔سال2002ء میں بطور انسپکٹر ترقیاں ہوئیں اور سال 2007ء سے بطور انسپکٹر ترقی پائی۔راجن پور ضلع کے تھانہ سٹی، راجن پور،تھانہ محمد پور،تھانہ صدر جامپور اور تھانہ داجل میں بطور ایس ایچ او تعینات رہا ہوں۔ڈی جی خان کے تھانہ وہوا اور اب تھانہ چوٹی میںایس ایچ او ہوں۔
سوال:پولیس میں آنے کا کوئی مقصد تھا یا اتفاقاً آئے۔۔۔۔؟دوران ملازمت تلخ اور دلچسپ واقعات اگر ہوں تو قارئین کے لئے بتانا پسند کریں گے؟
جواب:پولیس میں آنااتفاقاً تھا۔1997میں میں گرنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھا کہ دیگر دوستوں کے ساتھ مل کراے ایس آئی کی پوسٹ کے لیےاپلائی کیا اور سلیکٹ ہو گیا۔پولس کی ملازمت میں آئے روز تلخ اور دلچسپ واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔بس اتنا کہوں گا کہ انتہائی مشکل جاب ہے۔ہر عید تہوار پر لوگ اپنے بچوں کے ساتھ اپنے گھروں پر ہوتے ہیں لیکن ایک پولیس ملازم ڈیوٹی پر ہوتا ہے۔لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ جاب نیکی اور دعائیں کمانے کا بھی ذریعہ ہے۔اگر آپ غریب کی فریاد سنیں اور کسی کا جائز مسئلہ حل کرادیں تو غریب عوام آپ کو دعائیں دیتی ہے۔جو کہ بخشش کا سبب بنیں گی
سوال:دوران ملازمت کارہائے نمایاں اگر سرانجام دئیے تو اُن کی قدرے وضاحت کریں؟
جواب:دوران ملازمت ،ایمانداری سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دی ہے۔بطورایس ایچ او تھانہ وہوا سال2009ء میں اسلحہ سے بھری کار چیک پوسٹ ترمن پر پکڑی جو کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان سے آ رہی تھی۔اور پرچہ درج کیا۔کئی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پکڑ کر کسٹم حکام کے حوالے کیں۔مختلف تھانہ جات میں بھاری مقدار میں منشیات اور اسلحہ کی برآمدگی کی۔حال ہی میں تھانہ چوٹی کے علاقے نواں شمالی سے ملنگ نامی شخص سے2کلو چرس برآمد کی۔اسی طرح وہوا میں بھی ایک پٹھان سے چرس سے بھرا صندوق برآمد کیا تھا۔
2006ء میں اپر کلاس کورس میں صوبہ پنجاب میں آل راؤنڈ فرسٹ پوزیشن حاسل کی اور جناب آی جی پنجاب کی طرف سے سرٹیفیکٹ نقد انعام اورآئی جی پی سٹک بطور انعام حاصل کی۔جولائی سال2010ء تا جولائی2011ء اقوام متحدہ کے امن مشن(یو این ایم آئی ایس) کے لئے سلیکٹ ہوا اور ساؤتھ سوڈان جو کہ اب ایک الگ ملک ہے میں بطور پولیس ایڈوائزر پاکستان پولیس کی نمائندگی کرتے ہوئے خدمات سرانجام دیں۔مئی2013ء تامئی2014ء ایک بار پھر اقوام متحدہ امن مشن(یو این اے ایم آئی ڈی) کے لیے سلیکٹ ہوا ۔اور سوڈان کے علاقہ ڈارفر میں بطورپولیس ایڈوائزر پاکستان پولیس کی نمائندگی کرتے ہوئے خدمات سرانجام دیں۔
سوال:آپ نے کِن کِن خطرناک گینگز کے کون کون سے عناصر کو گرفتار کیا۔۔۔اور۔۔۔کیا آپکے ہاتھوں کوئی خطرناک اشتہاری یا مجرم پولیس مقابلے میں پار بھی ہوا۔۔۔۔؟ اگر ہاں تو کیا اُن کے نام بتائے جا سکتے ہیں؟
جواب:میں سال2010ء میں بطور ایس ایچ او تھانہ داجل تعینات تھا کہ ہمارا مقابلہ علی گل باز گیر اور اسکے ساتھیوں سے ہو گیا جسمیں کئی گھنٹے تک مقابلہ جاری رہا اور اس مقابلے میں علی گل باز گیر جو کہ بد نام زمانہ اشتہاری ہے کا بھائی راضی بازگیر مارا گیا تھا۔جسمیں جنابآئی جی صاحب کی طرف سے نقد انعام اور سرٹیفیکیٹ ملا تھا۔
سوال:آپکے نزدیک کوئی بھی پولیس آفیسر یا اہلکار ذاتیات کی بناء پر کاروائی کر سکتا ہے۔۔۔؟ علاوہ ازیں پولیس کا ایس ایچ او علاقہ کے ایم این اے یا ایم پی اے کے ہاتھوں یرغمال یا استعمال ہو رہا ہے؟ اس ضمن میں آپکے لیے اہم سوال کہ کیا آپ علاقہ میں ایم این اے اور ایم پی اے کو کوئی اہمیت دیتے ہیں۔یا خاطر میں لاتے ہیں۔۔۔؟
جواب:کسی بھی آفیسرکو ذاتیات کی بنا ء پر کاروائی نہیں کرنی چاہیے۔میری دشمنی اور جنگ جُرم سے ہے انسان سے نہیں۔اگر کوئی جرائم پیشہ شخص اپنے کالے دھندوں سے باز نہیں آتا تو اُس کے خلاف بھرپور اور زیادہ سے زیادہ کاروائی ہونی چاہیے۔میں اپنے علاقہ کے ا یم۔این۔اے اور ایم پی اے صاحبان کا احترام کرتا ہوں۔کیونکہ وہ عوام کے نمائندہ ہیں۔اور کسی کا کام چاہے وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں ہو کرتا ہوں جو کہ میرا فرض بھی ہے ۔البتہ ناجائز کام میں کسی کا بھی نہیں کرتا چاہے وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو۔مجھے آج تک کسی ایم این اے یا ایم پی اے نے تھانہ چوٹی میں ناجائز کام نہ کہا ہے۔
سوال:عمومی تاثر ہے کہ تھانہ چوٹی میں سابقہ ادوار میں مقامی سردار بالواسطہ مداخلت کرتے تھے اور اب بلاواسطہ دخل اندازی میں ملوث ہیں؟
جواب:تھانہ چوٹی میں مقامی سرداروں کی مداخلت بالکل نہ ہے۔کبھی کبھار کسی جائز کام کیلئے فون کرتے ہیں۔
سوال:مقامی،قومی اور عالمی میڈیا سے متعلق آپ اپنی رائے دینا پسند کریں گے؟
جواب:میڈیا ،خاص طور پر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا ریاست کا اہم ستون ہے جسے بلا تفریق فیئر رپورٹنگ کرنی چاہئے لیکن میڈیا میں بھی کچھ لوگ زرد صحافت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ادارہ بدنام ہوتا ہے۔لیکن زیادہ تعداد اچھے لوگوں کی ہے۔میڈیا پرسنز جرائم کی نشاندہی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
سوال:آخر میں مقامی سطح کا ایک سوال کہ کیا تھانہ چوٹی میں کرپشن نہیں ہو رہی۔۔۔۔؟اگر ہو رہی ہے تو آپ کس حد تک اس نظام کے خاتمے کیلئے کوشاں ہیں۔۔۔؟
جواب:ہمارے معاشرہ سے کسی بھی اخلاقی یا سماجی بُرائی کا100%خاتمہ شایدابھی ممکن نہ ہے۔اسی طرح کرپشن کامکمل خاتمہ بھی شاید ابھی تک نہ ہوا ہے۔لیکن میں یہ بات پوری ذمہ داری کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ میں نے کافی حد تک کوشش کی ہے۔جس سے کرپشن میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔میں ہر جمعہ کو کھلی کچہری مساجد میں لگاتا ہوں اور اس کے علاوہ بھی لوگوں کو بتاتا ہوں۔کہ اگر کوئی پولیس والا اُن سے رشوت طلب کرے تو وہ ڈائریکٹ میرے پاس آ سکتے ہیں یا مجھے فون کر سکتے ہیں۔ذمہ داران کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی لیکن اس بُرائی کا خاتمہ محکمہ پولیس بلکہ باقی تمام نجی و سرکاری اداروں سے اُس وقت ہو گا جب لوگوں میں شعور پیدا ہو گا۔اور اپنا جائز حق مانگیں گے کوئی غلط کام نہیں کرائیں گے اور رشوت طلب کرنے والوں کی نشاندہی کریں گے۔اور میں پُر امید ہوں کہ وہ دن ضرور آئے گا جب پاکستان کا ہر فرد اپنی ذمہ دار محسوس کرتے ہوئے اس کی ترقی کیلئے کام کرے گا اور ہمارا معاشرہ کرپشن فری ہو گا۔
Leave a Reply