قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید۔۔۔۔ تحریر: رضوان اللہ پشاوری

Rizwan Ullah Peshawari
Print Friendly, PDF & Email

سیاست کی دنیا میں جہاں بھی نظر دوڑائی جائے تو وہاں پر آپ کو مولانا ہی صف اول میں کھڑا نظر آئے گا،جہاں کہیں بھی آپ اعلاء کلمۃ اللہ اور ایوان اقتدار میں دین کے محافظین دیکھیں گے تو صف اول کا مجاہد آپ کو مولانا ہی نظر آئے گا،جہاں بھی حکمرانوں پر کوئی سخت کوفت آں پڑی ہے تو وہاں پر مولانا ہی نے حکمرانوں کو ہاتھ دے کر اس دلدل سے نکالا ہے،جہاں بھی اس مملکت خداداد کے ایوان پر بیٹھے لوگوں کے قدم پھسل گئے ہیں تو وہی پر مولانا کا قدم جما ہی رہا ہے،اب بھی جب مولانا نے دین اسلام کو بچانے کے لیے’’ تحفظ حقوق نسواں ‘‘بل کو زن مریدوں کا بل قرار دیا ہے تو بالکل اسلام ہی کی روشنی میں قرار دیا ہے۔اسلام نے عورت کو ایک مقام د یا ہے اور آپ ہی ان عورتوں کو اس مقام سے گرانے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں،آپ کواسی طرح ہر محاذ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
پنجاب اسمبلی نے تحفظ حقوق نسواں کے نام سے گذشتہ دنوں ایک بل پاس کیا جس پر پاکستان کی صف اول کی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن کی طرف سے شدید ردعمل آیا قائد جمعیت نے پنجاب اسمبلی کے بل کو “خاندانی نظام” کو تباہ کرنے کا عمل اور پنجاب اسمبلی کو “زن مریدوں ” کی اسمبلی سے تعبیر کیا ، مولانا فضل الرحمن کے مؤقف کے بعد ہر طرف سے لبرل اور سیکولر طبقے نے “عورت ” کے نام پر دیندار طبقے کو نشانہ بنانا شروع کردیا، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ بل کس طرح “مشرقی خاندانی نظام” پر حملہ ہے اس کی وضاحت میں مولانا فضل الرحمن نے کوئٹہ میں بتا دیا تھا کہ مسلم لیگ نے “پرویز مشرف دور” کے ” حقوق نسواں بل “کو قانون کا حصہ بنایا ہے ، جبکہ مشرف دور میں مسلم لیگ ن نے اس بل کی اسی طرح شدت سے مخالفت کی تھی جس طرح مذہبی طبقات نے کی تھی، اگر کل یہ بل “عورتوں کے حقوق اور خاندانی نظام ” ڈاکہ تھا تو آج کیسے یہ بل عورتوں کے حقوق کا محافظ ہوگیا، یعنی یہ بات واضح ہوگئی کہ مشرف سے مسلم لیگ کے اختلافات اصولوں پر نہیں بلکہ ذاتیات پر تھے ، جس طرح ہم نے مشرف دور میں اسے خاندانی نظام کی تباہی سے تعبیر کیا تھا آج بھی ہم اسے خلاف شریعت اور مشرقی خاندانی نظام کی تباہی سے تعبیر کرتے ہیں،
یہ بل شریعت سے اور مشرقی خاندانی نظام سے کیسے متصادم ہے آئیے ذرا ایک سرسری سی نگاہ ڈالتے ہیں۔
شریعت مطہرہ کہتی ہے کہ جب بھی میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہو تو اس کو پیار محبت سے حل کرنے کی کوشش کریں، اگر ناچاقی کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی چلی جاتی ہے تو ایک دوسرے سے بستر جدا کرلئے جائیں ، اگر تب بھی صلح صفائی کی کوئی راہ نہیں نکلتی تو دونوں اطراف کے بزرگوں کو بٹھا کر معاملہ کو سلجھایا جائے ، اگر معاملہ تب بھی نہیں سلجھتا تو اس کا آخری حل “جدائی” طلاق/خلع” لینا ہے ،لیکن یاد رکھنا حلال کاموں میں سے رب کو سب سے ناپسندیدہ کام “طلاق” ہے ۔
اس بل کے آرٹیکل 7 میں 11 شقیں ہیں جن پر بنیادی طور پر جماعت (جمعیت علماء اسلام) کو خاندانی نظام کے حوالے سے تحفظات ہیں۔
پہلی شق کہتی ہے کہ ناچاقی اور جھگڑے کی صورت میں مرد کو عورت سے بات کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔جبکہ شریعت کہتی ہے کہ پہلے اسٹیج پر باہمی بات چیت سے مسئلہ کا حل نکالا جائے لیکن پنجاب اسمبلی کا کہنا کہ “مرد عورت سے بات کرنے کا مجاز نہیں ہوگا”
کیا یہ کھلم کھلا شریعت سے بغاوت نہیں ہے ، کیا اس سے دوریاں اور اختلافات کو ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھاوا نہیں مل رہا۔
اس آرٹیکل کی دوسری شق کہتی ہے کہ عدال مرد کو عورت سے دوری پر پابند کرسکتی ہے تو اب عورت سے دوری کی کیا حیثیت ہوگی آیا اسے شہر بدر کیا جائے گا یا گھر سے باہر اس چیز کا تعین پولیس یا کورٹ کرسکتی ہے ۔جبکہ شریعت کہتی ہے کہ جب معاملات حل نہ ہوسکیں تو بستر جدا کردئے جائیں پنجاب اسمبلی کہتی ہے کہ مرد کو نکال دیا جائے ،کیا یہ زن مریدی نہیں ہے ؟وہ شریعت جو کہ مرد کے فوت ہونے یا طلاق کی صورت میں بھی عورت کو گھر سے نکالنے پر پابندی لگاتی ہے اس کے مقابلے میں آج کا قانون ساز کہتا ہے کہ مرد کو گھر سے نکال دیا جائے ؟
اسی آرٹیکل کی تیسری شق کہتی ہے کہ عورت کے رپورٹ کرنے کے بعد پولیس مرد کو کلائی میں یا پنڈلی پر ایک ٹریکر باندھے گی جس کے ذریعے مرد کے آنے جانے کی تمام موومنٹ کو پولیس 24 گھنٹے اور ہفتے کے 7 دن مانیٹر کرے گی؟آپ بتائیں کہ کیا یہ اقدام انسانی عقل کے مطابق بھی ہے ؟ کہ ایک طرف آپ شوہر کو گھر سے باہر نکال دیں، اور پھر اس پر ٹریکر ڈیوائس لگا دیں ؟ کیا اتنی تذلیل کے بعد کوئی ذی شعور شخص اپنا گھر دوبارہ بسانے پر تیار ہوگا؟پنجاب اسمبلی کا یہ قانون خاندانی نظام کو توڑنے کا ایک آلہ تو ہوسکتا ہے لیکن عورتوں کے حقوق کا محافظ نہیں۔
اسی آرٹیکل کی چند شقیں یہ بھی ہیں کہ جس گھر میں مرد نے عورت کو رکھا ہوا ہے اس گھر سے مرد دور رہے گا وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔
*عورت کے ماں باپ کے گھر یا جہاں عورت کا آنا جانا زیادہ ہو مرد وہاں بھی نہیں جا سکے گا۔گویا کہ سسرال سے تعلق رکھنا مناسب نہ ہوگا حالانکہ شریعت میں ساس کو ماں کا درجہ دیا گیا ہے۔
* عورت کے بچے عورت کی تحویل میں رہیں گے ، جبکہ مرد کو بچوں اور عورت کے رشتہ داروں سے بھی قطع تعلقی کرنی ہوگی تا وقتیکہ صلح صفائی کا کورٹ کا فیصلہ آجائے۔
یہی وہ نکات ہیں جن کی بنیاد پر مولانا نے کہا کہ یہ خاندانی نظام کو تباہ کرنے کا قانون ہے جبکہ یہ بل 25 مئی 2015 کو پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا جس پر ن لیگ کی کچھ اراکین کے بھی تحفظات تھے ، لیکن کھینچا تانی او دباؤ سے بالاخر سات ماہ بعد اسے منظور کرا ہی لیا گیا ۔
پورے بل میں مرد کو دنیا کے کسی بھی خطرناک دھشت گرد سے بھی زیادہ خطرناک پیش کیا گیا ہے اسی لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اب تحریک تحفظ حقوق شوہراں چلائی جائے ،وہ معاشرہ جہاں مرد / شوہر کا ایک وقار ہے جہاں شوہر کو سر کا تاج اور گھر کا سربراہ سمجھا جاتا ہے اس معاشرے میں چند این جی اوز کے کہنے پر پورے صوبے کے مردوں کی تذلیل مہر ثبت کررہی ہے مولانا کی اس بات پر کہ “پنجاب اسمبلی زن مریدوں کی اسمبلی ہے ، اس بل کی آڑ میں میاں برادراں اپنے “لبرل ازم ” کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں، لیکن انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ جمعیت چاہے اقتدار میں ہو یا اپوزیشن میں غیر اخلاقی، غیر شرعی اقدامات کا راستہ روکے گا ان شاء اللہ ۔
آیئے میں آپ کو ایک آسان سا مثال دے کر سمجھاتا ہوں کہ اگر کسی دریائی جہاز میں دو فلور ہو اور وہ نیچے فلور والے اوپر آکر وہاں سے پانی لیتے ہوں اب یہ اوپر والے ان سے کہے کہ پھر یہاں مت آنا تو وہ لوگ اپنی ضرورت کو پوری کرنے کے لیے دریائی جہازکے نچلے حصہ میں سراخ نکالنے لگے کہ ہم یہاں سے پانی حاصل کریں گے تو چاہئے کو وہ اوپر فلور والے ان کو منع کریں کہ ایسا نہ کرنا ورنہ ہم سارے ڈوب جائیں گے،بالکل ایسا ہی یہاں مملکت خداداد میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی بقاء کے لیے جمعیت علماء اسلام کو وجود دی ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/hnkycr9
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *