رہبانیت اور جعلی پیر۔۔۔۔ تحریر: ابن نیاز

Ibn-e-Niaz
Print Friendly, PDF & Email

گزشتہ چند دنوں سے میری طبیعت ناساز تھی۔ کچھ گردوں میں پتھری کی شکایت تھی۔ علاج چل رہا تھا۔ الحمدللہ بہتری کی طرف گامزن ہوں۔ اسی دوران ایک دن آفس میں بیٹھا کام ہو رہا تھا کہ ایک ساتھی عمومی طور پر ملا۔ حال احوال پوچھا۔ بتایا کہ آج کل گردوں کی شکایت ہے تو کہنے لگا کہ کھیوڑہ کے قریب ایک مقام ہے جہاں کا پانی پی لیں تو آرام آجائے گا۔ میرے پوچھنے پر کہ اس پانی کی خصوصیت کیا ہے تو جواب ملا کہ وہاں جس بزرگ کی زیارت ہے ، اس بزرگ نے اس پانی میں کچھ عرصہ ریاضت کی تھی۔ یہ یاد نہیں رہا کہ وہ بزرگ وہاں کوما کی سی حالت میں رہے تھے یا بیٹھے رہے تھے ۔ لیکن یہ یاد ہے کہ انھوں نے بنا وقفہ کیے وہاں ریاضت کرتے رہے تھے۔ میں نے اس ساتھی سے کہا کہ یہ سنا گیا ہے کہ آب زم زم کو جس بیماری میں صحت یابی کی نیت سے پیا جائے اور صدق دل سے پیا جائے تو اس بیماری سے اللہ پاک ضرور صحت یاب کر دیتے ہیں۔ اور میں کتنی بار آب زم زم پی چکا ہوں۔ لیکن ابھی تک مکمل صحت یاب نہیں ہوا۔ تو جب مجھے آب زم زم سے راس نہیں آیا تو پھر دنیا کا کوئی اور پانی کیسے راس آسکتا ہے؟ وہ بھی اس طرح کا پانی جس میں کوئی شخص کچھ عرصہ اس حالت میں بیٹھا ہو کہ نہ اس کی پاکی ناپاکی کا علم ہو، نہ کچھ اور۔ مزید اضافہ یہ کہ اتنے دنوں میں کیا اس نے نماز وغیرہ کا کیا اہتمام کیا ہو گا؟ اور پھر یہ کہ حدیث کے مطابق ’’اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ہے‘‘۔ تو جب رہبانیت اسلام میں منع ہے تو پھر کوئی بھی فرد چاہے وہ اللہ کی رضا کے لیے کرے، اگر اس میں وہ اسلام کے بنیادی ارکان کی پابندی نہیں کرتا ، تو اسکی وہ رہبانیت کسی کام کی نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جب تک نبوت نہیں ملی تھی، تب تک تو آپ ﷺ غارِ حرا میں تنہائی میں بیٹھ کراللہ کی نشانیوں پر غور فرماتے تھے۔کائنات کیسے تخلیق ہوئی؟ آسمان، سورج ، چاند ، زمین کیا ہیں؟ کائنات اور انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ اس طرح کی بہت سی باتوں پر آپ ﷺ غور فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ اپنے ساتھ خورد نوش کا سامان لے جایاکرتے تھے۔ دیکھ لیں، کہیں پر بھی اس طرح کا عمل نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ آپ ﷺ نے بالکل ہی دنیا سے کنارہ کر لیا ہو۔ کھانا پینا چھوڑ دیا ہو۔ جب نبوت سے سرفراز ہوئے تو دنیا سے رخصت ہونے کے وقت تک تئیس سال کے عرصے میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملے گی جسے ان کی زندگی میں رہبانیت کا عرصہ کہا جا سکے۔
سورۃ الحدید آیت ۲۷ میں اللہ پاک فرماتے ہیں: ’’پھر اس کے بعد ہم نے اپنے اور رسول بھیجے اور عیسٰی ابن مریم کو بعد میں بھیجا اور اسے ہم نے انجیل دی، اور اس کے ماننے والوں کے دلوں میں ہم نے نرمی اور مہربانی رکھ دی، اور ترک دنیا جو انہوں نے خود ایجاد کی ہم نے وہ ان پرفرض نہیں کی تھی مگر انہوں نے رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا پس اسے نباہ نہ سکے جیسے نباہنا چاہیے تھا، تو ہم نے انہیں جو ان میں سے ایمان لائے ان کا اجر دے دیا، اور بہت سے تو ان میں بدکار ہی ہیں۔‘‘ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رہبانیت اختیار کرنے والے اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ اس میں اللہ کی رضا شامل نہیں ہوتی۔ اب اگر کوئی کہے کہ یہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کے بارے میں کہا گیا ہے لیکن پھر وہ اس کو پوری طرح اور اس کی روح کے مطابق نہ نباہ سکے جیسا کہ نباہنے کا حق تھا تو میرا سوال ان سے یہ ہے کہ پھر یہ بات ہمیں کیوں بتائی گئی؟ قرآن سے ہی یہ ثابت ہے کہ ہمیں یعنی اس آخری امت کو ماضی کی یہ باتیں اسلیے بتائی جاتی ہیں کہ ہم ان سے سیکھیں، اگر عبرت کا مقام ہے تو عبرت حاسل کریں۔ ورنہ ہمیں فرعون کے غرقِ دریا کا قصہ کس لیے بتایا گیا؟ واضح ہوتا ہے کہ اللہ نے دنیا بنائی ہے، دنیا میں رہنے والے بنائے ہیں۔ آپس میں تعلق رشتہ داری ، برادری قائم کی ہے، قبیلے آئے، تو ظاہر ہے ان کو آپس میں تعلقات بھی تو رکھنے ہیں۔کہ جب اللہ پاک کے فرمان کے مطابق ’’ اور لوگوں سے اچھے طریقے سے بات کرو‘‘ کے مصداق یہ فرض ہے کہ آپ کا اپنے ارد گرد لوگوں سے رابطہ رہے گا۔ پھر حکم ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور قرابت داروں کے ساتھ اور یتیموں کے ساتھ اور مساکین کے ساتھ اور مسافروں کے ساتھ۔ تو اگر رہبانیت اختیار کی جائے گی تو یہ سب کچھ کہاں جائے گا۔ پھر تو اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی نا۔ کیونکہ قرآن پاک میں جو احکامات ہوتے ہیں ان پر عمل فرض ہوتا ہے۔ آپشن کی گنجائش نہیں ہوتی۔
ہزاروں بزرگوں کی حکایتیں سب کی نظروں سے گزری ہوں گی۔ سید علی ہجویری، خواجہ نظام الدین، بہاؤ الدین زکریا ملتانی ، بابا فرید الدین رحمہ اللہ علیہم جیسے ہزاروں بزرگ گزرے ہیں۔ مختلف کتابوں میں ان بزرگوں کی ابتدائی زندگی کے بارے میں مختلف حالات درج ہیں۔ایک بزرگ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب ان کو ان کے والد ان کے ہونے والے مرشد کے پاس لے گئے تو مرشد نے باطنی نگاہ سے مستقبل کے ولی اللہ کو پہچان لیا۔ والد صاحب کو رخصت کیا۔ اور پھر مرید سے فرمایا کہ یہ کمرہ ہے۔ اس میں بند ہو جا۔ اور جب تک میں نہ کہوں یا کمرے کا دروازہ نہ کھولوں، دروازہ نہیں کھولنا۔ اور ساتھ میں انہیں اک ورد سکھا دیا کہ اس کو پڑھتا رہ۔ بارہ سال گزر گئے۔ اب بندہ کہے کہ بارہ سال تک کیا اس کو کھانے پینے کی اشیاء دینے کے لیے فرشتے آئے ہوں گے، حضرت بی بی مریم علیہاالسلام کی طرح ۔ پھر جب وہ بچہ آیا تھا تو اس وقت ان کی عمر کوئی دس سال کے لگ بھگ تھی۔ اب دس کا بچہ ہو ، وہ کتنے دن بھوک پیاس برداشت کر سکتا ہے۔ یا چلیں سمجھ لیتے ہیں کہ ان کے مرشد نے انہیں کھانے پینے کے لیے کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی طریقے سے مہیا کرتے ہوں گے۔ لیکن دس کے بچے پر نماز فرض ہے۔ پھر اللہ کے حکم کے مطابق جماعت کے ساتھ فرض ہے۔ تو بارہ سال بچے میں بچہ جوان ہوا۔ اس نے جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ کیونکہ جہاں ان کی ریاضت کے بارے میں لکھا ہوا ہے، وہاں اگر انھوں نے نماز پڑھی ہوتی تو یہ کچھ بھی لازمی لکھا ہوتا۔ کیا کوئی بھی آج کا کوئی بھی عالم، سوائے غامدی صاحب کے، عمار ناصر صاحب کے یا عامر لیاقت حسین کے یہ بتا سکتا ہے کہ جماعت کی نماز کس کیا اس طرح معاف کروائی جا سکتی ہے اور نماز پر ریاضت کو ترجیح دی جاسکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔
اسکے بعد اللہ نے بہت سے بزرگوں کو ولی، قطب، ابدال ، غوث کے درجے پر فائز کیا۔ مجھے تو یہ القابات ہی سمجھ نہیں آتے۔ کیا اللہ نے قرآن پاک میں یہ القابات اس حکم کے تحت بیان فرمائے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کیے بہت بعد کچھ امتی ان القابات کے لائق ہوں گے۔ یاپھر اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے بعد آنے والے اپنی امت کے بہترین لوگوں کے لیے یہ القابات وضح کیے تھے۔ چلیں جو بھی ہے، تصوف کے کھیل ہیں، میری سمجھ سے باہر۔ لیکن کیا کوئی ان اولیاء سے ثابت کر سکتا ہے کہ انھوں نے کہا ہو کہ وہ داتا ہے (جبکہ دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ کی ہے)۔ سورۃ الحدید کی آیات ۲۸ ۔ ۲۹ میں اللہ فرماتے ہیں: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت سے دوہرا حصہ دے گا اور تمہیں ایسا نورعطا کرے گا تم اس کے ذریعہ سے چلو اور تمہیں معاف کر دے گا، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔ تاکہ اہلِ کتاب یہ نہ سمجھیں کہ (مسلمان) اللہ کے فضل میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے، اور یہ کہ فضل تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہے دے، اور اللہ بڑا فضل کرنے والا ہے ‘‘۔ کہا لکھا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی کچھ دینے والا ہے؟ پھر کیوں ان کی قبروں پر جا کر ان سے مانگتے ہو۔ وہ تو مردہ ہیں اور مردوں کو اپنے حساب کتاب سے فرصت نہیں ہوتی، وہ دنیا والوں کو کیا جواب دیں گے؟ شہید بے شک زندہ ہے، لیکن اس طرح نہیں کہ وہ اپنی قبر پر آنے والوں کی مرادیں پوری کرتا پھرے۔ ہمارے عوام اندھی تقلید میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے احکامات کو بھول جاتے ہیں۔ باوجود اس کے ان کو علم ہے کہ یہ فوت شدہ ہیں۔ لوگ پھر بھی ان بزرگوں کے دربار پر جاتے ہیں اور ان سے مانگتے ہیں۔ وہاں مرادیں مانگتے ہیں کہ بابا جی اگر یہ کام ہو گیا تو چادر چڑھاؤں گا۔ کالا بکر زبح کروں گا ، وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ قرآن پاک میں اللہ فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ اللہ کے نام کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا تو وہ حرام ہے۔ اب پھر لوگ کہتے ہیں کہ نام تو اللہ کا ہی لیتے ہیں بس ذبح بابا جی کی قبر پر کرتے ہیں کہ وہ قبول کر لیں۔ کوئی بتائے کہ ہم بتائیں کیا۔ جب نیت یہ ہو کہ قبول بابا جی کرے، تو گویا نام بھی بابا کا ہی ہوا۔ مجھے اگر کوئی کہے کہ میں آپ کے نام پر دس ہزار روپے کسی ادارے کے کلرک کو دیتا ہوں کہ وہ میرا کام کر لے قبول کرنے والا کون ہوا، میں یا وہ کلرک؟ لوگو! خدا کا واسطہ سمجھو۔ اپنے دین کو ، اپنے ایمان کو خراب مت کرو۔
تو میرے عزیز بھائیو اور بہنو! یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جو شخص پیر بنا پھرتا ہے، پھرتا کیا ایک جگہ بیٹھا ہے۔ سب سے پہلے تو اسکا ظاہری حلیہ ہی دیکھ لیں۔ اگر شریعت کے مطابق نہیں ہے یعنی بال بڑے بڑے لیکن بکھرے سے اور میلے کچیلے، جسم میل اور دھول مٹی سے اٹا ہوا (صفائی نصف ایمان ہے۔ حدیث)۔ نماز روزہ سے اس کو کوئی سرو کار نہیں۔ نماز کا وقت ہوا لیکن نماز کے لیے نہیں گیا۔ کسی نے پوچھا کہ حضرت نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ تو جواب ملتا ہے کہ ہم نے یہیں بیٹھے بیٹھے پڑھ لی۔ بلکہ یہاں کیا ہم خانہ کعبہ میں پڑھ کر آئے ہیں۔ ہمارا وضو یہاں ہوتا ہے اور نماز خانہ کعبہ میں ہوتی ہے۔ یعنی وہ شخص اپنے آپ کو انبیاء کرام اور صحابہ کرام سے بھی بڑھ کر بتاتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کہاں کا دین ہے؟ اس کے بعد اس کی حرکت، اگر وہ خواتین سے ملنے میں خوشی محسوس کرتا ہے،جیسا کہ آج کل سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز وائرل ہوئی ہوئی ہیں جن میں نام نہاد پیر خواتین کو گلے لگاتے پھرتے ہیں (خواتین سے معذرت کے ساتھ)۔ بھرپور جھپیاں لگاتے ہیں۔ پھر ان کو ماتھے پر بوسہ دیتے ہیں۔ تو یہ کہاں کا اسلام ہے۔ کہاں کادین ہے؟ کم از کم اسلام میں اس کی بالکل بال برابر بھی گنجائش نہیں۔ پھر ایک ویڈیو میں ایک جوان پیر ایک لڑکی کو سامنے بٹھائے اس کی قمیض کا اگلا دامن اونچا کیے اسکے نیفے کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ پھر تھوڑا سا نیفے میں ہاتھ ڈالتا ہے اور ایک شعبدہ اختیار کرتے ہوئے اپنے بیٹھنے کی دری کے نیچے سے سب کی آنکھ سے چھپاتے ہوئے ایک گول گول کوئی سفید سی اٹھا کر اس کو نیفے کی طرف لے جاتا ہے۔ پھر یوں ایک جھٹکے سے نکالتا ہے جیسے اس لڑکے کے پیٹے کے زیریں حصے سے نکالا ہو۔ پھر ا س کو اس لڑکے کے گھروالوں اور دیگر حاضرین کو دکھاتا ہے کہ یہ چیز تھی جس کی وجہ سے لڑکی پر جن آیا ہوا تھا۔ اب جن بھاگ گیا ہے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ دین اسلام میں خواتین کو چھونے کا اختیار نہیں ہے، چہ جائیکہ اس کے بدن کے ساتھ کھیلنا۔
میرے بھائیو اور بہنو! آپ کے ہاں اولاد نہیں ہے تو بھی بابا کیا دے گا۔ اولاد اور اس کی رزق کا وعدہ اللہ نے کیا ہوا ہے۔ آپ اپنا حیلہ کریں۔ ساتھ میں خواتین سورہ مریم کی تلاوت صبح کی نماز کے بعد پابندی سے کیا کریں۔ مرد حضرات حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا ’’ شرح دعاء4 :رَبِّ ھَب لِی مِن لَّدْنکَ ذْریَّۃً طیِّبَۃط۔اِنَّکَ سَمِیعْ الدّْعَاء۔ کو ہر نماز کے بعد اپنا ورد بنا لے۔ اگر نصیب میں اولاد ہوئی تو ان شاء اللہ ضرور عطا ہو گی۔اگر آپ کے گھر میں کوئی پریشان ہے، کوئی تکلیف ہے، کوئی بیمار ہے، کسی پر آپ کو شک ہے کہ جادو ٹونہ کیا ہوا ہے۔ تو اللہ پاک کے قرآن میں ہر چیز موجود ہے۔ نماز کی پابندی کریں۔ تلاوت کی پابندی کریں، چاہے روزانہ ایک رکوع ہی پڑھیں۔ کیونکہ یہ کہا گیا ہے کہ جس گھر میں نماز اور تلاوت کی پابندی کی جاتی ہو ، وہاں جادو ٹونہ ہونا ممکن ہی نہیں۔ پھر جادو ٹونہ کا بہترین علاج معوذتین یعنی سورۃ فلق اور سورۃالناس ہیں۔انہیں پڑھ پڑھ کر متأثر پر دم کریں بھی اور پانی پر بھی دم کر کے پلائیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے اگر مریض ٹھیک نہ ہوا تو پھر کہیے گا۔ جو شخص بیمار ہے، دوائیوں سے ٹھیک نہیں ہو رہا، آب زم زم پر سورۃ الفاتحہ پڑھ کر دم کریں اور پلائیں اس نیت سے کہ اللہ مریض کو روحانی و جسمانی شفا عطا فرمائے۔ ان بابوں ، اور نواب پیروں سے نجات نہ ملی تو کہہیے گا۔ جو اللہ کے فرمان کے مطابق اللہ کے کلام کے بدلے پیسے لیتے ہیں وہ کیسے کسی کا علاج کریں گے۔آزمائش شرط ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/hbckjz2
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *