سیلاب کی تباہ کاریاں اور ہماری زمہ داریاں

Warda Siddiqi
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: وردہ صدیقی

دنیا مومن کے لئے قیدخانہ مصائب و مشکلات کا گھر ہے مگر جنت اس کی اصلی قیام گاہ ہے۔ جو خواہش، تمنا، آرزو جنت میں کرے گا اللہ رب العزت اسے فورا پورا فرمادیں گے۔ آج ملک پاکستان میں سیلاب کی خطرناک صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ کئی اضلاع زیر آب آچکے ہیں۔ بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ کھیتیاں برباد ہوچکی ہیں۔ رشتے بکھر چکے ہیں۔ کاروبار ڈوب گئے ہیں۔ راستے مسدود ہیں، بھوک و افلاس سے متاثرین پریشان حال ہیں، بچے دودھ کے لئے بلک رہے ہیں۔ ہر نئے دن کا سورج اپنی کرنوں کے ساتھ مزید پریشانیوں کو بکھیر رہا ہے۔

چہار عالم خوف وہراس پھیل چکا ہے۔ موجودہ و آئندہ فکروں کی چادروں نے ہر طرف سے لپیٹ رکھا ہے۔ مگر مومن کی شان یہ ہے کہ وہ جسم واحد کی طرح ہے۔ جب اس کے بھائی کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے سارا پاکستان سوگوار ہے اور اپنے ملک کے متاثر خاندانوں کی بڑھ چڑھ کر خدمت کررہے ہیں۔ ان تک کھانے پینے اوڑھنے پہننے اور رہنے کو سامان پہنچا رہے ہیں۔ جس سے جتنا بن پارہا ہے اس نیکی میں اپنا حصہ شامل رہا ہے۔

سیلاب: آزمائش، عذاب یا رحمت

مومن کو اس دنیا میں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے حتی کہ اگر ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو وہ تکلیف اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہے اور اس پر اجر و ثواب سے بھی نوازا جاتا ہے، گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے۔
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان جب بھی کسی تھکاوٹ، بیماری، فکر، رنج و ملال، تکلیف اور غم سے دو چار ہوتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں۔ (صحیح البخاری)
یہ تکالیف و مصائب اللہ کے مومن بندوں کے لئے آزمائش ہوتی ہیں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ میں تمہیں مختلف انداز سے آزماؤں گا اور گہنگاروں پر اللہ کا غضب و سزا ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنی غفلت بھری زندگی سے جاگ جائیں اور اپنے خالق کو پہچان کر اس کی مان کر چلیں۔ یہ تکالیف و مصائب باعث رحمت بھی ہیں۔ جو لوگ مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں اور اپنے حالات پر اللہ تعالیٰ سے شکوہ کناں ہونے کے بجائے صبر و شکر کی تسبیح پڑھ رہے ہیں۔ ان کے لئے رحمت کا باعث بنتے ہیں آخرت میں اجر و ثواب اور درجات کی بلندی کا سبب بنتے ہیں

سیلاب متاثرین کا حال

حکام کو کوسنا زبان زد عام بن چکا ہے ان کی غیر ذمہ داریوں پر ملامت کیا جارہا ہے۔ مگر خیال یہ اٹھتا ہے کہ ہم بحیثیت انسان و مسلمان اپنے سیلاب زدگان کے لئے کیا کررہے ہیں؟
دوسروں کی نالائقیوں کو گنوانے کے بجائے کیا ہم نے خود سے کبھی یہ سوال کیا ہے کہ ” ہم اپنے فرائض و زمہ داریوں کو کتنا ادا کررہے ہیں؟؟”
آپ جب کھانا کھانے بیٹھیں تو نوالہ منہ میں ڈالنے سے پہلے لازمی ان بھائی بیٹیوں، بزگوں، ماؤں بہنوں بیٹیوں کا سوچئیے گا کہ ان کی طرف بھی کھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔۔۔۔ سامنے پانی کا سیلاب ہے مگر پینے کے قابل نہیں، کھانے کو گندگی بھرے کیچڑ کا ڈھیر ہے مگر وہ کھانے کا نہیں۔۔۔۔ گندے کپڑے، پراگندہ بال، مٹی سے اٹے ہوئے چہرے کے ساتھ۔۔۔۔ سر چھپانے کو چھت بھی نہیں۔ بے آسرا بے یار و مدد گاربھوک سے نڈھال کسی خیر خواہ کے منتظر بیٹھے ہیں۔ بچے بھوک پیاس کے مارے بلک رہے ہیں۔ سر پر چھت نہ ہونے اور مسلسل بارشوں کے باعث ننھے پھول اپنے ہی اجڑے ہوئے گلشن میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ ٹھاٹے مارتا پانی نہ بچہ دیکھتا ہے نہ بوڑھا، لپیٹ میں آئے ہر مرد و عورت کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ کسی کے ماں کے لعل اس کی آنکھوں کے سامنے ڈوب گئے تو کسی کی دنیا (والدین) ہی اجڑ گئی۔ بیوی کو معلوم نہیں کہ اس کا شوہر کہاں ہے۔ بھائی نہیں جانتا کہ بہنیں اگر زندہ ہیں تو کہاں کس حال میں ہیں۔ مکان و مکین دونوں اجڑ گئے۔ ایک لمحے خود کو ان کی جگہ رکھ کر سوچیں واللہ۔۔۔! آپ کے حلق سے نوالہ نہیں اترے گا۔۔۔۔ دن کا چین اور رات کا سکون ختم ہوجائے گا۔ نیند روٹھ جائے گی۔۔۔ اگر ہم آج محفوظ ہیں تو خدارا۔۔! رب کا شکر بجا لائیے۔ کیونکہ اس پرودگار نے آپ کو آزمائش سے بچا کر بھی آپ کو آزمایا ہے کہ آیا میرے بندے اب بھی غفلت کی چادر اوڑھے سوتے رہیں گے یا عبرت حاصل کرکے اپنی اصلاح کریں گے۔اپنی رنگین دنیا میں مست رہتے ہیں یا ان مصیبت زدہ لوگوں کے درد کو سمجھ کر ان کی مدد کرتے ہیں۔ بقدر حیثیت امداد میں اپنا حصہ شامل کیجئے اگر ہم اپنی خواہشات کو کنٹرول اور فضول اخراجات کو کم کردیں۔ اپنی جمع پونچی میں سے کچھ حصہ اپنے متاثرین بہن بھائیوں کے لئے مختص کردیں۔
نیز جو بہنیں آج تک اپنی زیوارت کی زکوۃ ادا کرنے میں سستی کا شکار رہی ہیں ان سے گزارش ہے کہ یہ بہترین موقع ہے اپنی زکوۃ، خیرات، عطیات کے ذریعے سے متاثرین کی امداد کیجئے۔ تاکہ انہیں سر چھپانے کو چھت، اوڑھنے کو کپڑا اور کھانے کو راشن مل سکے۔
مت بھولیں۔۔۔! کہ یہ دنیا گول ہے، برے اور مشکل حالات سب پر آتے ہیں اگر ہم اللہ کے فضل سے بچے ہوئے ہیں تو یہ ہمارا کمال نہیں ہے۔ وہ ذات اگر ان علاقوں میں سیلاب بھیج سکتی ہے تو ہم پر بھی بھیج سکتی ہے۔۔۔۔ شکر ادا کیجئے۔۔۔! کہ اللہ نے ہمارا انتخاب امداد کرنے والوں میں کیا ہے نہ کہ امداد لینے والوں میں۔۔۔ اللہ تعالی سورہ بقرہ میں فرماتے ہیں:”اے ایمان والو!جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور شفاعت اور کافر ہی ظالم ہیں۔”

امداد کرنے والوں کے نام ایک اہم پیغام

اب جلدی سے عمل کیجئے اور جس ادارے پر آپ کا اعتماد ہے اس ادارے کے ذریعے اپنی رقم، راشن یا سامان وغیرہ سیلاب زدگان کو بھیجوائیے۔ لیکن یاد رہے کہ جس ادارے کو بھی آپ امدادی سامان یا رقم بھیج رہے ہیں ایک بار ان کے بارے میں تسلی ضرور کرلیجئے۔
سوشل میڈیا پر ان کا عملی کام لازمی دیکھ لیں۔ درد دل رکھنے والے ادارے کو اپنا حصہ دیجئے جو راستے کی مشکلات سے بے جگری سے لڑتے ہوئے اصل مستحقین تک آپ کی امانتیں پہنچائیں، نہ کہ کھٹن راہوں کو دیکھ کر نامعلوم افراد کو ہی تقسیم کرکے واپس آجائیں۔ اب تک مذہبی طبقہ اس میدان میں مکمل ایمانداری و اخلاص کے ساتھ سرگرم دیکھا ہے جو کہ مشکلات سے لڑتے ہوئے حقدار تک ان کا حق پہنچا رہے ہیں۔

تاجر کمیونٹی سے خصوصی درخواست

امدادی سرگرمیوں میں سرگرم حضرات کی جانب سے جابجا یہ شکوہ سننے کو مل رہا ہے۔ اشیا ء ضرورت یک دم مارکیٹ سے شارٹ کردی گئی ہیں۔۔۔ بارہا کوشش کے باوجود امدادی سامان ملنا مشکل ہورہا ہے۔اور جہاں اشیا میسر ہیں وہ تاجر حضرات دگنی تگنی قیمت لگارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جب سامان کا آڈر تیار کروایا جاتا ہے خصوصا اشیا خورد و نوش، وہ غیر معیاری تیار کی جارہے ہیں۔ دھوکہ دہی کی جارہی ہے کہ آٹے کے توڑے میں آدھا آٹا اور آدھا پھوک ملایا جارہاہے۔۔۔ اس کے علاوہ بھی کئی شکایات ہیں۔
میری تاجر کمیونٹی سے درخواست ہے کہ براہ کرم یہ وقت دنیاوی کاروبار کا نہیں بلکہ اخروی کاروبار کا وقت ہے۔اللہ کے ساتھ ڈیل کرنے کا وقت ہے جو ایک نیکی پر دس گنا منافع سے نوازے گا۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں: “جو لوگ اپنا مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اور اللہ تعالی جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالی کشادگی وااور علم واہے(261)
لہذا ذخیرہ اندوازی سے پرھیز کیجئے، مال سٹاک کرنے کے بجائے پیش کیجئے، ناپ تول میں کمی نہ کیجئے۔ جس چیز کا جتنا آڈر دیا جائے آپ مکمل بھیجئے۔ اشیا کی قیمت کو بڑھا چڑھا کربیچنے کے بجائے اپنی اصلی قیمت پر فروخت کیجئے۔ معیاری اور صاف ستھری اشیا متاثرین تک پہنچانے میں مدد کیجئے۔
آپ کا یہ عمل بھی بہت معنی رکھتا ہے۔ اللہ کے ہاں آپ کو اخلاص وایمانداری پر بھر پور اجر عظیم ملے گا۔ سیلاب زدگان حوصلہ رکھیں آخر میں سیلاب سے متاثر افراد کو میں پیغام دینا چاہوں کہ آپ کے دکھ درد وتکلیف کا دنیا میں کوئی بدل نہیں ہوسکتا، آپ کے بچھڑے رشتے ہم آپ کو واپس لا کر نہیں دے سکتے ہیں لیکن ہم بحثیت قوم اپنی ذمہ داری پوری کررہے ہیں کہ آپ تک راشن سامان پہنچائیں، رہائش کا بندوبست کرکے دیں۔ آپ کو واپس اپنی زندگی میں مستحکم کرسکیں۔بس آپ نے حوصلہ رکھنا ہے۔ یہ جان تو ویسے بھی ایک دن جانی ہی تھی اور پیسہ گھر اولاد سب چھوڑ کر انسان کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہی تھا۔
مگر اس تکلیف کے بعد اب آپ اللہ کے خاص بندے بن چکے ہیں لہذا صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیجئے گا۔
دنیا میں کڑی آزمائشوں سے آپ گزرے ہیں اس پر اللہ تعالی نے جو بلند درجات عطا فرمائے ہیں قیامت کے دن جب آپ کو ملیں گے تو لوگ دیکھ کر ارمان کریں گے، عش عش کراٹھیں گے۔ ل
ہذا مایوس نہیں ہونا کیونکہ یہ دنیا تو مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے ہمارا اصلی گھر تو جنت ہے جہاں آپ کا بلند و بالا مقام اللہ نے تیار کررکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر قسم کی آزمائشوں کی حفاظت فرمائے،بے گھر خاندانوں گھر نصیب فرمائے اور مصیبت کی اس گھڑی میں صبر جمیل عطا فرمائے (آمین)

Short URL: https://tinyurl.com/2egpptje
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *