فتح مکة کا واقعاتی تناظر
تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی
گزشتہ آسمانی کتابوں میں آخری نبی ﷺ کی جو نشانیاں وضاحت سے بےان ہوئیں ان میں ایک نشانی آبائی شہر مکہ مکرمہ کی فتح بھی ہے۔بائبل نے دس ہزار قدسےوں کے جس لشکر کا ذکر کیا ہے یہ وہی تعداد ہے جو اس معرکے میں محسن انسانیت ﷺ کے ہمرکاب تھی۔ہندو آج تک جس چوہدویں اوتار کا انتظار کررہے ہیں اسکی نشانیوں میں سے بھی ایک نشانی اپنے آبائی دیس کو فتح کرنا شامل ہے۔یہ اﷲ تعالی کی طرف سے اپنے آخری نبی ﷺ کو دےے گئے انعامات میں سے ایک خاص انعام ہے کہ جہاں کی زمین محسن انسانیت ﷺ پر تنگ کر دی گئی اور ہجرت پر مجبور کر دےا گےا ٹھیک آٹھ سال کے بعداﷲ رب العزت نے اس شہرکے دروازے آپ کے لےے کھول دےے۔صلح نامہ حدیبیہ دراصل فتح مکہ کا مقدمہ ثابت ہوا۔اس صلح نامہ میں ایک شرط یہ بھی تھی دس سال تک فریقیں کے درمیان جنگ نہ ہو گی اور عرب قبائل جس فریق کے ساتھ چاہیں گے مل سکیں گے۔دو قبائل جو باہم دشمن تھے ان میں سے بنو بکرقریش مکہ کے ساتھ مل گئے اوربنو خزاعہ مسلمانوں کے حلیف بن گئے۔ان دونوں کے درمیان جب جنگ ہوئی تو یہ دس سالہ عدم جنگ کے معاہدے کی خلاف ورزی تھی،قریش کو چاہےے تھا کہ یہ جنگ رکوا دیتے ےا کم از کم غیر جانبدار رہتے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا اور اپنے دوست قبیلہ بنوبکرکے ساتھ مل کر مسلمانوں کے دوست قبیلے بنوخزاعہ میں خوب قتل و غارت گری اور لوٹ کھسوٹ کی۔بنو خزاعہ نے حرم مکہ مکرمہ میں پناہ لینا چاہی تو ان ظالموں نے حرم کا احترام بھی نہ کیا۔
بنو خزاعہ کا ایک نمائندہ سرداربدیل بن ورقہ مدینہ منورہ میں محسن انسانیت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی مظلومیت کی اشعار کی صورت میں بآوازبلند صدا لگائی،آپ ﷺ نے بہت افسوس کا اظہار کیا اورمدد کا وعدہ فرماےا اوراپنا ایک نمائندہ قریش مکہ کے پاس روانہ کیاجس نے سرداران قریش کے سامنے تےن شرائط پیش کیں:
1۔بنو خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا دا کیا جائے اور انکے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ےا
2۔قریش مکہ اپنے دوست قبیلے بنو بکر کاساتھ چھوڑ دیں اور انکی حماےت سے دستکش ہو جائیں۔ےا
3۔صلح نامہ حدیبیہ کومنسوخ کر دےا جائے
قریش کے سرداران نے تکبر میں آکر تےسری شرط قبول کر لی اور اس طرح صلح حدیبیہ ڈھائی سال بعد اپنے انجام کو پہنچ گئی۔قاصد کے روانہ ہوتے ہی قریش کو اپنی غلطی کا احساس ہواتو انہوں نے فوراََ ابو سفےان کو مدینہ روانہ کیا۔ابو سفےان آپ ﷺ کے کو ملنے کے لےے اپنی بیٹی ام حبیبہ کے ہاں گےا جو زوجة النبی ﷺاورام المومنین تھیں ابو سفےان بیٹھنے لگا تو بیٹی نے بستر کھینچ لیا،باپ نے پوچھا یہ کیا کرتی ہو؟ بیٹی نے کہا کہ یہ بستر نبوی ﷺ ہے اور آپ مشرک ہیں بھلا ایک مشرک نبی کے بستر پر کیسے براجمان ہو سکتا ہے۔ابو سفےان کو مدینہ میں پہنچنے والا یہ پہلا صدمہ تھا۔
صلح حدیبیہ کو دوبارہ قائم کرنے کے لےے ابوسفےان محسن انسانیت ﷺ ﷺ سے ملا لیکن مایوسی ہوئی،حضرت ابوبکر،حضرت عمر،حضرت عثمان اور حضرت علی سے بالترتےب الگ الگ ملا۔سب نے آپ ﷺ سے ملنے کا مشورہ دےا جب ابو سفےان نے آپ ﷺ کے بارے میں بتاےا کہ وہ ﷺ نہیں مانے تو سب نے اپنی بے بسی کا اظہار کر دےاتاہم حضرت علی کرم اﷲ وجہ نے اسے مشورہ دےا کہ مسجد میں کھڑے ہو کر تو خود سے صلح نامہ حدیبیہ دوبارہ قائم کرنے کا اعلان کر دو،ابوسفےان نے ایسا ہی کیا لیکن ظاہر ہے معاہدے ہمیشہ دو طرفہ ہوا کرتے ہیں یک طرفہ معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ابو سفےان اس ناکام سفارت کے بعداپنے اونٹ پر سوار ہوااور مکہ سدھار گےا۔محسن انسانیت ﷺ نے پوری رازداری کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی تےاری شروع کر دی اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کو سامان باندھنے کا حکم دے دےا۔10رمضان المبارک 8ھ کو مدینہ سے روانہ ہوئے اور مکہ کی الٹ سمت چل کھڑے ہوئے اور دعا کی کہ اے بار الہ ہمارا ارادہ دشمن سے خفیہ رکھنا اور اس تک ہر اطلاع کے دروازے مسدود کر دےنا۔حاطب بن ابی بلتعہ نامی آدمی نے ایک عورت کی چوٹی میں رقعہ باندھ کرقریش کو اطلاع کرنا چاہی لیکن وحی کے ذریعے آپ ﷺ کو اسکی اطلاع دے دی گئی ۔چنانچہ حضرت علی اور انکے ساتھی دوڑائے گئے جنہوں نے اس عورت سے رقعہ برآمد کر لیا۔
محسن انسانیت ﷺ کے ساتھ دس ہزارجاں نثار تھے،جب راستہ میں حضرت عباس بن عبدالمطب اپنے اہل و عیال کے ساتھ آپ سے ملے۔وہ مسلمان ہو کر مدینہ آ رہے تھے۔آپ ﷺ کے چچےرے بھائی اورپھوپھی زاد بھائی بھی راستے میں آپ سے ملے اب وہ بھی مسلمان ہو چکے تھے۔آپ ﷺ کے لشکر نے وادی فاطمہ میں پڑاو¿ ڈالا اور ہر ہر مجاہد نبوی ﷺ نے حکم رسول خدا کے مطابق رات کواپنا اپنا علیحدہ چولھا جلاےا۔اہل مکہ بہت مضطرب تھے کہ کسی بھی وقت ان پر مسلمانوں کا حملہ ہو سکتا تھا،جبکہ اﷲ تعالی نے ان پر اطلاعات کے تمام دروازے بند کررکھے تھے۔حضرت عباس اس رات آپ ﷺ کے خچر پر نکلے اور مکہ کے نواح سے ابو سفےان کو تلاش کر کے اپنے پیچھے خچر پر بٹھاکر لے آئے ۔وہ جس جس الاو¿ سے گزرتے لوگ گھور کر دیکھتے تو آپ ﷺ کا خچر اورچچاعباس کو دیکھ کر تھم جاتے کیونکہ ابو سفےان نے منہ پر کپڑا کر رکھا تھالیکن حضرت عمر نے پہچان لیا اور آپ ﷺ کی طرف دوڑے تاکہ قتل کی اجازت پاکر ابو سفےان کاسر قلم کر دیں۔حضرت عباس نے بھی خچر کو ایڑھ لگا دی اور حضرت عمر سے پہلے آپ ﷺ کے خیمے میں داخل ہو کر تو ابو سفےان کے لےے امان مانگ لی۔
اگلی صبح محسن انسانیت ﷺ نے ابوسفےان کو ایک اونچے پہاڑی مقام پر کھڑا کر کے اسلامی لشکرکو حکم دےا کہ ابوسفیان کے سامنے سے مارچ پاسٹ کرتے ہوئے گزریں۔جب بھی کوئی دستہ گزرتا وہ پوچھتا یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت عباس بتاتے یہ بنی فلاں ہیں وہ کہتا مجھے کیا۔گوےا وہ اپنا خوف چھپانے کی کوشش کرتا۔اس طویل لشکر کے آخر میں لوہے میں ڈوبا ہوا ایک دستہ گزرا ابو سفےان چلا اٹھا خدا کی قسم ان لوگوں سے مقابلہ ممکن نہیں اور پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟فرماےا انصار و مہاجرین کے جلو میں محسن انسانیت ﷺ تشریف فرما ہیں۔اس موقع پرایک انصاری صحابی جن کے ہاتھ میں” علم“تھا،انہوں نے ابوسفیان کو دیکھ کر نعرہ بلند کیاکہ کہ آج انتقام لینے کا دن ہے،محسن انسانیتﷺنے ان سے ”علم لے کر ان کے بیٹے کے ہاتھ میں تھمادیااور فرمایاآج رحم کرنے کا دن ہے۔اسکے بعد ابو سفےان کے ذہن میں دوردور تک اگر کہیں مقابلے کا خیال بھی تھا تو وہ دم توڑ گےا۔ابو سفےان دوڑتا ہوا مکہ پہنچااوراہل شہر کو مسلمانوں کے لشکر کی آمد کی جانکاہ اطلاع سنائی۔کچھ اوباش مقابلے کے لےے تےار ہوئے ۔محسن انسانیت ﷺنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کیااور مکہ کے چار اطراف سے داخل ہونے کا حکم ارشاد فرماےا تاکہ اہل مکہ مقابلہ کرنا بھی چاہیں تو انکی قوت چار حصوں میں تقسیم ہو جائے۔صرف حضرت خالد ؓ بن ولید کے دستے سے کچھ کفار کا ٹکراو¿ہوا،باقی ماندہ تےنوںدستے امن و آشتی سے کوہ صفا پر محسن انسانیت ﷺسے آن ملے اور فتح تکمیل پزیر ہوئی۔
فاتحین ماضی کے ہوں ےا اکیسویں صدی کی دہلیز پر جب مفتوحہ علاقوں میں داخل ہوتے ہیںتو انکی گردنیں تنی ہوئی ہوتی ہیں اور تلواریں خون کی پیاسی ہوتی ہیں۔لیکن محسن انسانیت ﷺجب مکہ میں داخل ہوئے تو پیشانی مبارک اس قدر جھکی ہوئی تھی کہ داڑھی کے مقدس بال کجاوے کو چھوچھو رہے تھے اورمحسن انسانیت ﷺنے قتل عام کی بجائے امن عام کا اعلان کر دےا۔صرف نو افراد کے بارے میں فرماےا کہ اگرغلاف کعبہ بھی تھامے ہوں تو سر قلم کر دےا جائے۔ان میں سے بھی پانچ افراد مختلف حیلوں سے جان بخشی کرانے میں کامیاب ہو گئے۔محسن انسانیت ﷺانصارومہاجرین کے جھرمٹ میں حرم مکہ میں داخل ہوئے آپﷺکے دست مبارک میں کمان تھی ،حرم میں موجود کم و بیش 360بت اس کمان کی ٹھوکر سے گرتے چلے گئے،آپ اونٹنی پر سوار تھے اوراسی حالت میں طواف کعبہ کیا، عمرے کی ادائگی اس لےے ممکن نہ تھی کہ احرام باندھا نہ گےا تھا۔عثمان بن طلحہ سے خانہ کعبہ کی چابی منگوا کر کمرے میں داخل ہوئے جہاں حضرات ابراہیم و اسمائیل علیھما السلام کی تصویریں بنی تھیں۔کعبہ وحرم کعبہ کو ان نامعقولات سے پاک کیااندر ہی نماز ادا کی۔اسکے بعد حضرت بلال ؓ نے کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر آذان بھی دی،حضرت بلال رضی اﷲ تعالی عنہ کو یہ اعلی و ارفع مقام ان کے تقوی اور حب رسولﷺ کے باعث ملا۔پہلادن اسی طرح تمام ہوا۔دوسرے دن محسن انسانیت ﷺنے خطبہ دےا جس میں حرم مکہ کی حرمت دوبارہ قےامت تک کے لےے قائم کرنے کا اعلان کیا۔انصار کا خیال تھا کہ محسن انسانیت ﷺ شاید اب مکہ میں ہی قےام کریں گے لیکن آپ ﷺ نے فرماےا اب مرنا جینا انصار کے ساتھ ہی ہے۔ہاتھیوں والوں کی ہلاکت سے یہ بات طے ہو گئی تھی کہ خانہ کعبہ پر کسی شریر کا قبضہ نہیں ہو سکتا۔اب کے عرب قبائل منتظر تھے کہ خانہ کعبہ پر کس فریق کا قبضہ ہوتا ہے۔مسلمانوں کے قبضے سے نبی علیہ السلام کی حقانیت ثابت ہو چکی،چنانچہ قبائل عرب فوج در فوج مکہ میں آئے اور دست نبویﷺ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
Leave a Reply