میرا تو کوئی نہیں ہے

Waris Denari
Print Friendly, PDF & Email

Mera To Koi Nahi Mera To Koi Nahi Mera To Koi Nahi Mera To Koi Nahi Mera To Koi Nahi Mera To Koi Nahi

تحریر: وارث دیناری

میرا تو کوئی نہیں ہے اللہ کے سوا۔سیلاب متاثرہ ایک خود ار شخص سے مکالمہ۔ بہت سے رشتہ دار ہیں جوکروڑ پتی ہیں لیکن ان سے ایک کلو آٹے کی امیدنہیں ہے۔آپ ان کے پاس گئے ہو مدد کیلئے مدد کیلئے ان کو کہا ہے؟ میں کیوں ان کے پاس جاوں کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہمارے گھر ہماری فصلیں تباہ ہوگئی ہیں میوشی ہلاک ہوئے ہیں گھر وں میں موجود تمام اناج دیگر سامان بارش اور سیلاب کی نظر ہوگئی ہے۔ یہاں میں اس خود ارشخص کا نام لکھنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔انھوں نے بتایا کہ بیرون کھیر تھر میں بیس ایکڑ ایراضی میری زرعی زمین ہے۔وہی پرمیرا گوٹھ ہے جہاں میں اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے ساتھ رہتاہوں میرا گوٹھ دس گھروں پر مشتمل ہے۔ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ اپنی زمین پر خودکاشتکاری کرتا تھا زمیندار بھی ہم تو بزگر بھی ہم خودہی تھے۔حالیہ تباہ کن بارشوں اور سیلاب نے ہماری ہر چیز اپنے ساتھ بہاکر لے گئی۔ہمارے گھر زمین بوس ہوگئے ہیں گھروں میں موجود اناج سمیت کوئی سامان نہیں بچا۔فصلیں تباہ ہوگئیں میوشی ہلاک ہوگئے ہیں کسی طرح ہم اپنی جان بچا کر وہاں سے پانی میں نکلے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہم بزگر نما چھوٹے زمیندار۔ اکثر سال بھر دوسری فصل آنے تک اور دکھ سوکھ مشکل وقت میں کام آنے کیلئے غلہ ہی رکھتے ہیں کیونکہ پیسے ہونگے خرچ ہوجائیں بس گھر میں غلہ ہی رکھ لیتے ہیں۔پھر ضرورت کے حساب سے فروخت کرتے رہتے ہیں جب تک دوسری فصل تیار ہوجائے اسی طرح ہمارا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔حالیہ بارشوں سیلاب سے سب کچھ الٹ ہوگیا ہم کسی طرح اپنی جان بچاکر نکل تو آئے ہیں ا س وقت بے سروسامانی کی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔کچھ عرصے کیلئے تو اپنے منہدم شدہ مکانات کے سامان یعنی ملبہ جس میں ٹی آر اور گاڈر دیگر سامان کباڑ والوں کو فروخت کرکے کچھ دنوں تک خرچہ چلاتے رہے ہیں۔اس وقت ہم انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔آپ لوگوں کو گورنمنٹ یا این جی اوز کی جانب سے کچھ ملا؟ ہاں گورنمنٹ کی جانب ملا ایک ٹینٹ ایک تھیلا آٹے کا چند دوسری چیزیں۔پھر آپ ڈی سی کے پاس جاتے این جی اوز والوں سے رابطہ کرتے امداد تو بہت آیا ہے۔ہاں امدادی سامان تو بہت آیا ہے دیکھ رہا ہوں کس طرح لوگ گاڑیاں بھر بھر کر لے جارہے ہیں۔ لیکن میں جہاں بھی گیا صبح سے دوپہر تک دھوپ میں کھڑے رہنے کے بعد امداد تو نہیں ملا لیکن لوگوں کے جھڑکے اور لاٹھیاں ملی ہیں۔آپ کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ وہ اس لئے کہ میراکسی بڑے آدمی کے ساتھ جان پہچان نہیں ہے نہ کسی این جی او والے کے ساتھ تعلقات ہیں اور نہ ہی کسی آفیسر یا صحافی کے ساتھ۔آرمی میں بھی میرا کوئی نہیں ہے جس کے فون پر مجھے کچھ ملے۔بس ایک اللہ ہی ہے تمام امیدیں ان سے وابستہ کئے بیٹھے ہیں۔دیکھا جائے تو ان کی باتوں میں صداقت ہے امدادی سامان کی تقسیم اس میں اقربا پروری کی بہت ساری مثالیں اور ثبوت ہیں جن سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے امداد کی بندربانٹ کسی سے پوشیدہ نہیں رہی ہے امدادی سامان تقسیم کرنے والے تمام ادارے چاہئے سرکاری ہوں یا نجی اس بندربانٹ میں سب شامل ہیں البتہ کوئی کم تو کوئی زیادہ۔ کسی کو ایک ٹوکن نہیں ملا تو کسی کو تھوک کے حساب سے ٹوکنیں دے دی گئی ہیں یہی وجہ ہے کوئی آٹے کے ایک تھیلے کیلئے ترستا رہا تو کوئی ٹریکٹر لوڈر رکشے بھربھر کر لے گیا کوئی ایک ٹینٹ کیلئے مارا مارا پھرتا رہا تو کسی نے گاڑیاں بھر کر کوئٹہ اور سندھ میں فروخت کرنے کیلئے لے گئے ہیں جن میں کچھ پکڑے بھی گئے۔تاہم یہ سلسلہ جاری ہے۔غرض کہ امداد کی تقسیم کی بنیاد کہیں پر سیاسی تو کہیں پر مذہبی اور کہیں پر پر تکلف دعوتیں اور تعلقات کام آئے ہیں
2005کے زلزلے اور0 201کے سیلاب میں ایک عام پاکستانی اورسیز پاکستانیوں سمیت پوری دنیا نے متاثرین کی مدد اور ان کی بحالی کیلئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے تھے۔لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ ہماری امداد عطیات کا صیح کا استعمال نہیں کیا گیاہے تو انھیں سخت مایوسی ہوئی۔جس کا بعض نے مختلف فورم پر اظہار بھی گیا۔2022کے سیلاب نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا پورے ملک میں ایک ہی کیفیت سے لوگ دوچارہے۔امداد دینے والے ممالک اور ادارے ہماری سابقہ ادوار کے کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلے پہل خاموش ہی رہے لیکن جب انھوں نے دیکھا بہت بڑی تباہی آئی ہوئی ہے اگر ہم آگئے نہیں آئے تو اس صدی کا سب سے بڑا الیمہ رونما ہوسکتا ہے اورسیزپاکستانیوں سمیت کئی ممالک اور اداروں نے ایک بار پھر دل کھول کر امداد۔روانہ کی۔ امداد کی تقسیم پر بھی انھوں نے نظر رکھی ہوئی ہے۔لیکن وہ اس تماشے کو دیکھ کر نہ صرف مایوس ہیں بلکہ غصے میں بھی ہیں۔ریلیف ضرورت مندوں تک کیوں نہیں پہنچ رہا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیلاب متاثرین کیلئے امدادی سامان کی ٹرکوں کی طویل قطاریں دیکھانے فوٹوسیشن کرنے کی بجائے درست طریقے سے سروے کرکے ایک ایسانظام ترتیب دے دی جائے جو صاف وشفاف ہو جس پر تمام پاکستانیوں بلکہ دنیا اس سسٹم پر اعتماد کرے اگر ایسانہیں کیا گیا تو اس کے نتائج بہت ہی برے نکلیں گئے ایک طرف بھوک پیاس سردی گرمی بیمارریوں سے حقیقی سیلاب متاثرین کی جانوں کو خطرہ لاحق ہے تو دوسری جانب اللہ نہ کرے اگر کوئی اسی طرح کا مصیبت دوبارہ پاکستان میں رونما ہوتا ہے تو کوئی بھی ایک ٹکا بھی دینے کو تیار نہیں ہوگا۔خدارہ سیلاب متاثرین کے امدادی سامان کو مال غنیمت مت سمجھیں حقداروں تک پہنچاکر ثواب بھی کمائیں زندگیاں بچائیں۔

Short URL: https://tinyurl.com/2zsq43my
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *