سلام اے محسنین

Tehniyat Aafreen Malik
Print Friendly, PDF & Email

Salam A Mohsenein Salam A Mohsenein Salam A Mohsenein Salam A Mohsenein Salam A Mohsenein Salam A Mohsenein Salam A Mohsenein

تحریر: تہنیت آفرین ملک، منڈی بہاوالدین

میری یہ تحریر میرے ان تمام اساتذہ کے نام جہنوں نے مجھے حرف حرف لکھنا پڑھنا سکھایا۔۔۔۔جہنوں نے مجھے حرف سے الفاظ تک کا سفر طے کروایا۔۔۔۔
حضرت علی کا قول ہے
”میں اس شخص کا غلام ہوں جس نے مجھے ایک حرف پڑھایااگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دیے اور اگر چاہے تو آزاد کر دیے اور اگر چاہے تو غلام بنا لے”
استاد کون ہوتا ہے بھلا! استاد وہ شخص ہوتا ہے جس سے کسی قسم کا سبق پڑھا جائے، سیکھا جائے چاہے وہ سبق زندگی کا ہو یا بندگی کا۔۔۔جب اس سے مسئلہ کا حل پوچھا جائے تو وہ امربالمعروف کرے یا نہی عین المنکر۔۔۔وہ اصلاح زندگی اور اصلاح نفس کے طریقے بتلاتا ہو تو ایسے شخص کو استاد کہا جاتا ہے۔
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی
انسانیت کے پہلے معلم محسن انسانیت حضرت محمد جہنوں نے آدمی کو انسان بنایا۔قیامت تک آنے والے ہر صالح پر اس عظیم حضرت محمد کے احسان کا تارہ چمکتا رہے گا۔انہوں نے معلم بن کر اپنی امت کی بہترین تربیت فرمائی۔روز قیامت تک اگر شاگرد استاد کا احترام کرتا ہے بیٹا باپ کا احترام کرتا ہے تو یہ حضرت محمد کا ہی احسان ہے۔وہ تمام جہانوں کے لیے معلم اور رحمت بنا کر بھیجئے گے۔انہوں نے انسان کو انسانیت کا طور سکھایا
معلم بنا کر بھیجا ہے ان کو
مدرسہ بنا کر بھیجا ہے ان کو
استاد اور شاگرد کے تعلق کی بنیاد علم ہے۔اور شاگرد وہ علوم اپنے استاد سے لیتا ہے گویا استاد ایک ایسا دریا ہے جس میں علم کی لہریں موجیں مارتی ہیں۔اور یہ شاگرد پہ انحصار کرتا ہے کہ وہ اس غوطے سے کیا حاصل کرتا ہے اس کی گہرائی سے موتی چنتا ہے ہیرے جواہرات یا پتھر
استاد زمینی فرشتہ ہوتے ہیں یہ ہی سبب ہے کہ استاد کو روحانی باپ کہا جاتا ہے۔۔۔کیونکہ وہ ایک آدمی کو انسان بناتے ہیں اور انسان وہ ہوتا ہے جو اخلاق و کردار میں اعلا۔۔گفتار میں منظم اور ارادے میں پختہ ہو۔۔
استاد کی عظمت سے ہر گز کوئی انکار نہیں اور نہ ہی میرے الفاظ اس قابل ہو سکتے ہیں کہ وہ ایک استاد کی عظمت کو بیان کر سکیں۔۔۔۔اوج کمال اور استاد ایک ہی نام ہیں۔۔۔۔اور شاگرد کے لیے وہ سیڑھی جو اوج کمال کے مرکز تک پہنچاتی ہے
استاد کی عظمت کے حوالے سے حضرت محمد کے ارشاد پاک کو دیکھنا چاہیے جس کا مفہوم یہ ہے کہ” ہر۔مسلمان، حافظ قرآن، عالم دین، بادشاہ پر استاد کی غرت کرنا تعظیم خواندی میں داخل ہے۔
ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا
”علم سیکھو اور علم کے لیے وقار اختیار کرو اور جس سے علم سیکھتے ہو اس کے ساتھ ادب و تواضع کے ساتھ پیش آو”
تعلیم کا تعلق معلم اور متعلم کے وجود سے ہے
ارشاد نبوی ہے کہ
اور مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے
بادشاہ ہو یا غلام ہر ایک پر استاد کا احترام لازم ہے ایک بہت مشہور روایت ہے کہ خلیفہ ہارون رشید نے اپنے بیٹے کو امام اصمعی کی خدمت میں تعلیم وتربیت کے لیے بھیجا۔ایک دن خلیفہ ہاروں اپنے بیٹے سے ملنے گے تو کیا دیکھتے ہیں کہ شہزادہ پانی ڈال رہا ہے اور استاد محترم اپنے پیر دھو رہے ہیں۔خلیفہ نے کہا میں نے اپنے بیٹے کو آپ کے پاس تربیت کے لیے بھیجا ہے، اگر آپ اسے ادب سکھاتے تو کتنا اچھا ہوتا۔استاد نے فرمایا یہ پانی ڈال تو رہا ہے۔خلیفہ نے جواب دیا حضرت آپ اسے حکم دیتے کہ یہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالتا اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاوں دھوتا تب ٹھیک تھا۔۔۔۔
قاضی فخر الدین ”مسرو” شہر کے امام تھے فرماتے ہیں کہ میں اگر اس مرتبے تک پہنچا ہوں تو یہ فقط اس وجہ سے کہ میں نے تیس سال اپنے استاد کا کھانا پکایا لیکن کھبی امانت میں خیانت نہیں کی۔
باادب بانصیب
بے ادب بے نصیب
دیکھا نہ کوہ کن کو?ی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کو?ی استاد کے بغیر

بیشک استاد کے بغیر کسی بھی منزل کا حصول۔ممکن نہیں میرا سلام میرے ان تمام استاتذہ کو جنہوں نے میری ہمیشہ ہر شعبے زندگی میں رہنمائی فرمائی۔۔۔میرے لڑکھڑاتے قدموں کو سہارا دیا۔۔۔میری ہر مشکل میں میرے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے میرے تمام محسنین کو سلام
میرے الفاظ حق ادا نہیں کر سکتے
بہر کیف ایک فقط ایک کوشش ہے
اختتامیہ فقط اتنا کہ
کچھ لوگ پوچھتے ہیں کمال ہنر میرا
کچھ باکمال لوگ میری دسترس میں ہیں

Short URL: https://tinyurl.com/2l3rn6o6
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *