تحریر: ڈاکٹر فوزیہ عفت تھا بس کہ روز قتل شہ آسماں جناب نکلا تھا خون ملے چہرے پہ آفتاب تھی نہرِ علقمہ بھی خجالت سے آب آب روتا تھا پھوٹ پھوٹ کر دریا میں حباب پیاسی تھی جو سپاہ خدا
تحریر: ڈاکٹر فوزیہ عفت ماہ محرم ہماری تاریخ کا ایسا ناقابل فراموش باب جوقیامت تک بند نہیں ہوگا .حق و باطل کی ایسی جنگ کی داستان جو روز ازل سے جاری ہے اس کا ایسا معرکہ جس نے بہادری اور
بھارتی جنگی جنون کیا گل کھلائے گا ؟ ہم محض اندازہ ہی لگا سکتے ۔سرحدوں پہ بلا اشتعال فائرنگ اور سرحدی قوانین کی خلاف ورزی ویسے بھی ہندوستان کا وطیرہ بن چکا ہے ۔ہماری نسل جنگ کے اثرات سے بے
قارئین ۔ بظاہر آجکل کے بچوں کے بھاری بھرکم بستے اچھی تعلیم کے غماز دکھائی دیتے۔ تعلیم کے معیار دو باتوں میں تولا جاتا ۔انگریزی بھاری بھرکم سلیبس اور بھاری فیسیں ۔اگر آپ کے اسکول میں یہ دونوں چیزیں ھیں
کسی نے ایک دانا آدمی سے پوچھا جمہوریت کسے کہتے ہیں ؟دانا نے برملا کہا آزادی کو ۔سوال آیا آزادی کیا ہے؟ دانا نے آسمان پہ اڑتے پرندوں کی طرف اشارہ کیا وہ دیکھ رہے ہو وہ آزاد ہیں ان
وزیر اعلی قائم علی شاہ کی کرسی صدارت اب مراد علی شاہ کو تفویض کییجانے والی ہے ۔وزیر خزانہ مراد علی شاہ سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا پارٹی قیادت جو فیصلہ کرے گی انہیں منظور ہو گا
بالاآخر کشمیر کے انتخابات بھی ہو گئے ءاور نتائج نے ثابت کر دیا کہ کشمیریوں میں حبِ حکومت حد درجہ ہے -پی پی پی اور پی ٹی آئی -کی شکست نے حکومت کی برتری کا ایک واضح پوائنٹ منظر ِِ
ماہِ صیام کے دوسرے عشرے کے اختتام کے ساتھ ہی خواتین اور بازار کا چولی دامن کا ساتھ نظر آتا ہے۔کپڑوں ،جوتوں اور کاسمیٹکس کی دکانوں پہ رش بڑھ جاتا ہے معاشی طور پہ کمزور افراد بھی اپنی حیثیت کے
لفظ برائے فروخت؛ایسے لفظ جو عوام کو جگانے کا سبب بنیں ۔ایسے لفظ جو معاشرے کی سچائی دکھائیں ،ایسے لفظ جن کو زر کا تڑکہ لگائیں تو آپ نام پیدا کر سکتے ہیں ،ایسے لفظ جوآپ کے تو نہیں مگر
بھر دو جھولی میری یا محمد۔۔۔۔لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی یہ قوالی جانے کیوں میری زباں پہ خود بخود صبح صبح وارد ہو جاتی ہے شاید انسان کے اندر کی ایک آواز اور طلب ہوتی ہے کہ وہ