نوم نِکھَتو

Hadayat Ullah Akhtar
Print Friendly, PDF & Email


مجھے نہیں معلوم کی شہرت کے لئے شینا زبان میں کونسا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن جب سے سوشل میڈیا کا دور آیا ہے ایک لفظ “نوم نکھتو” گلگت سے تعلق رکھنے والے یو ٹیوبرز اینکر پرسنز اور صحافی حضرات کی زبانی سنے کو مل گیا ہے ۔یہ صحافی یا فرد جب کسی کا انٹرویو یا تعارف کراتے ہیں تو کہتے ہیں کہ گلگت کا “نوم نکھتو” مطلب یہ کہ گلگت کا شہرت یافتہ بلکہ بعض تو گلگت بلتستان یا اس سے آگے بڑھ کر قومی دھارے کی سطح تک لے جاتے ہیں ۔ اگر انٹر ویو دینے والا شہرت یافتہ ہے تو لازمی بات ہے کہ اس نے یہ مقام حاصل کرنے اور شہرت پانے کے لیئے بڑی محنت کی ہوگی ۔آج سے دو دھائی پہلے تک گلگت میں چند ہی لوگ ہوا کرتے تھے جو “نوم نکھتو “کہلاتے تھے لیکن آج حال یہ ہے کہ کارگاہ نالہ کے پاس دو فرد بیٹھ کر جان علی یا ملنگ کے دو بول بول کر یا کوئی اینکر ڈی سی افس میں ڈی سی سے کھانے پینے کی اشیا بارے انٹرویو ریکارڈ کرکے” نوم نکھتو” (شہرت یافتہ ) کہلاتا ہے ۔آپ جب تک شینا میں شہرت کا اصل لفظ ڈھونڈ لینے میں کامیاب ہوتے ہیں اس لحمے تک ممکن ہے کہ مجھےخود سے شہرت کا شینا لفظ یاد آئے۔فی الحال اردو لفظ شہرت کو لیکر آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ میرا نام بھی شہرت یافتہ لوگوں کی صف میں شامل ہو ۔ یہ شہرت بھی بڑی ہی ظالم شے ہے اسے پانے کے لیئے لوگ ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے ۔ ادب کا میدان ہو ،سیاست یا سماجی دنیا ہر جاہ شہرت اور صرف شہرت کے ہی چرچے ہیں ۔وہ کون سا انسان ہوگا جو شہرت نہیں چاہتا ہوگا ۔ کچھ لوگوں کو یہ شہرت ورثے میں مل جاتی ہے کچھ اس کے لیئے بڑی محنت اور تگ و دو کرتے ہیں جی ہاں محنت محنت اور بس صرف محنت ۔ تب کہیں جا کر شہرت ان کے نصیب میں آجاتی ہے ۔پہلے وقتوں میں یہ محنت کس قسم کی ہوتی تھی اس کا تذکرہ یہاں محال ہے۔پہلے وقتوں کےشہرت یافتہ اور آج کے شہرت یافتوں کا تجزیہ کیا جائے تو اس کا لب لباب یہی بنتا ہے کہ پہلے وقتوں میں شہرت پانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں تھا اب تو شہرت خالہ جی کا گھر بھی ہے بلکہ یوں کہیں کہ یہ خالہ جی کا محل بن گئی ہے ۔ آج شہرت پانے کے لیئے کسی محنت کی ضرورت نہیں اور نہ کسی شائسگی تہذیب کی۔ بس آج کی شہرت کے لیئے ایک عدد اینڈروئیڈ اور رٹے رٹائے چند الفاظ کی ضرورت ہے بیشک آپ ان الفاظ کے معانی سے بھی واقف نہ ہوں کوئی معانی نہیں رکھتے ۔ اس بیماری میں صرف نوجوان ہی مبتلا نہیں بلکہ بچے ،بڑے اور بوڑھے سب سستی اور گھٹیا شہرت کے دلدادہ ہوگئے ہیں ۔ایسا بھی نہیں کہ سب ہی ایسے ہیں چند لوگ اب بھی موجود ہیں جو اچھا لکھتے ہیں اچھا پڑھتے ہیں اور اچھی چیزیں لوگوں کے سامنے لے آتے ہیں مگر ان کی تعد اد انگلیوں میں ہی گنی جا سکتی ہے ورنہ تو اکثریت ایسی ہے جو صرف پسند جسے آج کل لائیک کہا جاتا ہے یا شہرت کے ہدف میں ایسی ایسی عجیب و غریب اور خود ساختہ خبریں یا اسکینڈلز مرچ مصالحے لگا کر پیش کرتے ہیں کہ توبہ توبہ کرنے کے سوا کچھ نہیں بچ جاتا ہے۔ آپ جتنا بھی توبہ پڑھیں ہونا وونا کچھ نہیں اب یہی وطیرہ بن چکا ہے شہرت پانے کا ۔شہرت کے لیئےشینا لفظ اب تک میرے ذہن میں نہیں آیا اگر آتا تو شائد میں شہرت لفظ کی جادوگری میں چند اور الفاظ کی جادوگری دکھانے میں کامیاب ہو جاتا ۔چلیں جی شہرت لفظ کا شینا معلوم کرنے کے لیئے اسے “شینا بیاک ” گروپ میں ڈال دیتے ہیں شائد کوئی شینا کا ماہر اس لفظ کی صحیح شینا بتا دے ۔ ویسے شینا بولنے والے اپنی روز مرہ بول چال میں شہرت کے لیئے دھوم دھام، چرچا، دبدبہ استعمال کرتے ہیں لیکن یہ سب الفاظ اردو کے ہی ہیں ۔ خیر کوئی بات نہیں اردو ہماری قومی زبان ہے مگر آج تک ہم اسے اردو میں نہیں انگریزی میں ہی لکھتے ہیں تو شہرت کو شینا میں نہ لکھیں تو کیا ہماری شہرت میں کمی آئیگی ہر گز نہیں ۔آج شہرت پانے کے لیئے نہ اچھے الفاظ کی چنائو کی ضرورت ہے اور نہ ہی مطالعے کہ اور نہ سماج میں پڑنے والے اچھے اور برے اثرات کی فکر بس اب شہرت پانا ہے چاہئے اس کے لیئے نا زیبا اور اخلاقیات سے گری ہوئی حرکتیں کیوں نہ کرنا پڑے بس شہرت ملنی اور ہونی چاہئے بے شک لوگ تھو تھو ہی کیوں نہ کریں کسی کو اس بات کی یا چیز کا نہ غم ہے اور نہ دکھ ۔ شہرت کے بھوکے لوگ وقتی طور پر تو شائد کامیاب ہوں لیکن جب یہ شہرت اور چاہت جس کی بنیاد سرکاری یا کسی اہم شخصیت کی وجہ سے ہو جب وہ چھن جاتی ہے تو دھڑام سے یہ” نوم نکھتے “( شہرت یافتہ)لوگ پاگل پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کا نشان کھو جاتا ہے ۔نام و شہرت ان ہی لوگوں کے حصے میں باقی رہ جاتی ہے جو صحیح معانوں میں کسی ریا کاری یا مفاد پرستی اور مادہ پرستی سے ہٹ کر معاشرے کی بھلائی اور اصلاح کے لیئے کام کرتے ہیں ، اگر ہم” نو م نکھتو”(شہرت یافتہ) لوگوں کا جائزہ لیں جو آج بھی اپنی تخلیقی صلاحتوں کی بدولت زندہ ہیں اوران کے مقابلے میں آج کے “نوم نکھتے “(شہرت یافتہ)لوگوں کو دیکھیں جو سوشل میڈیا میں شہرت کے لیئے نا زیبا اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جس نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑ ا ہے ۔ ان میں مثال کے لیئے وینا ملک ، قندیل بلوچ اور ملک ریاض جیسے لوگوں کا نام لیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ بھی تو شہرت یافتہ لوگ ہیں۔اللہ کرے سب” نوم نکھتے” (شہرت یافتہ ) ہوں ۔کہا یہ جاتا ہے کہا کیا جاتا ہے بلکہ بحثیت مسلم ہم سب کا یہ عقیدہ ہے کہ عزت،محبت شہرت انسان کے نصیب میں لکھی ہوئی ہوتی ہے اس کے لیئے بھاگنا اور اوچھے ہتھکنڈوں کی ضرورت نہیں پڑتی ہے ۔ شہرت ہر کسی کو کہاں نصیب ہوتی ہے صحافت ،ادب، کھیل، شاعری، میں کتنے نام ہیں ہر کسی کو دنیا نہیں پہچانتی ہے ہر کوئی قائد آعظم نہیں بن سکتا اور نہ ہی علامہ اقبال لیکن آج کے دور میں ہم جیسے بھی” نو م نکھتو” بن چکے ہیں چاہئے ہمارا “نتو “چپس ( ٹیڑھا) ہی کیوں نہ ہو ۔میری اس لکھائی سے یہ ہر گز مت سمجھنا کہ میں کوئی “نوم نکھتو ” (شہرت یافتہ)ہوں بس” نوم نکھتو” (شہرت یافتہ) کا لفظ سن سن کر اور گلگت بارے ویڈیوز دیکھ دیکھ کر اس” نوم نکھتو” لفظ نے یہ چند الفاظ لکھنے پر اکسایا یا مجبور کر دیا تو قرطاس کو کالی سیاہی سے داغدار کیا ہے ۔بس دعا یہی ہے کہ اللہ جھوٹ اور ریا کاری اور مفاد پرستی والی شہرت سے بچائے

Short URL: https://tinyurl.com/2bzwmse7
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *