جھنڈے سے بیر کاہے کا

Hadayat Ullah Akhtar
Print Friendly, PDF & Email

وہ بڑے جوش سے کہہ رہا تھا ہم کیوں منائیں جشن آزادی پاکستان۔ہم تو پاکستانی ہی نہیں۔میں نے پوچھا کیوں آپ ہندوستان سے آئے ہیں۔اس نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا۔۔ہندوستان اور پاکستان دو الگ ملک ہیں اور ہم نے آزادی حاصل کی ہے ہماری ایک الگ سٹیٹ رہی ہے پندرہ دنوں تک۔اور نام تھا اسلامی جمہوریہ گلگت بلتستان ۔اچھا اچھا آپ یکم نومبر کی بات کر رہے ہیں لیکن بھائی یکم نومبر کو تو صرف گورنر گھنسارا سنگھ ہی گرفتار ہوئے تھے اور باقی علاقے تو ڈوگروں سے خالی ہی نہیں ہوئے تھے گلگت کے ساتھ بلتستان کا نام کیسے۔اسلامی جمہوریہ گلگت ہوگا ۔اس نے جواب میں کہا ہاں ہاں اسلامی جمہوریہ گلگت تھا اور اس کے صدر راجہ شا رئیس خان تھے۔میرے اس استفسار پر کہ اس آزادی میں کسی کی مدد شامل تھی وہ بڑے فخر سے بولا کسی کی نہیں ہم نے اپنے زور بازو اور ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے اس خطے کو آزاد کرایا ہے۔اچھا ایک بات کی اور وضاحت کر دیں کہا یہ جاتا ہے کہ اس آزادی کی جنگ میں چترال سکاوٹس ۔کشمیر فورس اور پاکستانی فضائیہ نے بھی بھرپور حصہ لیا تھا صحیح ہے۔ نہیں ۔حسن خان اور بابر نے آزادکرایا ہے اس علاقے کو ۔وہ بولا۔میں نے سوال کو کسی اور انداز سے پوچھا۔ اچھا یہ بتائو کہ حسن خان صاحب کس فوج میں تھے فٹ سے بول پڑے گلگت سکاوٹس میں ۔میں نے تصحیح کرا دی ارے بھائی وہ تو مہارجہ کشمیر کی فوج میں ملازم تھے جو بونجی میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے ۔کشمیر فورس کی مدد تو شامل ہوئی نا ۔اس پر وہ بولا حسن خان تو گلگت کا فرزند تھا۔میں نے کب کہا کہ گلگت کا فرزند نہیں تھا ۔میں تو یہ بتا رہا ہوں کہ وہ کشمیر فوج کی نمائندگی کر رہا تھا۔جب ا نہوں نے آزادی حاصل کی تھی تو اپنے ملک کا جھنڈا تو لہرایا ہوگا۔میرے اس سوال پر وہ کچھ سوچ میں پڑ گیا تھوڑی دیر بعد یوں گویا ہوا پتہ نہیں یار آپ کیسی باتیں کرتے ہیں مجھے جھنڈے کا پتہ نہیں لیکن میں نے یہ سنا ہے کہ ایک جھنڈا تیار کروایا گیا تھا جسے سازش کے تحت لہرانے نہیں دیا گیا۔یہ سازش کن لوگوں کی تھی وہ بولا انگریزوں کی ۔کمال ہے یار جھنڈا بھی آزادی کا لہرایا نہیں گیا اور پندرہ دنوں تک آزاد ملک بھی رہا۔ میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔ہاں اب ایک آخری سوال جب یہ آزاد ملک بن گیا تھا تو کونساجھنڈا لہرایا گیا۔وہ بولا پاکستان کا۔واہ یعنی پاکستان زندہ باد۔ تو یہ کہو نا کہ ڈوگروں کے انخلا کے بعد اسلامی جمہوریہ گلگت نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان بن گیا تھا۔ہاں ہم نے الحاق کیا تھا وہ بولا۔تو پھر اب آپ کو جشن آزادی منانے میں اعتراض کیوں ہے؟ جواب میں فرمایا کہ پاکستان نے ہمیں قبول نہیں کیا۔کیوں ؟وہ فرمانے لگے کہ پاکستان کا موقف ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر ایشو کی وجہ سے متنازعہ خطہ کہلاتا ہے اور پاکستان کا آئینی حصہ نہیں ۔یہ کہنے کے بعد مجھ سے بولا کہ یار میرا ایک ضروری کام ہے میں جا رہا ہوں ہاتھ ملایا اور چلا گیا۔ میں بھی ضروری کام کی وجہ سے ہی یہی رکا تھا جہاں پاکستانی جھنڈے سجے ہوئے تھے اور لوگ بڑے جوش و خروش سے جھنڈوں کی خریداری میں مصروف تھے ۔اور بازار میں جو ٹریفک چل رہی تھی وہاں موٹر سائکلوں اور دیگر گاڑیوں میں پاکستانی پرچم لہرا رہے تھے۔دو نومبر انیس سو سینتالیس کو سکاوٹ لائن گلگت میں لہرانے والا پاکستان کا یہ پرچم ہمارا پرچم یہ پرچموں میں عظیم پرچم جب چودہ اگست انیس اٹھتالیس کو بلتستان آزاد ہوا تھا تو وہاں بھی لہرایا گیا تھا۔یوں اب ہر سال چودہ اگست کو گلگت بلتستان کے ہر گھرکی چھت پر لہرایا جاتا ہے ۔اس حقیقت سے رو گردانی ممکن نہیں کہ گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کی وجہ سے متنازعہ خطہ ہے اور جب تک رائے شماری نہین ہوتی یہ خطہ پاکستان کے زیر انتظام ہے اور رہیگا۔ انتظامی راج میں انتظامی سیٹ اپ تو ہوتے رہینگے جیسے گلگت بلتستان کا صوبائی سیٹ اپ انتظامی کنٹرول کی ایک کڑی ہے اور اسی صوبائی اسمبلی میں بھی پاکستانی جھنڈا بلند رہتا ہے۔جھنڈے سے بیر کاہے کا۔جشن آزادی پاکستان مبارک۔جشن منائو خوب منائو مگر جان کے منائو

Short URL: http://tinyurl.com/j9onnav
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *