اسلام اور امن عالم

Rizwan Ullah Peshawari
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: مولانا رضوان اللہ پشاوری
اسلام ایک سراپا امن وسلامتی کامذہب ہے،اس کی تعلیمات ،اس کا فلسفۂ زندگی اور اس کے اصول وضوابط سب کے سب ظلم وبربریت ،انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ہیں،اسلامی تاریخ وتہذیب اورتعلیم کی روشنی میں اسلام ہی درحقیقت امن کا حامل،علمبردار اور آئینہ دار ہے،مذہب اسلام امن وسلامتی کو انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے بنیادی ضرورت قرار دیتا ہے،اور اس کی قطعی اجازت نہیں دیتاکہ ایک انسان دوسرے انسان کے جان ومال پر حملہ کرے،اسلام نے بے جاوبے قصور کسی انسانی جان کے ضیاع وقتل کو پوری انسانیت کا قتل قراردیاہے،جبکہ کسی جان کی تحفظ وحمایت اور زندگی کے بچاؤ کو پوری انسانیت کی حمایت اوربچاؤ قرار دیاہے،اسلام نے ظلم وستم،قتل وغارت گری اور وحشت وحیوانیت پر نہ صرف نکیر کی بلکہ اسے قابل نفرت اور گردن زدنی جرم قرار دیا۔
قرآن پاک جس عظیم ہستی پر نازل ہوا خود اس کا فرمان ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی یعنی غیر مسلم شہری کو دکھ پہنچائے تو خود نبی ﷺ قیامت کے دن اس مسلمان کے خلاف اس غیر مسلم کی طرف سے کھڑا ہوگا۔کیا پیغمبر اسلام کے اس واضح فرمان کے بعد بھی اس پروپیگنڈہ پر یقین کر نے کی گنجائش رہتی ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے،اسلام اور تشدد دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں،جہاں اسلام ہوگا تشددوہاں کھڑانہیں ہو سکتا،اسلام تشدد کے مقابلہ کے لئے سب سے طاقتور ہتھیار ہے،حضوراکرم ﷺ ہر روز جب تہجد کے وقت بیدار ہوتے تو فرماتے:’’اے اللہ میں گوہی دیتا ہوں کہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘دنیا کے جس خطہ میں اور جہاں جہاں مسلم اور غیرمسلم ملی جلی آبادی میں رہتے ہیں وہ عملی وسماجی زندگی میں اسی شہادت رسول کی روشنی میں ایک دوسرے کے ساتھی اوررفیق ہیں،وہ شریعت اسلامیہ کی روسے امن وسلامتی اور اعتماد وبھروسہ کے معاہدہ میں بندھے ہوئے ہیں۔دراصل اسلام بنیادی طورپر امن وسلامتی کی دعوت دیتا ہے،جنگ پر صلح کو فوقیت دیتا ہے۔
دہشت گردی کی تعریف:
دہشت گردی کی کوئی مسلمہ اور متفقہ تعریف اب تک متعین نہیں کی جاسکی ہے،اور نہ ہی اس کے حدود متعین کئے جاسکے ہیں،چونکہ دہشت گردی کی اصلاح کشادہ اور وسیع المفہوم ہے،اس لئے اس کی بہت سی تاویلیں اور متعدد تعبیریں کی جاسکتی ہیں۔ثقافتی اور نسلوں،مصالح واغراض،قوموں اور مذاہب اور عقلوں اور فکروں کے اختلاف سے دہشت گردی کے بہت سے معنی ومفہوم متعین کئے جاسکتے ہیں،تاہم عالمی سطح پر یہ اصطلاح استعمال کی جارہی ہے کہ حکومتیں اپنے سیاسی مخالفین کے تشدد اور غم وغصہ کے اظہار کو دہشت گردی قرار دیتی ہے،اور اس کے مخالفین حکومت کی سختی یا فوجی کاروائیوں کو سرکاری دہشت گردی کانام دیتے ہیں،گویا حکمران طبقہ عملی طور پر اس بات پر متفق ہے کہ منتخب یامسلمہ حکومت کے خلاف کوئی بھی تشدد،احتجاج اور مظاہرہ دہشت گری ہے۔
بہر صورت دہشت گردی کے معنی ومفہوم کی معقول اور سبھوں کے لئے قابل قبول تعیین اور حد بندی کے حوالہ سے خاصی پیچیدگی اور دشواری پائی جاتی ہے،تاہم مولانا عبدالحمید دہشت گردی کی تعریف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:’’دہشت گردی صحیح معانی میں بے قصور اور معصوم افراد کو غیر استحقاقی طور پر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ایسی جارحانہ کاروائی اور ظلم وستم کا نشانہ بنانے کانام ہے جس سے وہ ہراساں وخوف زدہ ہوجائیں،ایسا فرد،قوم اور تنظیم کی طرف سے بھی ہوتا ہے اور ادارہ اور ملک کی طرف سے بھی،یعنی کسی فرد،جماعت،قوم یا ملک،ادارہ کا وہ عمل دہشت گردی ہے جس کا مقصد عام افراد کو عمومی طور پر اور اپنے مخالف قوت کو خصوصی طور پر دہشت میں ڈال کر اپنی غرض ومطلب کاحصول ہو۔(ماہنامہ دین مبین بھوپال)
حکومت کے ظالمانہ سلوک پر دہشت گردی کا اطلاق:
وہ حکومت جو اپنے ملک میں بسنے والے تمام طبقات کے ساتھ عدل وانصاف کا سلوک نہ کرے،بلکہ بعض طبقات کے ساتھ سیاسی ومعاشی ناانصافی روارکھے اور اس طبقے کی جان ومال کے تحفظ میں دانستہ کوتاہی سے کام لے،یاسرکاری سطح پر ایسی تدبیریں اور کوشش کی جائیں کہ وہ طبقہ مالی وجانی نقصان سے دوچار ہوتوایسی حکومت اور ان کے اس غیر منصفانہ اور ظالمانہ رویہ پر بھی دہشت کااطلاق ہوگا۔کیونکہ بے قصور ومعصوم افراد کو ستانا،ان کے ساتھ عدل وانصاف کا سلوک نہ کرنا،سیاسی ومعاشی ناانصافی روارکھنااور دانستہ جان ومال کے تحفظ میں کوتاہی خواہ کسی فرد کی جانب سے ہویاحکومت کی طرف سے،یہ سب دہشت گردی ہی کے زمرے میں آتے ہیں۔
حکومت کے غیرمنصفانہ سلوک کے خلاف احتجاج:
اگرحکومت وقت کسی گروہ یا طبقہ کے ساتھ ناانصافی روارکھتی ہے تو اس پر احتجاج اور ردعمل کا اظہار جائز ہی نہیں بلکہ جمہوری اور انسانی حدود میں رہ کر واجب ہے،دستوروقانون کے تحت تسلیم کئے گئے جائز حقوق کو حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا جائز ہے،جمہوری حکومت میں اپنے جائز حقوق کے منوانے کے لئے جو طریقے مؤثر ہوتے ہیں ان سب کااستعمال کیا جاسکتا ہے،بشرطیکہ وہ طریقے شرعی اعتبار سے دائرہ جواز میں آتے ہوں،اور جو طریقے سراسر غیر اسلامی ہوں ان کا اختیار کرنا جائز نہیں۔یہ واضح رہے کہ مظلوم کا ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا دہشت گردی کے دائرہ میں نہیں آتا ۔
بے قصور افراد سے ظلم کا بدلہ لینا:
اگر کسی ایک طبقہ کی طرف سے ظلم وزیادتی ہو جس میں اس طبقہ کے تمام افراد شریک نہ ہوں توظلم کرنے والے گروہ کے ان لوگوں سے بدلہ لینا جائز نہیں ہے جو بے قصور ہوں اور جو خود اس ظلم میں شریک نہ ہوں،کیونکہ اسلامی شریعت میں چاہے فرد کامعاملہ ہو یاجماعت کا مخلص مذہبی اور مسلکی وابستگی کی بنیاد پر غیر متعلق افراد کو دوسرے عمل کے لئے ذمہ دارقرار دینا جائز نہیں ہے،ایک کے عمل کے لئے دوسرے کو ذمہ دار قرار دینا قطعاً ناانصافی اور زیادتی ہے۔
البتہ ظلم وبربریت کے خلاف اور مظلوموں کی حمایت کے لئے ممکنہ جائز طریقہ اپنایا جاسکتاہے،اس لئے اسلام نے جنگ کے دوران بھی بچوں،عورتوں، بوڑھوں،عبادت میں مصروف اور جنگ کے لئے غیر اہل افراد سے تعرض کرنے کے سے سختی سے روکا ہے،قرآن مجید نے متعدد مقامات پراس طرف توجہ دلائی ہے کہ جنگ سے غیر متعلق رہنے والے افراد کو دوران جنگ کسی قسم کانقصان نہ پہنچایاجائے:’’قاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم‘‘(البقرۃ/ ۱۹۰)پیغمبر رحمت ﷺ نے صراحتاً غیر متعلق افراد کو قتل کرنے سے منع کیا:’’لاتقاتلوا شیخاً فانیاً وطفلاً صغیراً وامرأۃً‘‘(ابوداؤد،کتاب الجہاد)یعنی کمزور بوڑھے،بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو۔
فقہائے اسلام تو کمزور وں،عورتوں،بچوں،بوڑھوں کو جنگ کے دوران قتل کی نیت تک کو ناجائز کہتے ہیں،عبادت گذار اور الگ تھلگ رہنے والے راہب وغیرہ کو بھی قتل سے منع کیاہے،اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے امام محمدؒ نے ’’السیر الکبیر‘‘میں نقل کی ہے۔ساتھ ہی اسلام نے عام تباہ کاری کی سخت مذمت کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے،آج کی مہذب دنیا میں بھی برسرجنگ دشمنوں کی ہر چیز اور غیر متعلق افراد کو بھی تباہ کاری کا نشانہ بنایاجاتاہے،لیکن اسلام اسے بدامنی اور فساد قراردیتاہے۔
اسلام تو اس حد تک امن پسند اورصلح پسند ہے کہ جنگ سے بھاگتے ہوئے لڑاکے کا تعاقب کرنے سے روکتا ہے،فتح مکہ کے موقع پر بھی آپﷺ نے اس کی خاص ہدایت فرمائی تھی،تفصیلات کے لئے ہدایۃ المجتہد،نیل الاوطار،جلد۸/ زادالمعاد ،جلد۳/ فتح القدیر،فتح الباری،جلد۷ کو رجوع کیا جاسکتاہے۔
دہشت گردی کے تدارک کے لئے اسلامی ہدایات:
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردی کے کچھ نہ کچھ بنیادی اسباب ومحرکات ہوتے ہیں،جیسے کسی گروہ کے ساتھ معاشی یاسیاسی ناانصافی،ان اسباب کے تدارک کے لئے اسلام کیا ہدایات دیتاہے؟ہم اس کو نہایت اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں:
*۔۔۔اسلامی نظریہ کی روسے ایک انسان بحیثیت انسان شرف وتکریم کے مقام پر کھڑا ہے،اس شرف وفضل میں مومن وکافر سب برابر ہیں،اس لئے کسی انسان کو جو اصلاً معزز ہے،ظلم وزیادتی کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
*۔۔۔کسی بھی طبقے کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک اور اس کی تذلیل وتحقیر نہ کی جائے،نیز کسی گروہ کے ساتھ معاشی اور سیاسی ناانصافی کو روانہ رکھا جائے۔
*۔۔۔مظلوم چاہے جس مذہب کا ہو اس کے ساتھ امتیازی سلوک برتنا تقاضائے انسانیت اور انصاف کے خلاف ہے،لہٰذا فرد ہو یا حکومت ہر ایک کے لئے عدل وانصاف اور مساوات ضروری ہے۔
*۔۔۔اسلامی حکومت کے زیر سایہ رہنے والے غیر مسلم باشندوں کی مذہبی،معاشی،تعلیمی آزادی کے ساتھ جان ومال کے تحفظ کی یقینی ضمانت اسلام فراہم کرتا ہے۔
*۔۔۔مذہب اسلام نے انسانی زندگی کی حرمت کو اتنی اہمیت دی ہے کہ ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے۔
*۔۔۔اگرکسی مسلمان ملک میں غیر مسلم اقلیت آباد ہو تو اسلام میں اس کی جان ومال اورعزت وآبرو کے تحفظ کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔
*۔۔۔اسی طرح نجی زندگی سے متعلق معاملات میں انہیں اپنے مذہب پر چلنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔
*۔۔۔مذہب اسلام نہ صرف ظلم وتعدی سے روکتا ہے بلکہ ظلم کے جواب میں بھی دوسرے فریق کے بارے میں حد انصاف سے متجاوز ہو جانے کوناپسند کرتا ہے۔
*۔۔۔مذہب اسلام انتقام کے لئے بھی مہذب اور عادلانہ اصول وقواعد کو مقرر کرتاہے،جو افراط وتفریط سے پاک ہے۔
*۔۔۔مذہب اسلام غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی ہدایت دیتا ہے اور پوری انسانیت کو اللہ کا کنبہ قرار دیتا ہے۔
جان ومال،عزت وآبرو کی حفاظت اور حدود:
اگر کسی گروہ یافرد کی جان ومال اور عزت وآبرو پر حملہ ہو خواہ یہ حملہ حکومت وقت کی طرف سے ہو یا دہشت گرد اور فرقہ پرست تنظیموں اور تحریکوں کی طرف سے،اس کے دفاع اور سد باب کے لئے اٹھ کھڑا ہونا اور اس کے انسداد کے لئے حتی المقدور کوشش کرنا امت مسلمہ کے فرض منصبی میں سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن نے سب معاملات میں تحمل وبرداشت کی تعلیم دی ہے،مگر کسی ایسے حملہ کو برداشت کرنے کی تعلیم نہیں دی جو دین اسلام کے مٹانے اوراسلام کے سوا دوسرا نظام مسلط کرنے کے لئے کیا جائے،اس نے سختی کے ساتھ حکم دیا کہ جو کوئی تمہاری انسانی حقوق چھیننے کی کوشش کرے،تم پر ظلم وستم ڈھائے،تمہاری جائز ملکیتوں سے تم کو بے دخل کرے،تمہیں اپنے دین وایمان کے مطابق زندگی بسر کرنے سے روکے،تمہاری اجتماعی نظام کو درہم برہم کرنا چاہے تو اس وقت اس سے مقابلے میں اور ان کے سدباب میں ہر گز کمزوری نہ دکھاؤبلکہ اپنی پوری طاقت اس کے اس ظلم کو دفع کرنے میں صرف کردو۔
’’وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ان اللہ لا یحب المعتدین۔۔۔۔الآیۃ‘‘(بقرہ/ ۱۹۰)اور ’’أذن للذین یقاتلون بأنہم ظلموا وان اللہ علی نصرہم لقدیر۔الذین أخرجوامن دیارہم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا للہ۔۔۔۔الآیۃ‘‘(حج/ ۳۹،۴۰)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ان دونوں آیات کی روشنی میں حسب ذیل احکام کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
*۔۔۔جب مسلمانوں سے جنگ کی جائے اور ان پر ظلم وستم کیا جائے تو ان کے لئے مدافعت میں جنگ کرنا جائز ہے۔
*۔۔۔جو لوگ مسلمانوں کے گھر بار چھینیں ان کے حقوق سلب کریں اور انہیں ان کی ملکیتوں سے بے دخل کریں ان کے ساتھ مسلمانوں کو جنگ کرنی چاہئے۔
جب مسلمانوں پر ان کے مذہبی عقائد کے باعث تشدد کیا جائے اور انہیں محض اس لئے ستایا جائے کہ وہ مسلمان ہیں تو ان کے لئے اپنی مذہبی آزادی کی خاطر جنگ کرنا چاہئے۔
*۔۔۔دشمن غلبہ کر کے جس سرزمین سے مسلمانوں کونکال دے،یا مسلمانوں کے اقتدار کو پامال کردے اور مٹادے اسے دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے،اور جب کھبی طاقت ہو تو ان تمام مقامات سے دشمنوں کو نکال دینا چاہئے،جہاں سے انہوں نے مسلمانوں کو نکالاہے۔(الجہاد فی الاسلام/ ۶۳)
البتہ غیر اسلامی ملکوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور ان کے پاس دفاع کی طاقت نہیں ہے،وہاں اس ظلم وزیادتی کے سدباب کے لئے حتی المقدور جمہوری طریقہ کو اپنایا جائے۔
جمہوری ممالک میں اپنے جائز حقوق کو منوانے کے لئے جو طریقے مؤثر ہو سکتے ہیں ان سب کا استعمال کیا جاسکتا ہے،بشرطیکہ وہ طریقے شرعی اعتبار سے دائرہ جواز میں آتے ہوں۔
خلاصہ تحریر:
اس تمام تحریر کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ اسلامی اخلاق کے خلاف یہ بات ہوگی کہ ظلم کرنے والے گروہ کے ان لوگوں سے بدلہ لیا جائے جو بے قصور ہوں اور خود اس ظلم میں شامل نہ ہو۔

Short URL: http://tinyurl.com/y25zlqct
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *