کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

ایک ایسے شخص کی المناک کہانی جو اپنے والد کی سختی سے اس قدر نالاں تھا کہ جب اس پر اولاد کی تربیت کی ذمہ داری پڑی تو اس نے  اپنی اولاد کی تربیت یکسر فراموش کردی !!!

فخر نے جب ہوش سنبھالا تو اس نے گھر میں ایک بہت سخت ماحول دیکھا ۔چونکہ اس کے والد مزاج کے بہت سخت تھے۔ وہ ہرمعاملے میں فخر پر بہت سختی کرتے۔تعلیم و تربیت کے معاملے میں تووہ کسی قسم کی رورعایت کے قائل ہی نہ تھے۔ فخر اپنے والد سے بہت گھبراتا۔شام کواپنے والد کے گھر واپس آنے پر وہ پہلے ہی کسی کونے کھدرے میں چلاجاتا تاکہ اس کے والد کی اس پر نظر بھی نہ پڑے۔اس نے اپنا بچپن مستقل سختیوں میں گزارا۔لیکن ان تمام سختیوں کے باوجود ایسا ضرور ہوا کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک اچھے عہدے پر فائز ہوگیا۔

 پھر فخرکی شادی ہوگئی ۔ جب اس کے یہاں اکلوتے بچے ” فاخر”کی پیدائش ہوئی  تواس  نےاپنے تلخ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچے سے کبھی بھی سختی نہ کرے گا۔ اسے کسی بات پر روک ٹوک نہ کرے گا۔ اس کی زندگی کے تمام فیصلے اس ہی کے ہاتھ میں دے دے گا۔

اور واقعی اس نے فاخر کو نہ صرف خود کچھ نہ کہا بلکہ  کسی  اورکو بھی  کبھی  جرات نہ ہونے دی  کہ وہ اس سے باز پرس کرلیتا۔ وہ اپنے بچے سے بہت پیار کرتا ۔ اس نے اسے حد سے زیادہ لاڈ پیار کیا۔ہر طرح کی نعمتیں دیں۔ اس کے بچے کے منہ سے ابھی خواہش پوری ادا نہ ہوتی  وہ فوراً اسے پوراکردیتا۔حد سے زیادہ لاڈ پیار  کی وجہ سے اس کا بیٹا خود سر اورضدی  ہوگیا۔ لیکن فاخر کی ضدر اورہٹ دھرمی نے بھی کبھی فخر کو اپنے بیٹے  پر سختی کرنے کی طرف مائل نہ کیا۔ سختی کرنا تو دور کی بات ہے وہ اسے کبھی کوئی نصیحت بھی نہ کرتا۔اس کی ضد اورہٹ دھرمی  بھی اس کو اچھی لگتی۔ کہتا بڑا ہو کر خود ہی سنبھل جائے گا۔ میں باپ ہوں میں اس کے لئے جب تک ہوسکا خوشیاں ،نعمتیں مہیا کرتا رہوں گا۔

فاخر پڑھائی میں بالکل توجہ نہ کرتا۔بہرحال  کسی نہ کسی طرح  جب اس نے مرکھپ کر ڈی گریڈ میں میٹرک کا امتحان پاس کرلیا تو اس کے والد  نے  ڈی گریڈ کے باوجود اپنے بیٹے کونہ صرف کچھ نہ کہا بلکہ نئی موٹر بائیک تحفہ میں دی۔اب تو اس کا بیٹا ہر وقت اپنے نئے گھوڑے پر سوار ہوکر ہواؤں کے دوش پر اڑتارہتا۔ وہ موٹربائیک اتنی تیز چلاتا گویا جہاز اڑارہا ہو۔یہاں تک وہ گلیوں میں بھی بائیک اتنی تیزرفتاری سے چلاتا کہ الامان والحفیظ۔ کئی دفعہ وہ حادثہ سے بچہ۔ جب فخر کے دوست ،محلہ دار، اور خیرخواہ اسے اس کے بیٹے کی غلط ڈرائیونگ کے بارے میں بتاتے تو وہ ایک کان سے سنتا اوردوسرے سے اڑادیتا۔محلے والے   اس کے سامنے فاخر کی شکایات کے انبار لگادیتے ۔ لیکن یہ باتیں سن کر بھی  کوئی اثرقبول  کرتا نہ ٹس سے مس ہوتا۔

اس کا بیٹا  باپ کی شہہ پاکر موٹر بائیک کوجان بوجھ کرپہلے سے بھی خطر ناک انداز سے چلاتا۔ اب تو اس نے ون ویلنگ بھی شروع کردی ۔ محلے کی گلیوں میں بھی وہ ون ویلنگ کرتا۔

فخر کا سب سے بہترین دوست ریحان جو فخر کا خیر خواہ،ہمدرد اورغم گسار تھا۔وہ بھی بارہا فخرسے اس کے بیٹے کے بارے میں شکایات کرچکا تھا۔ ایک بار جب اس نے فخر سے یہ تذکرہ کیا  فخر نے کہا: ہر نئی چیز شروع میں زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ یہ حرکتیں خود ہی کم کردے گا۔جہاں تک بائیک چلانے کی بات ہے تومجھے اس میں بہت صلاحیتیں نظرآرہی  ہیں۔ وہ دن دور نہیں  جب یہ بہت بڑا بائیک ریسر بنے گا۔ اور عالمی چیمپین بنے گا۔

جس کے جواب میں ریحان نے صرف اتنا کہا ہر کہانی کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔کچھ کہانیاں بیچ میں بھی ختم ہوجاتی ہیں۔بقول رحمان فارس

کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی

کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

ریحان جب  پانچ سال کے لئے دبئی جانے لگا تو وہ فخر سے ملنے اس کے پاس آیااور کہا :فخر میں جانتا ہوں کہ تمہارے والد کا مزاج بہت سخت تھا لیکن وہ اس فکر کے حامل تھے کہ بچوں کی صحیح تربیت کی جائے ،انہیں تعلیم دی جائے تاکہ بڑے ہوکر وہ جوتیاں نہ چٹخاتے رہیں اور دنیا والوں کے دھکے نہ کھاتے رہیں۔ دنیا کی باگ ڈور زیادہ تر ظالموں کے ہاتھ میں ہے الاماشاء اللہ۔یہ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتے۔اگر انسان خود کسی قابل نہ ہو تو دوسروں کی ٹھوکریں ہی کھاتارہتاہے۔اس لئے انہوں نے تمہیں  پڑھایا لکھایا۔بہرحال تمہارے ساتھ  جو ہوا سو ہوا۔اب تم اپنے والد کے مزاج کے برعکس اس حد تک نرم مزاج  واقع ہوئے ہو کہ تم فاخر کو کچھ بھی نہیں کہتے ۔ میں تم سے آخری بار یہ کہہ رہا ہوں یہ ذہن میں رکھو کہ باوجود تمہارے والد کی سختی کے تم پڑھ لکھ گئے اور ایک معزز اوراچھے شہری بن گئے۔لیکن جہاں تک میں دیکھ رہا ہوں تمہارے بے جا لاڈ پیار سے تم اپنے بچے کو ضائع کررہے ہو۔اب تم  اپنے والد کی سختیوں کو بھول کر اپنے بچے کی فکر کرو۔اس کی حرکتیں کبھی تمہارے لئے ندامت اور پشیمانی کا باعث نہ  بن جائیں۔ اورپھر وہ وقت واپس نہیں آئے گا اور کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔بقول صوفی تبسم:

ایسا نہ ہو یہ درد بنے درد لا دوا

ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

فخر نے اپنے بہترین دوست کو بھی ٹال دیا۔آخر کار ریحان  دبئی چلاگیا۔پانچ سال ملک سے باہر رہنے کے بعد جب ریحان دبئی سے واپس لوٹا تو وہ فخر سے ملنے اس کے گھر آیا۔

گھر میں داخل ہوتے ہی اسے کچھ فضا عجیب سوگوار سی محسوس ہوئی ۔لیکن وہ اپنا سرجھٹک کر گھر میں داخل ہوگیا۔ جب اس نے ملازم سے فخر کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ کیا بتاؤں صاحب جی سارا دن فاخر کی تصویر کے سامنے کھڑے رہتے ہیں۔ اسی سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اس نے کہا کہ فاخر کو کیا ہوا۔ملازم نے کہا آپ کونہیں معلوم ۔پھر اس نے خالد شریف کا یہ شعر پڑھا

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

ملازم نے کہا تین سال پہلے ٹھیک  عید کے موقع جب ہر طرف خوشیاں منائی جارہی تھیں یہ گھر ماتم کدہ میں تبدیل ہوچکاتھا۔فاخر اپنے دوستوں کے ساتھ سی ویو جارہا تھا۔وہ اور اس کے دوست راستے میں ون ویلنگ کرتے اور اٹھکیلیاں کرتے جارہے تھے کہ فاخر ایک تیزرفتار ڈمپر سے ٹکرا گیا۔ اور اتنی بھیانک موت صاحب جی اللہ کسی دشمن کو بھی نہ دے۔ چہرہ بھی شناخت کے قابل نہ تھا وہ تو اپنے کپڑوں اور جیب میں رکھے ہوئے کارڈ کی مدد سے پہچانا گیاکہ یہی فاخر ہے۔ بس وہ دن ہے اور آج کا دن ۔آپ جب اپنے دوست کو دیکھیں گے تووہ برسوں کے مریض لگیں گے۔ بس یہ روگ اندر ہی اندر سے انہیں کھارہا۔ ریحان نے کہا چلو مجھے اس کے پاس ہی لے چلو۔ملازم ریحان کو بیڈ روم لے جانے سے ہچکچارہاتھا۔ لیکن اس کے اصرار پر اور اس کے فخر سے گہرے دوستانہ مراسم کی وجہ سے آخر کار وہ ریحان  کو فخر کے بیڈ روم لے گیا۔ ریحان بوجھل قدموں سے جب اس کے بیڈ روم میں داخل ہوا تو اس  نے دیکھا کہ واقعی وہاں قد آدم جتنا پورٹریٹ بنا ہواہے اور فخر اس کے سامنے کھڑا اس سے باتیں کرنے میں مصروف ہے۔

فخر کو ریحان کے کمرے میں داخل ہونے کا بھی علم نہیں ہوا وہ اسی استغراق کی کیفیت میں رہا۔ ریحان نے دیکھا کہ فخر بہت ہی نحیف ونزار اوربرسوں کا بیمار لگ رہاہے۔وہ جس فخر کو چھوڑ کر گیا تھا یہ وہ ہرگز نہ تھا۔  اس کی تمام خوش مزاجی اس سے روٹھ چکی تھی۔ ریحان سے اپنے دوست کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ وہ بھی بہت چین ہوگیا۔

فخریہ کیا ہوا۔ میں تمہیں نہ کہتا تھا کہ اپنے بیٹے کو سمجھاؤ ایسا نہ ہو کہ پھر تمہیں موقع ہی نہ مل سکے۔ اولاد تو ناسمجھ ہوتی ہے ۔بے جا سختی تو نہیں کرنی چاہئے لیکن ان کی حرکات ،عادات ،سکنات پر نظر ضرور رکھنی چاہئے۔کہ ناسمجھی کی بنا پر وہ اچھائی برائی میں تمیز نہیں کرسکتے۔

فخر کے پاس الفاظ ہی نہیں تھے کہ وہ ریحان کو جواب دیتا وہ خاموش رہا۔اب سوائے ندامت اور پشیمانی کے وہ  کچھ کر بھی کیا سکتا تھا۔

ریحان بولا:لیکن اب جو ہونا تھا ہوچکا ۔ اللہ رب العزت نے ہی وہ نعمت تمہیں دی تھی۔ اب جب کہ اس نے واپس لے لی ہے اب تم صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو ۔جو اس طرح گھر کھلا چھوڑ کرچلے جاتے ہیں وہ  کبھی واپس نہیں آتے۔

اب نہیں لوٹ کے آنے والا

گھر کھلا چھوڑ کے جانے والا (اختر نظمی)

اب اگر فاخر نہیں تو کسی اور بچے کا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرو ۔ جس  سے دنیا میں تمہیں ذہنی راحت اورروحانی سکون ملے گا۔اور تمہاری آخرت سنور جائے گی۔

 دیکھو اب میری نصیحت ایک کان سے سن کر  دوسرے سے کان سے نہ اڑادینا ۔ بلکہ آزما کر دیکھو تو تمہیں واقعی اس میں عافیت اورسکون نظر آئے گا۔ لیکن فخر کی حالت اس شخص کی تھی جو اپنا سارا سرمایہ قربان کر چکا ہو اور اس کے پاس کچھ بچا  ہی نہ ہو۔اس میں زندہ رہنے کی ہرگزکوئی خواہش نہ تھی۔  اس نے افسردگی اور انتہائے غم سے صرف اتنا کہا: جگر مراد آبادی

زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ

موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں

پھر وہ زندگی کی طرف کبھی لوٹ کر نہ آیا ۔ چند ہی سالوں کے بعد خود بھی دوسری دنیا سدھار گیا۔

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت  کرنے والا بنائے۔اوروالدین  کے لئے ان کی اولاد راحت وسکون،فرحت و شادمانی اور فخر  کا موجب بنائے  آمین۔

Short URL: http://tinyurl.com/y5v26one
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *