شیر اور چوہا

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ابو عبدالقدوس محمد یحییٰ

یہ”شیراورچوہا” کی کہانی  بہت پرانی اورزبان زد عام ہے ۔لیکن اس کہانی میں آج کے دور کوپیش نظر رکھتے ہوئے کچھ تبدیلی کی گئی ہے۔تبدیل شدہ کہانی کچھ یوں ہے ایک دفعہ  ایک شہری چوہا گھومتے گھماتے جنگل کے اندر چلا گیا۔وہ خود کو کسی شیر سے کم نہ سمجھتا تھا۔بقول صوفی تبسم صاحب کے

حرکتیں اس کی سب دلیروں کی

کام کا شیر نام کا چوہا

 وہاں اس نے دیکھا کہ ایک شیر سورہاہے۔اس نے سوچا جنگل کا بادشاہ ہے اس کی سواری کرکے دیکھتا ہوں۔ ویسے بھی سیلفی کا زمانہ ہے ایک آدھ سیلفی بھی لے لوں گا۔ یہ سیلفی کا مرض کوئی نیا توہے  نہیں جو میں ہی اس کا شکار ہوں بلکہ  بہت قدیم ہے ۔ قدیم زمانے  میں لوگ یہی کام آئینہ سے لیا کرتے تھے۔ جو آج لوگ اپنے موبائل کے کیمرہ سے لیتے ہیں۔مختلف انداز،ڈھب اورطورطریقوں سے آیئنے میں دیکھا کرتے تھے ۔فرق صرف اتنا ہے وہ ایسا کرنے میں محتاط تھے کہ کوئی دوسرا نہ دیکھ لے اور آج بیباک ۔ماضی میں آئینہ دیکھنے والوں کی  جناب نظام رامپوری صاحب نے کیا خوب عکاسی کی ہے۔

انداز اپنا دیکھتے ہیں آئینے میں وہ

اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو

بہرکیف اس چوہے نے سوچا کہ کیاتصاویرآئیں گے۔کیسا اچھوتامنظر ہوگاچوہا شیر پرسوارہے۔یہ تصویریں تو ہِٹ ہوجائیں گی کہ ایک چوہا شیرپرسوار  ہے ۔ کیا ہی بہادر اورجرات مند چوہاہے۔وہ جھٹ پٹ اس پر سوارہو گیا اور ادھر ادھر مختلف زاویوں سے سیلفیاں لینے لگا۔ اس کی دھماچوکڑی سے شیر بادشاہ کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے جھٹ چوہے  کو اپنے مضبوط پنچہ میں دبوچ لیا۔ چوہا فورا بولا بادشاہ سلامت آپ نے کہیں کہانی ضرور پڑھی ہوگی کہ ایک دفعہ ماضی میں بھی ایسے ہی ایک چوہا شیر کے اوپر اچھل کود کررہا تھا۔ شیر نے جب اسے دبوچ لیا تو اس نے فورا شیر سے عرض کیا ۔عالی جان اگرچہ جسم میں چھوٹا اور ناتواں ہوں لیکن ایک مخلص دوست کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ جب آپ کو میری ضرورت پڑی میں آپ کے کام آؤں گا۔اس کے بعد کی کہانی تو آپ کو معلوم ہوگی کہ وہاں ایک شکاری آتا ہے جو شیر کو اپنے جال میں جکڑلیتا ہے اس جال سے وہی چوہا شیر کو نجات دلاتا ہے۔بہرکیف آگے  آپ کی مرضی ہے۔ شیر اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتاہے ۔اورہنس کرکہتا ہے کہ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ لیکن پھر بھی میں تمھیں چھوڑ رہاہوں۔

پھر تاریخ اپنے آپ کودہراتی ہے۔ وہ شیر بھی کسی شکاری کے جال میں پھنس جاتاہے۔شیر فوراً واٹس ایپ  کال کرکے چوہے کوبلاتا ہے کہ دوست آج دوستی کا حق ادا کرو۔تمہیں خبر نہیں کہ میں مصیبت میں گرفتا ہوں۔ چوہا فوراً وہاں پہنچتا ہے اورا یک جانب سے جال کترنے لگتا ہے۔ لیکن یہ کیا اس سے جال کاٹا ہی نہیں جارہا تھا ۔جال کے تار باریک لیکن بہت مضبوط اور الجھانے والے تھے۔ ادھر ناقص غذائیں کھا کھا کر اس کے دانت قدرےخراب ہوچکے تھے جو پہلے سے بھی انتہائی مضبوط اوردیدہ زیب جال کو نہ کاٹ سکے ۔اب  وہ جال اس کے اپنے دانتوں میں ایسے الجھ گیا کہ وہ خود کو بھی نہ چھڑا پارہاتھا۔اتنے میں شکاری آتاہے ۔ اور فوراً اسے پکڑ کر ماردیتا ہے ۔ کہ تو ہی وہ چوہا تھا جس نے پہلے بھی ایک شیر کوشکاری کے جال سے چھڑایاتھا۔ چوہا مرتے مرتے یہ سوچ رہا تھا کہ یہ میرے دشمنوں کی سازش ہے انہوں نے واٹس ایپ بنادیا ۔اگر وہ یہ نہ بناتے تو آج میں یوں مارا نہ جاتا۔

حاصل کلام:

٭بادشاہوں (امراء)کا قرب کئی اعتبار سے خطرناک ہے ۔وہ اگرچہ کچھ نہ کہیں ان کے دشمن بھی (جانے،انجانے میں) آپ کی جان لے سکتے ہیں۔

٭بعض اوقات سیلفی کے شوقین خود کو انتہائی مصیبت بلکہ ہلاکت میں ڈال لیتے ہیں  اس سے احتیاط بہتر ہے۔جیسا کہ چوہا اپنی کمزوریوں  سے آگاہ  ہی نہیں تھا لہذا شیر کو کیا بچاتا اپنی جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھا۔

٭اپنی طاقت و توانائی کے مطابق کام ہاتھ میں لینا چاہئے اس کے برعکس تباہی و بربادی ہے۔

٭اچھل کود اورگھمنڈ سے مسائل حل نہیں ہوتے اس کے لئے بہتر تدبیر وحکمت عملی ضروری ہے۔

٭ہلاکت وتباہی کے بعد دوسروں پر الزام  تراشی سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔

Short URL: http://tinyurl.com/y5q58kct
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *