
ایک فلم کے اندر کئی چھوٹی چھوٹی فلمیں ہیں، جن میں سے ’پشاور سے لاہور‘ غالباً سب سے کامیاب کوشش ہے
ٹرین کا ذکر آیا ہے تو فلم کے اندر چھوٹی چھوٹی کئی فلموں میں سے ایک منٹو کے افسانے ’پشاور سے لاہور‘ پر مبنی ہے، جس میں عنوان کے مطابق کراچی سے لاہور تک کا ٹرین کا سفر دکھایا گیا ہے۔ اس میں ایک لڑکے کو زنانہ ڈبے میں بیٹھی ایک حسین لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے اور وہ ہر سٹیشن پر اتر کر اس کے لیے چیزیں خریدتا ہے، اور اس دوران اپنے ذہن میں کئی خواب بھی بن لیتا ہے، لیکن لاہور پہنچ کر کھلتا ہے وہ لڑکی دراصل طوائف ہے۔ اس مِنی فلم کی کہانی کو ایک گانے کے اندر بلیک اینڈ وائٹ فوٹوگرافی کی مدد سے اس طرح سے فلم بند کیا گیا ہے جیسے آپ بالی وڈ کی 50 کی دہائی کی کوئی عمدہ فلم دیکھ رہے ہیں۔ ’پشاور سے لاہور‘ منٹو کے عظیم افسانوں میں شمار نہیں ہوتا، لیکن یہ بات کسی بھی صورت ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ یا ’ہتک‘ کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی جو منٹو کے دو اعلیٰ ترین افسانے ہیں۔ ان دونوں افسانوں کو جس طرح دو تین منٹ میں نمٹایا گیا اس سے ایک ہی تاثر ابھرتا ہے، تشنگی، تشنگی۔ شاہد ندیم کو معلوم تھا کہ منٹو کے بعض خاکے ان کے بڑے افسانوں سے کم نہیں ہیں۔ انہی میں سے ایک ’نورِ جہاں سرورِ جہاں‘ ہے جس میں منٹو نے کسی سرجن کے نشتر کی طرح سارے ملمع کاٹ کر اصل ملکۂ ترنم کی ذات تک رسائی دی ہے۔ فلم ’منٹو‘ میں اس خاکے کے محض چند جملے ہی استعمال ہو سکے، تاہم فلم کے سیٹ، شوٹنگ اور نورجہاں کا اپنے گانے ’چاندنی راتیں‘ پر رقص فلم کے ناظر کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ یہ تو ہو گیا فن، اب آئیے شخصیت کی جانب۔ منٹو نے پاکستان آ کر برف کے کارخانے کا لائسنس لیا تھا لیکن وہ ان سے چلا نہیں۔ اس کو فلم میں پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بےچارے قدرت اللہ شہاب کو رگید دیا گیا ہے جنھوں نے اپنی طرف سے غالباً منٹو کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی۔

فلم کی کاسٹ میں درجنوں اداکار شامل ہیں جن میں سے اکثر چند لمحوں ہی کے لیے سکرین پر آتے ہیں
اور اب نسبتاً زیادہ سنگین موضوعات آ جاتے ہیں، جن میں پہلے منٹو پر فحش نگاری کے الزام میں چلنے والے مقدمے ہیں۔ منٹو پر کل نصف درجن مقدمے چلے، آدھے متحدہ ہندوستان اور آدھے پاکستان میں۔ ’منٹو‘ میں ان مقدموں اور منٹو کی پیشیاں بھگتنے کا تکلیف دہ عمل ضرور دکھایا گیا ہے لیکن اس ضمن میں سوائے ایک آدھ خود کلامی کے کسی قسم کے دلائل نہیں پیش کیے گئے کہ منٹو کو کیوں فحش نگار نہ سمجھا جائے۔ لیکن شاید یہ کسی اور فلم کا سکرپٹ ہے۔ منٹو کی زندگی کا تصور کرتے ہوئے ان کی مریضانہ شراب نوشی کا تصور آنا لازمی ہے۔ چنانچہ فلم کے آخری حصے کو اسی مقصد کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔
ثانیہ سعید، جو بقیہ فلم میں پس منظر میں تھیں، یہاں بھرپور طریقے سے سامنے آتی ہیں۔ انھوں نے منٹو کی اہلیہ صفیہ کا مشکل کردار بہت دیانت داری اور ہمدردی سے نبھایا ہے۔ اس حصے میں اگر سرمد کھوسٹ کی اوور ایکٹنگ اور منٹو کی ہمزاد کی دخل در معقولات کو نظرانداز کر دیا جائے تو یہ فلم کا سب سے عمدہ اور سب سے پرکشش حصہ بنتا ہے۔ تکنیکی طور پر فلم کا معیار خاصا بلند ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم مسئلہ چھوٹے بجٹ کے ساتھ 50 کی دہائی کو پیش کرنا تھا، جس میں پروڈکشن یونٹ کو خاصی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ البتہ دو تین جگہ چوک بھی ہو گئی۔ مثلاً فلم میں دو بار منٹو کی تحریریں نوری نستعلیق میں لکھی ہوئی دکھائی گئیں۔ یہ کمپیوٹر فانٹ منٹو کے مرنے کے کوئی 40 سال بعد عام ہونا شروع ہوا تھا۔ سو مجموعی طور پر فلم کی تمام ٹیم اپنی مہم جوئی اور جرات مندی پر داد کی مستحق ہے۔ وہ منٹو کا مکمل طور پر احاطہ نہیں کر سکی، لیکن انھیں کوشش کے نمبر ضرور ملنے چاہییں، جو ہال کے کھچا کھچ بھرا ہونے کی صورت میں اور فلم کے اختتام پر شائقین کی تالیوں کی شکل میں انھیں مل بھی رہے ہیں۔
(بشکریہ: بی بی سی اُردو)
Leave a Reply