شندور میلہ

Hadayat Ullah Akhtar
Print Friendly, PDF & Email

آج کی دنیا میں پولو جو اپنی اصلی حالت میں کھیلی جاتی ہے  اس کا مسکن گلگت بلتستان اور چترال ہے۔ماضی قریب تک ان علاقوں میں  ہر گھر میں کم از کم ایک گھوڑا  پالنے اور رکھنا ضرور ی خیال کیا  جاتا  تھا۔ اور بچہ بچہ اس کھیل کا ماہر لگتا تھا۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ  اس کھیل  کی مقبولیت میں کمی تو نہیں آئی البتہ  مہنگائی اور جدید  سہولتوں کے باعث  گھوڑے پالنے کا رواج ختم ہوا اور اب یہ کھیل صرف سرکاری  سرپرستی میں  ہی کھیلا جاتا ہے اور اس کھیل کی مقبولت علاقائی اور مقامی سے نکل کر بین الاقوامی  بن گئی ہے۔اور پاکستانی ریکارڈ کے مطابق  شندور میلہ پاکستان کا واحدمیگا ایونٹ ہے جو  بین الاقوامی میلہ  کہلاتا ہے۔شائد اسی لئے کے پی کے کی حکومت  شندور  جو دردستان گلگت کا حصہ اور ملکیت تھا زبردستی قبضہ کرکے پاکستان کے دعویٰ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔ جبکہ گلگت  ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ تاریخی شوائد یہ بتاتے ہیں کہ   ۱۸۷۶چترال  مہارجہ کشمیر کی عملداری میں آنے کے بعد  سے ہی شندور میں جو بھی ایونٹ ہوئے وہ گلگت میں  مقیم برٹش پولیٹکل اینجنٹوں کے زیر نگرانی ہوئے۔۱۹۵۹  میں جرگے کے فیصلے کے مطابق  شندور میں لاسپور کی طرف چترال سکاوٹس جبکہ لنگر کی طرف گلگت سکاوٹس کے کیمپ ہوا کرتے تھے۔اور ۱۹۶۶ میں ہی گلگت سکاوٹس نے یہاں پولو مقابلہ کروایا تھا۔۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تاریخی  حقائق کی روشنی میں اس مسلے کا  کا کوئی مستقل حل ڈھونڈا جاتا لیکن ہنوز ایسا نظر نہیں آرہا ہے۔۔دونوں حکومتوں کو اس بارے  بڑے خدشات ہیں  اور اس  زمین پر دونوں ہی دعویٰ دار ہیں ۔ ہر سال  شندور میلہ شروع ہونے سے پہلے  تنازعہ کا مسلہ شدت اختیار کر جاتا ہے اور ہوتا یہ ہے کہ  میلہ شروع ہونے سے پہلے عارضی سمجھوتے کئے جاتے ہیں اور جیسے تیسے میلہ منعقد ہو جاتا ہے تو پھر کے پی کے حکومت  اپنے اثر رسوخ اور طاقت کے بل بوتے پر اپنی اندرونی کاروائی شروع کر دیتی ہے جس کا  گلگت حکومت کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی ہے ۔ اب تو نوبت یہاں تک آئی ہے کہ لنگر پر بھی کے پی کے کا دعویٰ ہے  اور  یہ بھی ممکن  ہے کہ  یہ تنازعہ شدت اختیار کرتے ہوئے انسانی جانوں کے زیا کا باعث بنے۔جی بی حکومت کو یہ بھی ڈر ہے کہ  کے پی کے اپنی چودھراہٹ سے  کہیں برست گائوں جہاں   جی بی پولیس کی مستقل چوکی ہے اسے بھی ہڑپ نہ کرے۔۔۔تاریخی شوائد سے ہٹ کر  دیکھا جائے تو یہ مسلہ ۲۰۰۱ سے اسلام آباد حکومت کے نوٹس میں لایا جا چکا ہے۔دنیا کے اس بلند ترین پولو گرونڈ   جسے  بام دنیا بھی کہا جاتا ہے  جو سطح سمندر سے  ۱۲۵۰۰ فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۱۹۳۶ سے پولو مقابلے  وقفے وقفے سے ہوتے آئے ہیں۔لیکن اس کو ایک میگا ایونٹ کے طور پر منانے کا  سرکاری فیصلہ ۱۹۸۲ میں ہوا۔۔تب سے شندور کی اہمیت بہت بڑھ گئی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ گلگت اور چترال میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے  شندور تنازعے کو  مسقل بنیادوں  پر حل کیا جائے۔  تنازعہ کے باعث یہ میگا  ایونٹ اپنی افادیت کھو رہا ہے۔ اور اب اس ایونٹ میں پہلے والی دلچسپی دیکھنے میں نہیں  آرہی ہے۔۔

Short URL: http://tinyurl.com/z6d22ph
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *