مرد آہن

Dr. Fozia Iffat
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ڈاکٹر فوزیہ عفت


قوم کا جرات مند بیٹا ایک بہادر اور وطن پرست سپاہی جن سے قوم کی ہمیشہ سے بہت سی امیدیں وابستہ رہی ہیں ۔اپنی مدت ملازمت پوری کر کے اپنے عہدہ سے۔سبکدوش ہو گئے۔پاکستان کی تاریخ میں بہت سے جنرل آئے اور بارہا اس ملک کو مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا عوام کی حکمرانوں سے بد دلی اور حالات کے تقاضوں کی وجہ سے اکثر اسمبلیاں ٹوٹیں اور مارشل لاء لگا ۔راحیل شریف اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ انہوں نے کرسی اور سیاست سے ہٹ کر کام کیا۔دہشت گردی پاکستان کے لیے ایسا گھمبیر مسئلہ ہے کہ اس نےاس کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی جنرل  اشفاق پرویز کیانی نے اگرچہ وزیرستان میں دہشت گردوں کی کافی حد تک سر کوبی کی مگر اس میں بہت سے معاملات آڑے آتے گئے۔ کئی سیاسی جماعتوں کا دباؤ دہشت گردوں سے مذاکرات کی تجاویز اور تو اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کو شہید قرار دیا جانے لگا بحر کیف اس میں سیاسی جماعتوں کا مفاد پوشیدہ تھا سو بات اور مذاکرات سب ہوا میں تحلیل ہو گئے۔جب راحیل شریف نے اپنا عہدہ سنبھالا اس وقت دہشت گردی اپنے عروج پہ تھی اور ملک حالت جنگ سے دوچار تھا کراچی کی سیاست اور حالات کی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ۔اغوا برائے تاوان۔بم دھماکے ۔بھتہ خوری۔گینگ وار گویا ملک اندرونی سازشوں کا شکار تھا اور یہ سب روز کا معمول تھا۔زندگی کہیں محفوظ نہ تھ۔فرقہ واریت عبادت گاہوں میں دھماکے۔کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں انسان خود کو محفوظ پاتا۔  اور ان سب پہ کاری ضرب اے۔پی ۔ایس پشاور پہ حملہ تھا جس میں تین سو سے زائد اساتذہ اور بچے شہید ہوئے اس سوگواری اور زندگی سے بے اعتباری کے ماحول میں جنرل  راحیل شریف  نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھانے کا اعلان کیا ۔عوام نے ان کی بھرپور حمایت کی کیونکہ وہ دہشت گردی اور اس خون کی ہولی سے تنگ آچکی تھی اور جنرل صاحب ایک مسیحا کے طور پہ سامنے آئے۔ضرب عضب  کے نتیجے میں دہشت گردوں کو ان کی کمین گاہوں سے نکال کر چن چن کے مارا گیا ۔ان کے اسلحہ خانے اور اڈے تباہ کیے گئے بےشمار اسلحہ بارود کے ذخائر کا پتہ لگا کر بیشتر دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا گیا اور وزیرستان کے کافی علاقے خالی کروا لیےگئے۔یہ جنرل صاحب کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ضرب عضب دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی جنگ تھی جس کا چرچا دنیا میں ہوا اس میں صاحب بہادر امریکا کو بھی صلاح گیر نہ سمجھا گیا۔ ضرب عضب  نے گویا زخموں پہ مرہم کا کام دیا اورعوام کو یقین ہو گیا کہ اب حالات میں بہتری آئے گی۔ دوسرا مرحلہ نیشنل ایکشن پلان کا تھا یہاں جنرل صاحب کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ سیاسی جماعتوں کو اپنا آپ خطرے میں نظر آیا بالخصوص ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی اس کی بڑی مخا لف تھی ۔ اس پہ بہت سی تاویلیں گھڑی گئیں مگر سب سیاسی پارٹیوں کو دستخط کرنے پڑے۔نیشنل ایکشن پلان  کو سبوتاژ کرنے کے لیے کبھی دھرنوں تو کبھی احتجاجوں کے روڑے اٹکائے گئے۔اور جب یہ شروع ہوا تو کراچی کی صورتحال میں واضح تبدیلی آئی اور عوام نے سکھ کا سانس لیا۔جنرل صاحب کے تین سالہ دور میں انہوں نے بہت کام کیے اور عوام کی پسندیدہ شخصیت میں شمار ہو گئے عوام چاہتی تھی کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع کروا لیں مگر وہ نہ مانے ۔شاید ان کی زیرک اندیشی حکومت اور سیاسی جماعتوں کی بغل میں چھری اور منہ پہ رام رام کی پالیسی بھانپ چکی ہے۔حکمرانوں اور پاکستان کے ٹھیکیداروں نے تو سکون کا سانس لیا کہ جنرل صاحب نے خود توسیع ملازمت سے انکارکردیا  ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا آنے والے جنرل ۔ صاحب ۔راحیل صاحب کے پلان کو آگے بڑھاتے یا حکومت کو خوش کرتے۔ اب کچھ جنرل راحیل کے پس منظر کے بارے میں بات کروں گی۔

فوجیوں کے گھرانے سے تعلق رکھنے والےراحیل شریف 16 جون 1956ء کو کوئٹہ کے ایک ممتاز فوجی گھرانے میں پیدا ہوئے- ان کے والد کا نام میجر محمد شریف بھٹی ہے-ان کے بڑے بھائی میجر شبیر بھٹی شریف 1971 کی پاک بھارت جنگ میں شہید ہوئے اور انہیں نشان حیدر ملا- وہ تین بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیں- ان کے دوسرے بھائی، ممتاز شریف بھٹی، فوج میں کیپٹن تھے۔ وہ میجر راجہ عزیز بھٹی، جنہوں نے 1965 ء کی بھارت پاکستان جنگ میں شہید ہو کر نشان حیدر وصول کیا ،کے بھانجے ہیں- راحیل شریف شادی شدہ ہیں اور ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ اس بھٹی فیملی نے مادر وطن کی حفاظت کی ایک تاریخ رقم کی جاں باز اور دلیر فوجی اس خاندان کی ایسی میراث جسے تاریخ ہمیشہ سنہری حروف میں لکھے گی۔
راحیل شریف نے گورنمنٹ کالج، لاہور سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوے- اکیڈمی کے 54ویں لانگ کورس کے فارغ التحصیل ہیں- 1976 ء میں گریجویشن کے بعد، انہوں نے فرنٹیئر فورس رجمنٹ، کی 6th بٹالین میں کمیشن حاصل کیا- نوجوان افسر کی حیثیت سے انہوں نے انفنٹری بریگیڈ میں گلگت میں فرائض سرانجام دئیے- ایک بریگیڈیئر کے طور پر، انہوں نے دو انفنٹری بریگیڈز کی کمانڈ کی جن میں کشمیر میں چھ فرنٹیئر فورس رجمنٹ اور سیالکوٹ بارڈر پر 26 فرنٹیئر فورس رجمنٹ شامل ہیں۔  جنرل پرویز مشرف کے دور میں میجر جنرل راحیل شریف کو گیارہویں انفنٹری بریگیڈ کا کمانڈر مقرر کیا گیا- راحیل شریف ایک انفنٹری ڈویژن کے جنرل کمانڈنگ افسر اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ رہنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں- راحیل شریف نے اکتوبر 2010 سے اکتوبر 2012 تک گوجرانوالہ کور کی قیادت کی- انہیں جنرل ہیڈ کوارٹرز میں انسپکٹر جنرل تربیت اور تشخیص رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
27 نومبر 2013 کو وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں پاکستانی فوج کا سپاہ سالار مقرر کیا۔ایک سپاہی اپنے وطن اور اس کی سرزمین کے علاوہ کسی چیز میں دل چسپی نہیں لیتا سو یہی حال راحیل شریف کا بھی کہ وہ  سیاست میں عدم دلچسپی رکھتے ہیں- انہیں دو سینئر جرنیلوں، لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم اور لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود پر فوقیت دی گئی- ایک سینئر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم نے اسی وجہ سے فوج سے استعفی دیا- ایک اور سینئر جنرل، لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود کو بعد ازاں چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی مقرر کر دیا گیا-
20 دسمبر 2013 کو راحیل شریف کو نشان امتیاز(ملٹری) سے نوازا گیا-
راحیل شریف نے جس وقت پاکستانی آرمی کی کمانڈ سنبھالی تو ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر تھی۔انھوں نے دہشت گردوں کے خلاف سخت موقف اخیتار کیا اور سانحہ پشاور کے بعد پاکستان آرمی نے تمام تر ملک دشمن قوتوں کے خلاف بلا تفریق کاروائیاں کی۔اس سے امن و امان کی صورتحال میں بہتری ہونے لگی اور راحیل شریف ملک میں ایک مقبول آرمی چیف کی حثیت سے ابھرے۔عوام کی بیشتر امیدیں حکمرانوں کے بجائے ان سے وابستہ ہو گئیں۔خصوصا ملکی امن امان کے حوالے سے وہ قوم کے ہیرو قرار پائے۔ضرب عضب نے جو خوش کن نتائج دیے وہ انہی کا کارنامہ ہے۔ حالیہ ایران سعودیہ کشیدگی میں وہ بھی ملکی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگے کم کرنے کے لیے دورے پر تھے۔
راحیل شریف ایک آرمی چیف کی حثیت سے نومبر 2016 تک خدمات انجام دے سکتے تھے۔انکے عہدے کے دورانیے میں توسیع کے حوالے سے زیر گردش افواؤں پر انھوں نے آئی ایس پی آر کے ذریعے اعلان کیاہے کہ “پاکستانی فوج ایک عظیم ادارہ ہے۔ میں ایکسٹینشن میں یقین نہیں رکھتا۔ان اس بات نے ایک طرف تو ان کی عزت میں اضافہ کیا دوسری طرف ذہنوں میں ایک سوال بھی اٹھا کہ ان کے مشن کے نئے  کماندار اس کو کیسے نبھائیں گے۔ 1976 سے 2016 تک کا سفر انہوں نے بہت خوبی سے نبھایا اور اعزازات کی ایک لمبی فہرست انکی زندگی میں شامل ہو تی گئی جو ان کی پیشہ ورانہ مہارت و قابلیت کی دلیل ہے۔ایک نظر اس پہ بھی ڈالتے۔

غیر آپریشنل اعزازات
نشان امتیاز
ہلال امتیاز
یادگاری اعزازات
قرارداد پاکستان تمغا
تمغا استقلال
ہجری تمغا
تمغا جمہوریت
یوم آزادی جبیلی سنہرہ اعزاز
تمغا بقا
خارجہ اعزازات
آرڈر آف عبدالعزیز آل سعود
اعزاز برائے فوج میں میرٹ (ریاست ہائے متحدہ امریکا)
یہ وہ تمام اعزازات ہیں جو ان کو مرد آہن ثابت کرتے ہیں اب دعا ہے کہ آنے۔والے بھی ان کے نقش قدم پہ چلیں اور پاک پاک پاکستان اور صاف صاف پاکستان کا عزم لیکر آگے بڑھیں۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل
لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا۔

Short URL: http://tinyurl.com/h33qgjj
QR Code: