بولیویا Bolivia

Dr. Sajid Khakwani
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی

جنوبی امریکہ کا آم پیداکرنے والا ملک
(6اگست:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

”جمہوریہ بولیویا“جنوبی امریکہ کا ایک ملک ہے جوبراعظم کے وسطی مغربی حصے میں واقع ہے۔بولیویاکے شمال اور مشرق میں برازیل کی ریاست ہے۔جنوب میں ارجنٹینا،جنوب مشرق میں پاراگواکاملک ہے جبکہ مغرب میں چلی اور شمال مغرب میں پیرو کی مملکتیں ہیں۔”ٹی ٹی کاکا“جھیل جو جنوبی امریکہ کی دوسری بڑی جھیل ہے،اسکے ساحل بولیویااور پیرو کے درمیان مشترک ہیں۔انیسویں صدی کے آخر میں لڑی گئی جنگ کے بعد سے یہ ملک سمندری ساحلوں سے محروم ہے تاہم پڑوسی ممالک کے ساتھ معاہدوں کی بدولت بولیویاکو سمندروں تک رسائی حاصل ہے۔سواچارلاکھ مربع میل(424164)رقبہ کا یہ ملک شمالاََ جنوباََ نوسوپچاس میل اور شرقاََ غرباََ آٹھ سو میل کے طول و عرض پر مشتمل ہے۔آئینی طور پر ملک کا قدیمی شہر”سکرے“اس کا دارالحکومت ہے جہاں سپریم کورٹ بھی موجود ہے لیکن عملی طور پر ”لاپاز“کا شہر مملکت کے دارالحکومت کے طورپر استعمال ہوتاہے اور مرکزی حکومت کے جملہ دفاتریہیں پر ہی ہیں۔ تاریخی طور پر یہ ملک بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس علاقے کے تہذیبی ڈانڈے کولمبیا کی قدامت پسند تہذیب سے جڑے ہیں۔بولیویاکی سرزمین دو بڑی بڑی تہذیبوں کی امین ہے،ماضی بعید میں ”ٹیواناکو“نامی تہذیب نے ایک عرصے تک یہاں پر اپنے ڈنڈے گاڑے رکھے اور ماضی قریب میں پندرہویں اور سولہویں صدی کے دوران یہ ملک ”اینکا“تہذیب کاایک تاریخی حصہ بنا۔ان دونوں تہذیبوں کے دوران انڈین کا زمانہ بہت کثرت سے پایا جاتا ہے جب ان کے بارہ بڑے بڑے گروہوں نے اس علاقے میں بہت طاقتور حکومتیں قائم کیں اور ان کے دور کی خاص بات اس زمانے کا بہترین زرعی نظام ہے۔اس کے بعد یہاں پراسپینیوں کے اقتدارکا سورج طلوع ہوا جن کا پایہ تخت پیرو کے پڑوسی ملک میں تھا اور بولیویاکے ریاستی معاملات کی باگیں وہیں سے ہلائی جاتی تھیں۔اسپینیوں نے انڈین کی قابل دید صحت کے باعث انہیں زراعت جیسے نسبتاََ آسان کام سے ہٹا کر زیرزمین کانوں سے معدنیات نکالنے جیسے کٹھن کام پرزبردستی لگادیا۔بولیویاکی معاشرت اسی زمانے میں اساس کی گئی ثقافتی بنیادوں پر استوار ہے۔ 1809میں ان علاقوں میں نئے اور بدیسی حکمرانوں کے خلاف تحریک آزادی کا آغاز ہوا،”لاپاز“اس آزادی کی تحریک کا دوسرا بڑا مرکزتھااور اکثر مورخین کا خیال ہے کہ یہیں سے لاطینی امریکہ کی بہت بڑی اور تاریخ ساز جدوجہد آزادی کی بنیادرکھی گئی۔6اگست1825میں پیرو کی کانگریس نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور یوں بولیویانے بھی آزادی کا سانس لیا اب یہ دن اس مملکت میں جشن آزادی کے طور پر منایا جاتاہے۔ بولیویا کی آبادی تین بڑے بڑے گروہوں پر مشتمل ہے،انڈین اقوام،دوغلی نسل کے لوگ اور گورے،جو زیادہ تر اسپینی ہی ہیں۔صدیاں گزرجانے کے بعد اب یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کون کتنے فیصد ہے تاہم انڈین بہت بڑی اکثریت کے مالک ہیں اور دوغلی نسل کے لوگ دوسرے نمبر پر ہیں جب کہ گوروں کی تعدادسب سے کم ہے۔انڈین کے تین قبائل بہت زیادہ موثر اور تعداد میں باقی آبادی پر فائق ہیں،پہلا قبیلہ ”آئی مارا“ ہے جو ”گٹرال“ زبان بولتے ہیں اورملک کے شمالی اور وسطی علاقوں میں قیام پزیر ہیں،”کی چوا“دوسرابڑا گروہ ہے جو ”اینکا“کے اصل وارث گردانے جاتے ہیں اور اس گروہ نے ”اینکا“ تہذیب کی متعددثقافتی باقیات کو اب تک سینے سے لگا رکھاہے اور یہ مملکت کے جنوبی حصے میں نظر آتے ہیں،انڈین کا تیسرا بڑا گروہ ”گوارانی“قبائل ہیں جو اب تک ریاست کے نشیبی حصے میں جنگلات کے اندر اپنے وجود کو باقی رکھے ہوئے ہیں۔انڈین کی بہت بڑی تعداداب بھی زراعت،کان کنی،فیکٹری مزدور اور تعمیراتی فن سے وابسطہ ہے،تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں بھی تعلیمی و سیاسی شعور پختہ ہو رہا ہے اور ان قبائل کے وہ لوگ جو شہروں میں آباد ہیں وہ سماجی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔”آئی مارا“اور”کی چوا“ کی زبانیں یہاں کی دفتری زبانیں ہیں اور کچھ اثرات اسپینی زبان کے بھی ہنوزموجود ہیں۔دوغلی نسل کے لوگ زیادہ تر شہروں میں آباد ہیں اور تجارت و ملازمت کے پیشوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔گورے جو زیادہ تر اسپینیوں کی نسل ہیں اب بھی اپنے آپ کو باقی آبادی سے برترسمجھتے ہیں اور شہروں کے قریب کی آبادیوں میں رہتے ہیں لیکن1952کے انقلاب کے بعد ان لوگوں کا سیاسی و سماجی اثرونفوذ بہت ہی کم ہو گیاہے۔آبادی میں ایک مختصر حصہ باہر سے آئے ہوئے لوگوں کا بھی ہے جو کم و بیش دنیاکے ہر براعظم سے یہاں وارد ہوئے ہیں۔ باسیوں کی اکثریت مذہب عیسائیت کے رومن کیتھولک چرچ سے تعلق رکھتی ہے۔ بولیویاکی حیوانی حیات میں اونٹ کی نسل کا ایک جانور جو اونٹ سے چھوٹے قد کا ہوتاہے”لاما“بہت اہمیت رکھتاہے۔اسی جانور کی مختلف نسلیں مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہیں،ان کی اون بہت قیمتی سمجھی جاتی ہے اور ان سے باربراداری سمیت ان کی کھال سے چمڑا اور ان کا گوشت پکاکر کھانے تک یہ جانور وہاں کی زندگی میں دخیل ہے۔خاص طور پر جنگلات اور دیہاتوں میں ”لاما“ کے بغیرکوئی بھی انسانی خاندان ادھوراسمجھاجاتاہے۔زمانہ قدیم میں ”لاما“اور اس کے ہم جنس دوسرے جانوروں کو مذہبی اہمیت حاصل تھی اور ایک حد تک یہ تقدیس کا استعارہ سمجھے جاتے تھے کیونکہ انہیں ”پاچاماما“جو زمین کی ماں ہے اس خاطر ذبح کیاجاتاتھا۔”گدھ“یہاں کا بہت کثرت سے پایاجانے والاپرندہ ہے،اس کے علاوہ جھیل ”ٹی ٹی کاکا“کے کنارے بہت سے دیگرجانور اور پرندے اللہ تعالی زمین کو آباد کیے ہوئے ہیں۔یہاں کے دریاؤں میں ”ٹراؤٹ“مچھلی بھی بہت کثرت سے ملتی ہے۔ بولیویامعدنیات کے اعتبار سے بہت امیرملک ہے لیکن سڑکوں کی ناقص حالت اور دیگرجملہ مایوس کن امور کے باعث یہاں کی فی کس آمدن بہت کم ہے جس کے باعث یہ ملک جنوبی امریکہ کا سب سے غریب ملک سمجھاجاتاہے۔1952کے انقلاب کے بعد بہتری کی کچھ صورت بنی ہے جس کے باعث ملک میں پہلے سے بہتر حالات نظر آتے ہیں۔ملکی برآمدات پر زرمبادلہ کا انحصار ہوتا ہے جبکہ بولیویاکی برآمدات ہمیشہ سے عدم استحکام کا شکار رہی ہیں۔سوناچاندی اور زنک یہاں بہت کثرت سے نلکتاہے اور باہر کی دنیا میں بیچابھی جاتاہے۔چالیس فیصد لیبرزراعت سے وابسطہ ہے،ٹماٹر،مکئی،گندم،کافی،اناناس،کوکا،تربوز،کیلااور آم بھی یہاں کثرت سے پیداہوتے ہیں۔ بولیویانے1825میں آزادی حاصل کی اور اس کا پہلا دستور1826میں نافذ ہوا۔1967میں اس میں بڑے پیمانے پر ترامیم کی گئیں اور1994سے یہ مکمل طور پر نافذ ہے۔دستاویز کے مطابق مملکت کا سربراہ صدر ہوتاہے جسے پانچ سالوں کے لیے براہ راست رائے دہی سے منتخب کیاجاتاہے۔قانون سازی کے لیے دو ادارے ہیں جن کے اراکین بھی پانچ سالوں کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔سپریم کورٹ ملک کی اعلی عدلیہ ہے جس کے بارہ ججز ہیں اور آئینی ٹریبیونل میں ملک کے پانچ بزرگ ترین ججزکام کرتے ہیں ان سب ججزکو دس سالوں کے لیے تعینات کیاجاتاہے۔مملکت کو نو بڑے بڑے انتظامی حلقوں میں تقسیم کیاگیاہے،ان انتظامی حلقوں میں صوبے بھی آتے ہیں اور صوبوں میں مزید انتظامی تقسیم کے طور پر اضلاع ہیں ان سب کے سربراہان کا تقرر صدر مملکت کی طرف سے کیاجاتاہے۔ملک میں 325میونسپلٹیز بھی ہیں۔یہاں پر خواتین کو1938میں پہلی دفعہ ووٹ کا حق ملا۔بولیویامیں فوجی مداخلت کاراستہ قانونی طور پر روک دیاگیاہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ صدی کے آخر سے اب ملک میں سیاسی و معاشی استحکام موجود ہے۔ بولیویامیں بہت سی مسلمان تنظیمیں متحرک ہیں،مقامی زبانوں میں ان کے نام بھی رکھے گئے ہیں۔1986میں یہاں پر بولیوین اسلامی مرکزکی بنیاد رکھی گئی،1992میں ملک مین پہلی مسجد کی تعمیر کی کمیٹی بنائی گئی۔2006میں بولیویاکے اندر پہلی مسجدکاافتتاح ہوا۔یہ حالات بتاتے ہیں کہ اس ملک میں مسلمان کوئی بہت بڑی تعداد میں نہیں ہیں،مقامی افراد میں تو اسلام نہ ہونے کے برابر ہے تاہم باہر سے آئے ہوئے مسلمانوں نے وہاں کوشش کر کے تو نورتوحیدکو پھیلانے کا اہتمام کررکھاہے۔چلہ لگانے والا ایک مبلغ اپنی ویب سائٹ میں لکھتاہے کہ ہم بولیویاکے کئی شہروں میں گئے وہاں دوسرے ملکوں سے آئے مسلمانوں سے اکثر ملاقاتیں ہوئیں،اور ہم نے ہر جگہ غیر مسلموں میں اسلام کی پیاس کامشاہدہ کیا۔برطانیہ کے مسلمان نے جب سنا کہ بولیویاکے مسلمان مسجد کے لیے فنڈ اکٹھاکررہے ہیں تو اس نے خود سے رقم فراہم کرکے تین منزلہ عمارت خرید کر بولیویاکے مسلمانوں کو دے دی جو وہاں کی پہلی مسجد بنی جس میں مردوں عورتوں کے الگ ہال،بچوں کا مدرسہ اور امام کی رہائش گاہ بھی ہے۔وہ برطانوی مسلمان اب فوت ہو گیاہے۔

Short URL: https://tinyurl.com/2qe36exf
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *