خوراک اور بھوک

Dr. Sajid Khakwani
Print Friendly, PDF & Email

Food and hunger Food and hunger Food and hunger Food and hunger Food and hunger Food and hunger Food and hunger Food and hunger Food and hunger Food and hunger Food and hunger Food and hunger Food and hunger Food and hunger Food and hunger Food and hunger

World Food Day
(16اکتوبر:عالمی یوم خوراک کے موقع پر خصوصی تحریر
)

تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

اللہ تعالی کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل بھوکے کھانا کھلانا ہے۔نبی آخرالزماں محسن انسانیت ﷺ کے توسط سے جو نظام زندگی بنی نوع انسان کو میسر آیا اس کی تعلیمات میں مرکزیت اسی نقطہ کو حاصل ہے۔خالق کائنات کی اپنی مخلوقات کے ساتھ تعلقات کی بے شمار شکلیں ہیں لیکن اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب میں سب سے اولین جواپناتعارف کرایا ہے وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱:۱) ترجمہ:”ہرطرح کی تعریف اللہ تعالی ہی کے لیے ہے جوتمام جہانوں کاپروردگارہے“یعنی پالنے والاہے جس کا براہ راست تعلق کھانا کھلانے سے ہے۔قرآن مجید میں سب سے بزرگ عبادت نماز کے ساتھ زکوۃ کی تکرار اس کثرت کے ساتھ وارد ہوئی ہے کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید زکوۃ کے لیے ہی نماز کی فرضیت عمل میں لائی گئی ہے تاکہ اجتماعی ماحول میں نماز کے ذریعے منعم اور گدا کے فاصلوں کو کم سے کم تر کیا جا سکے۔روزہ دوسری اہم عبادت ہے جو براہ راست بھوکے کے احساسات سے آگاہی دیتا ہے اور امیر کے اندر وہ احساس جگاتا ہے کہ بھوک کی حالت میں غریب آدمی پر کیا بیتتی ہے۔ حج،زیارت بیت اللہ تعالی کے بے شمار اثرات ہیں جو فرد اور معاشرے سے لے کر عالمی اداروں اور بین الاقوامی معاملات تک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔سیاست،مذہب،سماج،تعلیم اور تعلقات سمیت ان گنت پہلو ہیں جو اس عبادت سے عبارت ہیں لیکن یہ سب بوجوہ معطل بھی ہو جائیں تو معاشی پہلو،پیٹ بھرے جانے کا پہلو کبھی بھی معطل نہ ہوگا۔ایک حاجی کے حج پر جانے سے گلی محلے میں پھولوں کا ہار بنانے والیوں اور دیگوں کے پکانے والے سے لے کر بڑی بڑی حکومتوں اور ہوائی سفر کی کمپنیوں کا روزگار وابسطہ رہتا ہے،اورمکہ مکرمہ جیسی سرزمین جہاں درخت میں پھل تک نہیں اگتاوہاں دنیا بھر کی صنعتوں کا مال خریدنے کے لیے دنیا بھر کے اہل ثروت پہنچا دیے جاتے ہیں گویا ہزاروں یا لاکھوں نہیں کروڑوں خاندانوں کے پیٹ بھرے جانے کا انتظام اسی ایک سفر سعادت سے متعلق ہے۔اللہ تعالی نے اسی بات کو اہل مکہ پراپنا احسان کہ کر بتلایا کہ اس نے بھوک میں تمہیں کھانا کھلایا الَّذِیْ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ(۶۰۱:۴) ترجمہ: ”جس نے انہیں بھوک(کے دنوں)میں کھاناکھلایااورانہیں خوف سے(بچاکر)امن بخشا“۔جہاد ایک اور فرض عبادت ہے جس تعلق بظاہر لڑنے اور توسیع دعوت اسلامی سے ہے لیکن اس میں بھی پیٹ بھرنے کا معاشی عنصر اس طرح موجود ہے کہ آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ”میری امت کا رزق نیزے کی انی کے نیچے رکھ دیا گیا ہے“۔سیرت نبوی ﷺ سے یہ واضع ہے کہ مدنی زندگی کا آغازغربت، بھوک اور افلاس سے ہوا لیکن مسلسل جہاد اور قتال کی مہمات سے آہستہ آہستہ دفاع کے ساتھ ساتھ معاش کا پہلو بھی طاقتور ہوتا گیا تاآنکہ فتح خیبر کے بعد مدینہ طیبہ میں خوشحالی در آئی۔اور پھر طاقت اور معاش کو کبھی بھی علیحدہ نہیں کیا جا سکتا کہ طاقت معاش کا مقدمہ بنتی ہے اور معاش طاقت کا مقدمہ بنتا ہے۔ محسن انسانیت ﷺ نے اپنی آمدسعید ہ کے بعد جن اچھے حالات کی نوید سنائی ان کا تعلق بھی معاشی خوشحالی ہی سے ہے مثلا َمکی زندگی میں ایک صحابی نے کافروں کے ظلم کی شکایت کی اور ان کے لیے بد دعا کرنے کو کہا،آپ ﷺ خانہ کعبہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا ”خدا کی قسم ایک وقت آئے گا کہ صنعا سے حضر موت تک سونے سے لدی پھندی ایک جوان عورت تن تنہا سفر کرے گی اور اسے سوائے خدا کے کسی کا خوف نہ ہو گا“۔سفر ہجرت کے دوران سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میں قیصروکسری کے کنگنوں کی بشارت دی اورغزوہ احزاب کے موقع پر جب غربت و افلاس اور بے سرومانی کے بادل پوری شدت سے گرج رہے تھے تو محسن انسانیت ﷺ نے روم و ایران کی فتح کی نوید سنائی۔محسن انسانیت ﷺ نے کبائر کے مرتکب افرادکے بارے میں بھی کھانا کھلانے پر مغفرت کی امثال پیش کیں مثلا مفاہیم اقوال رسولﷺ ہیں کہ ایک بدکار عورت کے بارے میں اطلاع دی کہ ایک کوئیں پرپانی پی چکنے کے بعداس نے ایک کتے کو دیکھا جوپیاس کے مارے کیچڑ چاٹ رہا تھا،اس بدکار عورت نے کوئیں سے پانی نکال کر اس جانور کو پلایا،اس (معاشی)عمل کے عوض اللہ تعالی نے اس اسکے سارے گناہ معاف کر دیے۔ایک عابد نے چار سوسال عبادت میں سرف کر دیے،ابلیس عورت کی شکل میں اس کے سامنے ظاہر ہوا تو وہ عابد اس سے لذت اندوز ہو چکا۔بعد از گناہ حصول طہارت کے لیے جھیل پر گیااور چار روٹیاں ساتھ لیتا گیا۔دوران غسل ایک مسافر کی درخواست پر اشارے سے اسے دو روٹیاں کھا لینے کی اجازت دے دی۔قیامت کے دن جب نامہ اعمال پیش ہوا تو چار سو سال کی عبادت چند لمحوں کی لذت کے برابر ٹہر گئی اور دو روٹیوں کا اشارہ ہی باعث مغفرت ثابت ہوا۔ شریعت محمدی ﷺ میں گناہوں کے کفارے کے اعمال عموماٌ تین طرح کے ہیں،پہلی قسم غلام آزاد کرناجبکہ محسن انسانیت ﷺ کی بعثت مبارکہ کرہ ارض سے غلامی کے خاتمے کا مقدمہ بن چکی،دوسری قسم روزے رکھناجن کی تعداد اور بعض شرائط ایسی ہیں کہ دشوار ترین تب محض تیسری قسم رہ جاتی ہے کہ کھانے کھلائے جائیں اور گناہوں کے کفارے ادا کیے جائیں مثلاٌ قسم توڑ دی تو دس مساکین کو کھانا کھلایا جائے”لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَدْتُّمُ الْاَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہ‘ٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ وَ احْفَظُوْا اَیْمَانَکُمْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۵:۹۸)“ترجمہ: ”اللہ تعالی تمہاری لغوقسموں پرمواخذہ نہیں کرے گا،لیکن جوقسمیں تم نے پختگی کے ساتھ کھائی ہوں ان پرتمہاری پکڑ کرے گا،چنانچہ اس کاکفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کوایسااوسط درجے کاکھاناکھلاؤ جوتم اپنے گھروالوں کوکھلاتے ہو،یاان کوکپڑے دو،یاایک غلام آزادکرو،ہاں اگرکسی کے پاس(ان چیزوں میں سے)کچھ نہ ہوتووہ تین دنوں کے روزے رکھے،یہ تمہاری قسموں کاکفارہ ہے جب تم نے کوئی قسم کھائی ہو(اورتوڑدی ہو)،اوراپنی قسموں کی حفاظت کیاکرو،اسی طرح اللہ تعالی اپنی آیتیں کھول کھول کرتہمارے سامنے واضع کرتاہے تاکہ تم شکراداکرو“۔جو روزہ نہ رکھ سکے وہ مسکین کو کھانا کھلائے”اَیَّامًا مَعْدُوْدٰاتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا أَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ اُخَرَ وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ‘ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَہُوَ خَیْرٌ لَّہ‘ وَ أَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲:۴۸۱)“ترجمہ: ”گنتی کے چنددن روزے رکھنے ہیں،پھربھی تم میں سے کوئی شخص بیمارہویاسفرپرہوتودوسرے دنوں میں وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعدادپوری کرلے۔اورجولوگ طاقت رکھتے ہوں وہ ایک مسکین کوکھاناکھلاکر(روزے کا)فدیہ اداکردیں،اس کے علاوہ کوئی شخص اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو یہ اس کے حق میں بہترہے،اوراگرتم سمجھوتوروزے رکھنے میں ہی تمہارے لیے بہتری ہے“۔جو روزہ توڑ بیٹھے وہ ساٹھ مساکین کے کھانے کا اہتمام کرے،حج کی ادائگی میں کوئی غلطی کوتاہی ہو جائے تو قربانی کرے۔اور احرام کی حالت میں شکار کر بیٹھے تو قربانی دے ”یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ وَ مَنْ قَتَلَہ‘ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ ہَدْیًا بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ اَوْ کَفَّارَۃ ٌطَعَامُ مَسٰکِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ وَ اللّٰہُ عَزِیْزُذُوانْتِقَاٍم(۵:۵۹)“ترجمہ: ”اے ایمان والو!جب تم حالت احرام میں ہوتوکسی شکارکوقتل نہ کرو۔اگرتم میں سے کوئی اسے جان بوجھ کرقتل کردے تواس کابدلہ دیناواجب ہوگا(جس کاطریقہ یہ ہوگاکہ)جوجانوراس نے قتل کیاہے،اس جانورکے برابرچوپایوں میں سے کسی جانورکوجس کافیصلہ تم میں سے دودیانت دارتجربہ کارآدمی کریں گے،کعبہ پہنچاکرقربان کیاجائے،یا(اس کی قیمت کا)کفارہ مسکینوں کوکاکھاناکھلاکراداکیاجائے،یااس کے برابرروزے رکھے جائیں تاکہ وہ شخص اپنے کیے کابدلہ چکھے۔پہلے جوکچھ ہوچکااللہ تعالی نے معاف کردیا،اورجوشخص دوبارہ ایساکرے گا تواللہ تعالی اس سے بدلہ لے گا اوراللہ تعالی زبردست اقتداراوربدلہ لینے کی طاقت رکھتاہے“،وغیرہ۔کھانا کھلانا اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کا اس قدر پسندیدہ عمل ہے کہ نہ صرف یہ کہ بعض مراسم عبودیت کے ساتھ اسے لازم قرار دے دیا گیا ہے بلکہ دیگر عبادات کی تکمیل اور شکرانے کے ساتھ اسے مشروط کر دیا گیا ہے مثلاٌرمضان میں سارا ماہ بھوکے پیاسے رہ کر گزارا لیکن جب تک فطرانہ ادا نہ ہو جائے روزے آسمان تک نہ پہنچ پائیں گے اوردرمیان میں لٹکے رہیں گے،حج کی تکمیل میں قربانی،سال کی تکمیل پر قربانی،فصل اترنے پر عشر کا وجوب،نصاب کے بقدر مال پر سال گزرنے سے زکوۃ کی فرضیت،حتی کہ جو محسن انسانیت ﷺ سے علیحدگی میں ملناچاہے وہ بھی پہلے صدقہ کر کے آئے”یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقَۃً ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ اَطْہَرُ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۸۵:۲۱)“ترجمہ: ”اے ایمان والو!جب تم رسول اللہ ﷺسے (تنہائی میں)سرگوشی کرناچاہوتوپہلے (مساکین کو)صدقہ کیاکرو،یہ تمہارے لیے بہتراورپاکیزہ ترہے،ہاں اگرتم صدقہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ توبلاشبہ اللہ تعالی بخشنے اوررحم کرنے والاہے“۔نکاح کیا ہے تو ولیمہ کرے،بچہ کی پیدائش پر عقیقہ کرے اور نومولود کے ساتویں دن سر کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرے یہاں تک کہ جس کے گھر کوئی فوت ہو جائے تو اسکی تالیف قلب بھی اس طرح کی جائے تین دن تک اس کے ہاں کھانا بھیجا جائے۔

اللہ تعالی نے اپنی محبت کا واسطہ دے کر مسکین،یتیم اور گرفتار کو کھانا کھلانے کا تقاضا کیا ہے”وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۶۷:۸)“ترجمہ: ”اوروہ اللہ تعالی کی محبت میں مسکینوں،یتیموں اورقیدیوں کوکھاناکھلاتے ہیں“۔اپنے راستے میں مال خرچ کرنے کوسات سو گنا بڑھا کر لوٹانے کا وعدہ کیاہے”مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ أَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲:۱۶۲)“ترجمہ: ”جولوگ اللہ تعالی کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیاں لائے اورہربالی میں سودانے ہوں اوراللہ تعالی جس کے لیے چاہتاہے (ثواب میں)کئی گنااضافہ کردیتاہے،اللہ تعالی بڑی وسعت والا اوربڑے علم والاہے‘۔‘اورصدقات کو اپنے ذمہ قرض قرار دیاہے”مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہ‘ لَہ‘ٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً وَ اللّٰہُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُطُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ(۲:۵۴۲)“ترجمہ: ”کون ہے جواللہ تعالی کواچھے طریقے پرقرض دے،تاکہ وہ اسے بڑھاچڑھادے،اوراللہ تعالی ہی تنگی اوروسعت دیتاہے اوراسی کی طرف تم سب کولوٹناہے“۔محسن انسانیت ﷺ نے موقع بہ موقع کھانا کھلانے کا شوق بیدار کیا کہ جو خود پیٹ بھر کر سویااور اس کا پڑوسی بھوکا سو گیا وہ ہم میں سے نہیں،جس بستی میں کوئی بھوکا سو جائے اس بستی پر سے اللہ تعالی کی ذمہ داری ختم,اور محسن انسانیت ﷺ نے گھر آئے مہمان کو بغیر کھلائے پلائے رخصت کر دینے والے میزبان کو مردہ کہا۔بھوکے اور غریب کا استحصال کرنے والے سود خور کو اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ کا عندیہ ہے”یٰأَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ(۲:۸۷۲) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُ ْوسُ اَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ(۲:۹۷۲)“ترجمہ: ”اے ایمان والو!اللہ تعالی سے ڈرواگرتم واقعی مومن ہوتوسودکاجوحصہ بھی باقی رہ گیاہے اسے چھوڑدو“۔سونا چاندی سینت سینت کر رکھنے والے کو عذاب دوزخ کی وعید ہے ”یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّہْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۹:۴۳) یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَ جُنُوْبُہُمْ وَ ظُہُوْرُہُمْ ہٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ(۹:۵۳)“ترجمہ: ”اے ایمان والو!احبار(علماء)اورراہبوں (پیر) میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ لوگوں کامال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں اوردوسروں کواللہ تعالی کے راستے سے روکتے ہیں،اورجولوگ سوناچاندی کوجمع کرکے رکھتے ہیں اوراس کواللہ تعالی کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ان کوایک دردناک عذاب کی خوشخبری سنادو۔جس دن اس دولت کوجہنم کی آگ میں تپایاجائے گا،پھراس سے ان لوگوں کی پیشانیاں،ان کی کروٹیں (پہلو) اوران کی پیٹھیں (پشت)داغی جائیں گی (اورکہاجائے گا)یہ ہے وہ خزانہ جوتم نے اپنے لیے جمع کیاتھااب چکھواس خزانے کامزہ جوتم جوڑ جوڑ کررکھاکرتے تھے“۔اور فضول خرچ کو شیطان کا بھائی گردانا گیا”اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْ ٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَ کَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا(۷۱:۷۲)“ترجمہ: ”یقین جانوجولوگ بیہودہ کاموں (فضول خرچی)میں مال اڑاتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں اورشیطان اپنے رب کابڑاہی ناشکراہے“۔ خلفائے راشدین نے مانعین زکوۃ سے جنگ لڑی گئی،اس وقت کے حکمران سے کہا بھی گیاکہ منکرین زکوۃ سے صرف نظر فرمائیں لیکن خلیفۃ الرسول نے اس سے صاف انکار کر دیا۔دور فاروقی میں جب اسلامی انقلاب،نبوی پیشین گوئیوں کی منازل کو چھو رہا تھاتو سب انسان مسلمان نہیں ہو گئے تھے اور نہ ہی سب مسلمان متقی و پرہیزگارہو چکے تھے لیکن انسان کی بھوک شکم سیری میں ضرور بدل چکی تھی اور ہر پیدا ہونے والا بچہ شہری کی حیثیت سے حکومت وقت سے اپنا مشاہیر وصول کرتا تھا۔ اسلامی تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ اسلامی تہذیب نے اس دنیاپر ایک ہزار سالوں تک حکمرانی کی اورہر دن خوراک کا دن ہوتا تھاکیونکہ پوری اسلامی تہذیبی تاریخ میں کہیں کسی ہوٹل کا پتہ نہیں ملتا اس لیے کہ شہر کے رؤساباہر نکل کر دوردور تک دیکھاکرتے تھے کہ اگر کوئی مسافر آرہاہوتواسے مہمان بناکر اپنے ہاں لے جاتے اور پھر نجی محفلوں میں یہ بات باعث فخر ہوتی کہ کس کے کتنے زیادہ مہمان قیام پزیر ہیں اور کس کے ہاں کتنا وسیع دستر خوان ہے۔لیکن کتنے دکھ کی بات ہے کہ سیکولر مغربی تہذیب نے جہاں ہر چیز کو پیسے کے ترازو میں تولا ہے وہاں کھانے پینے اور خوراک کو بھی حرص و لالچ اورطمع سے آشکارا کر دیا ہے،سال بھر میں خوراک کا ایک عالمی دن منانے والے ہرسال ہزاروں ٹن گندم صرف اس لیے سمندر میں بہادیتے ہیں کہ بازار میں بھیج دینے سے گندم کی مارکیٹ مندے کا شکار ہوجائے گی اور صحیح دام نہیں ملیں گے جبکہ دنیابھر میں ہرسال ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ محض بھوک کے مارے موت کی آغوش میں سدھار جاتے ہیں اور تف ہے انسانیت کے ان ٹھیکیداروں پر جو ہر ماہ کے آخر میں دودھ کے بھرے ہوئے ٹینکرمٹی کے گڑھوں میں بہادیتے ہیں کیونکہ اس دودھ کی برآمد کے لیے انہیں مناسب رقم کی بولی میسر نہیں آتی۔اور کیاکہیے ان خیرخواہان انسانیت کو جو پاگل گایؤں کا گوشت افریقی اور ایشیائی ممالک میں برآمد کر دیتے ہیں کیونکہ یہاں بھوک سے لوگ تڑپ رہے ہوتے ہیں اور ان سیکولر تہذیب والوں کو ان بھوکوں پر بہت ترس آرہا ہوتا ہے۔علامہ اقبال کی زبان میں اہل یورپ لوگوں کا خون پے کر مساوات کا درس دینے والے ہیں اور یہی حقیقت ہے کہ کتنے کی خوراک کے عالمی دن آئے اور گزر گئے تو کیا اس دنیاسے بھوک کم ہوئی؟؟۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ظالمانہ سرمایارانہ نظم معیشیت نے دنیامیں بھوک،افلاس،غربت اورجہالت میں بے پناہ اضافہ کردیاہے۔بنکوں کے نام پر منڈیوں میں کساد بازاری کادھندہ گرم سے گرم ترہوتاچلاجارہاہے اور اس کے نتیجے میں دولت پوری دنیاسے سمٹ کر چندہاتھوں میں جمع ہوتی چلی جارہی ہے۔بنک قرضہ دیتے ہیں اور اس قرض پر اپنی مرضی کی شرائط لاگوکر کے اضافہ کے ساتھ وصول کرتے ہیں جس کے باعث افرادسے اقوام تک کے تمام تر معاملات مقروض معیشیت کی چھتری تلے چلائے جارہے ہیں۔ان حا لات میں سرمایادارکو اپنی تجارت کے لیے دہری ادائگی کرنا پڑتی ہے،پہلے وہ بنک کواصل زراور سود اداکرے اور پھر وہ اپنے ملازمین کو تنخواہوں اور دیگرسہولیات کی مد میں ادائیگیاں کرتارہے۔نتیجے کے طورپر وہ بنک سے اپنے تعلقات تو خراب کرنے کامتحمل نہیں ہو سکتاکیونکہ وہاں سے اسے قرضہ ملتے رہناہے لیکن اوراپنے مزدوروں کاحق ضرور مارلیتاہے۔اول اقدام کے طورپروہ مزدوروں کی تنخواہوں میں کمی کرتاہے جس سے بھوک میں اضافہ ہوتاجاتاہے اور غربت پھلنے پھولنے لگتی ہے۔جب اس اقدام سے بھی سرمایادار کی ادائگیوں کاتوازن درست نہیں ہوپاتاتووہ یاتومزدوروں کی تعدادکم دیتاہے یاپھر ان کی ادائگیوں میں تاخیرکرتاچلا جاتا اور ان کا حق مارنے لگتاہے،جس سے بھوک میں مزیداضافہ ہوجاتاہے۔اگرمزدوراس سرمایادارکی چیرہ دستیوں کے باعث اس کو خیرآباد کہ دیں تواسے بازارسے سستے مزدورمیسرآجاتے ہیں۔یہ سستے مزدور بچے اورخواتین ہوتی ہیں۔اب اس معاشرے کی بدحالی کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے جہاں کاری گر مرد اورکارآمد نوجوان بے روزگارہوں اور خواتین اپنے بچوں، گھراورخاندان کی قیمت پر نوکریاں کرتی پھریں۔اس طرح کے معاشروں میں بھوک توایک فطری نتیجہ کے طور پر سامنے ضرور آئے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ بدکاری عام ہونے سے اخلاقیات کا جنازہ جب اٹھے گاتومشکوک نسلیں اورخاندانی تباہیوں کادہانہ اس قوم کا مقدر ٹہرے گا۔ بھوک میں اضافے کی دوسری بہت بڑی وجہ دنیابھرمیں سودی لین دین ہیں۔عالمی ساہوکاروں نے بڑی چابکدستی سے پوری دنیامیں سودکو مجبوری بناکر نافذ کردیاہے۔تنخواہیں اور جملہ ادائگیاں جو پہلے دست بہ دست نقد میں ہوجاتی تھیں اب 100%نہ سہی تو ایک آدھ درجہ کی کمی بیشی کے ساتھ تمام مالی امور بنکوں کے توسط سے نمٹائے جاتے ہیں۔بنک کاادارہ سودی لین دین کاسب سے بڑاٹھیااورقابل اعتماد اڈہ ہے۔عالم انسانیت اس دور سے گزررہی ہے جس کے بارے میں پیشین گوئی فرمادی گئی تھی کہ ایک وقت آئے گاجب تم سود کی گرد سے بھی نہ بچ سکو گے۔ایک مالدار کو کاروبارتجارت میں خطرہ محسوس ہو اور آمدن بھی کم نظر آئے اور مال کا تحفظ بھی عنقا ہو،اور اس کے مقابلے میں بنک میں سرمائے کوتحفظ حاصل ہو،نفع یقینی ہواورسرمایا بھی باقی رہے تو صاحب مال دوسراراستہ ہی اختیارکرے گا۔حالانکہ سلف صالحین جس کو قرض دیتے تھے پھراس کی دیوار کے سائے میں بھی کھڑے نہ ہوتے تھے کہ مبادا فرشتے اس سائے کی آسودگی کو سود میں لکھ لیں۔ سودی نظام سے امیرامیرتر ہوتاچلاجاتاہے اور غریب غریب تر ہوجاتاہے۔اس طرح جب غریب کی بھوک میں اضافہ ہوتاہے توان دونوں طبقوں میں فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں اس آسمان نے وہ دن بھی دیکھے کہ جب سونے کی اینٹوں پردھری چاندی کے پاؤں والی چارپائی پر براجمان مہاجن کے سامنے بیٹھاہاری کہ رہاتھا کہ سود کے عوض میری یہ نوخیز بیٹی لے لوجب کہ اصل زر میں اگلی فصل پر لوٹادوں گا۔اس اگلی فصل کی انتظارمیں نسلیں گزر جاتی ہیں اور بھوک ختم ہونے کی بجائے جنم جنم میں بڑھتی چلی جاتی ہے۔یہ بھوک پھر انسانی معاشروں میں نفرت کی آگ بھڑکاتی ہے،شر اور فساد کے دروازے کھل جاتے ہیں،بغض،کینہ حسداور ناروامقابلے کی آڑمیں انسانی رویے زہرآلود ہوتے چلے جاتے ہیں۔دل پھٹ جاتے ہیں،تعلقات کھوکھلے ہوجاتے ہیں اورانسانوں میں عدم برداشت درآتی ہے۔آنے والی نسلوں میں جب اس ظالمانہ نظام کے خلاف بغاوت کامادہ بیدارہوتاہے تو جرائم کاآسیب اس معاشرے کوپوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے۔تب راہوں میں کھڑے ہوکربھوک سے تنگ لوگ انتظارکرتے ہیں کہ کب پیٹ بھرے لوگوں کی سواریاں گزریں اور وہ ان کی عورتوں کے زیوراور ساتھ میں موجود مال و اسباب لوٹ کر اپنی بھوک مٹائیں۔بھوکے لوگ ایسے گھروں کو تاڑمیں رکھ کر وہاں وارداتیں کرتے ہیں جہاں پران کی بھوک کاسان موجود ہو۔چوری ڈکیتی،اغوابرائے تاوان اورقتل تک کے وقوعے معاشرے میں جگہ پکڑنے لگتے ہیں۔یہ اور اس طرح کی بے شمار اور وجوہات کے باعث وحی الہی نے سود کو اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺکے خلاف اعلان جنگ قرار دیاہے۔پس لازمی ہے اس دنیاسے غربت ختم کرنے کے لیے اور بھوک و افلاس کے اختتام کے لیے سرمایادارانہ نظام کودفن کرکے تورحمۃ اللعالمین ﷺکا لایاہوا اسلامی نظام معیشیت نافذ کیاجائے جس میں صدقات واجبہ و نافلہ سے معاشرتی طبقے باہم شیروشکرہو کر انسانیت کی اعلی ترین اخلاقی روایا ت واقدارپرکاربندہوکر خالق حقیقی کاقرب حاصل کرسکیں گے۔

Short URL: https://tinyurl.com/2foblhuo
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *