۔23 مارچ یا 24 مارچ !ایک حقیقت ایک تناذعہ۔۔۔۔ تحریر: فریحہ احمد

Print Friendly, PDF & Email

درج ذیل آرٹیکل ,میں نے یہ ایک نامور اخبار میں شائع ہونے کے لیے دیاتھا مگر شاید آج بھی ہمارا میڈیا اس حد تک آزاد نہیں ہے جتنا ہم ینگ رائٹرز سمجھتے ہیں یا شاید اس تاریخی غلطی کا کوئی حل نہیں ہے تو کوئی اس تناذعہ میں پڑنا نہیں چاہتا… آج بھی ہم جی جی سننے اور کہنے کو سلام کرتے ہیں… خیر حقیقت چھپائے نہیں چھپتی… مجھ سے پہلے بھی کء لوگوں نے اس بارے م?ں بات کی ہوگی مگر مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ کوئی پیش رفت تو دور اس بارے م?ں بات تک سننیکو کوئی تیار نہیں…
جی ہاں, قرارداد لاہور کسی تعارف کی محتاج نہیں ہر فرد اسکی اہمیت سے بخوبی واقف ہے۔ مسلمانوں کی جدوجہدِآزادی کی تاریخ میں قرارداد لاہور ایک اہم اور بنیادی ستون ہے۔ یہ وہ دن ہے تھا کہ مسلمانوں نے اپنی منزل کا حتمی تعین کیا, انہوں نے اپنے علیحدہ وطن کی تحریک کا ازسرنو آغاز کیا تھا۔ تاریخ کی عام کتابوں اور مضامین میں یہ دن 23 مارچ 1940 لکھا گیا.. مگر حقیقت اس سے مختلف ہے۔ مستند معتبر کتابوں اور معروف مورخین کی تحریروں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ قرارداد لاہور 23 مارچ کو پیش ضرور ہوئی مگر 24 مارچ کو منظور ہوئی..
پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی نے انگریزی میں
“A history of freedom movement ”
کے نام سے چار جلدوں پر مشتمل کتب شائع کیں ہیں, اس کتاب کی چوتھی
جلد میں جناب شریف الدین پیر زادہ کا مضمون “دی لاہور ریزولیوشن1940 “شامل ہے جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سہ روزہ اجلاس کی تمام کاروائی درج ذیل ہے جس کے مطابق مسلم لیگ کے یہ اجلاس صدر مسلم لیگ قائداعظم کی صدارت میں منعقد ہوئے ۔ 23 مارچ کے کھلے اجلاس میں قائداعظم نے خطاب کیا۔ اسی روز رات 8بجے نوابزادہ لیاقت علی خان, قائد اعظم, سر سکندر حیات اور دوسرے ارکان پر مشتمل کمیٹی میں قرارداد کا مسودہ پیش کیا, 23 مرچ کو صْبح 11بجے کمیٹی کا دوبارہ اجلاس ہوا جس میں قرارداد لاہور کے مسودہ کو حتمی شکل دی گئی کچھ قائدین نے خطاب کیے اور نماز کے وقفہ کی وجہ سے اجلاس اگلے روز تک ملتوی کر دیا گیا..
جناب پیر زادہ صاحب نے اپنے مقالہ میں قائداعظم کا بیان کیا,اس بیان میں واضح طور پر قائداعظم نے کہاکہ قرارداد لاہور 24 مارچ کو منظور کی گئی اور ہندوستان کے مسلمانوں میں
“A red letter day ”
قرار دیا۔( صفہ73تا 113 )۔
ایک اور مورخ نامور شاعر پیام شاہجیہاں پوری نے “تاریخ نظریہ پاکستان ” میں مسلم لیگ کے اس کھلے اجلاس کا تفصیلا زکر کیا ہے جس سے یہ بات صادق آتی ہے۔
مزید برآں پاکستان بننے سے قبل کلکتہ سے انگریزی میں “دی اندین انیول رجسٹر ” کے نام سے سہ ماہی کتاب شائع ہوئی تھی جس میں ملک بھر کے سیاسی, معاشی, صعنتی, سماجی,تعلیمی سرگرمیوں کی رپورٹس شامل ہوتی تھی اور اسے بڑی مستند دستاویزسمجھا جاتا تھا۔ اس کتاب کے جنوری تا جون 1940 کے شمارے میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی روائید موجود ہے۔
ایک معروف محقق ڈاکٹر کے عزیز (خورشید کمال عزیز ) کے ایک انٹرویو کا زکر… ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کی تاریخ کے حوالے سیایسی کون سی غلطیاں ہیں جو غلط ہی مشہور ہو گئی.. ( سہیل ورائچ, 8 اپریل 2001 ) تو ان کا جواب تھا کہ سب سے پہلی غلطی تو یہ ہے کہ قرارداد لاہور 23 مارچ کو نہیں بلکہ 24 مارچ 1940 کو منظور ہوئی.. ان کا کہنا تھا کہ درمیان م ہفتہ وار تعطیل آگء تھی۔ ا?ن دنوں اتوار کو اخبار نہیں چھپتا تھا۔ پیر کو اخبار آیا تو ان میں جمعہ ہفتہ کی خبریں بھی تھی جن سے تمام لوگوں کو غلط فہمی ہو گئی کہ یہ قرارداد 23 مارچ کو منظور ہوئی۔۔۔
وجہ چاہے جو بھی ہو.. یہ بات میرے لئے حیران کْن ہے کہ جب ملک کو 1956 میں آئین کی نعمت سے آراستہ کیا گیا تو اس وقت حکمرانوں نے قرارداد لاہور کے حوالے سے اس تاریخی غلطی کو درست کیوں نہیں کیا گیا, یہاں تک کہ تاریخ اور دستاویزات بھی اسکی تائید نہیں کرتی تھیں۔
معلوم نہیں کہ ہمارے صاحب علم ورانش ہمارے مورخین نے اس غلطی کو جانتے ہوئے بھی اس کی تصیح کے لئے پیش رفت کیوں نہیں کی۔۔۔

Short URL: http://tinyurl.com/hpz2sul
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *