گوپس قلعہ میں فرانس کی شام

Hadayat Ullah Akhtar
Print Friendly, PDF & Email

آپ میں سے بہت ساروں نے قلعہ گوپس ضرور دیکھا ہوگا۔۔ مجھے اس قلعہ کی یاد اس لئے آئی کہ پچھلے چند ہفتوں میں اس قلعہ اور اس کی مخدوش صورت حال کے بارے کچھ خبریں پڑھنے کو ملی اور حال  ہی میں  ہندراپ  غذر میں  اغوا کا واقعہ  پیش آیا  تو سوچا کہ کیوں نہ گوپس قلعہ میں فرانس کی شام  کو تلاش کیا جائے اب آپ یہ  نہ کہنا کہ بھائی فرانس کی شام اور گوپس قلعہ  کا آپس میں کیا سمبندھ۔ بس تحریر پڑھیں شائد آپ کو بھی میری طرح  گوپس قلعہ سے جُڑے ان واقعات اور ماضی  کی اس  پنہا کہانی میں کچھ دکھائی دے ۔ فرانس کا ایک اہم شہر پیرس ہے جو فرانس کا دارلحکومت بھی ہے بہت ہی حسین اور ویسے دیکھا جائے تو پیرس سے زیادہ خوبصورت گلگت بلتستان ہے۔ لیکن  بدقسمتی یہ ہوئی کہ  اسے پیرس کے روپ میں  دھارنے والے  میئسر نہ آسکے جس  باعث پیرس نمبر لے گیا ۔۔۔۔ورنہ آج پیرس کے بجائے گلگت بلتستان دنیا کا پیرس ہوتا ۔یہاں پیرس کی مثال قدرتی حُسن اور قدرتی حسن کوانفراسٹریکچر سے مزین اورچارچاند لگانے والوں کی محنت کے طور پر دی گئی ہے۔پیرس کے متعلق کہا یہ جاتا ہے کہ ہر سال چار کروڑ پچاس لاکھ افراد پیرس کی سیر کرتے ہیں اور یہاں غذر  میں  ایک گوپس قلعہ ہم سے ٹھیک ہوپا نہیں  رہا ہے تو جو دس ہزار لوگ آتے ہیں یا جن کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ بھی بہت بڑی بات ہے ۔آپ بڑے تجسس میں ہونگے کہ گوپس قلعہ میں فرانس کی شام  کیسے تلاش کی  جا سکتی ہے۔اس ے پہلے کہ گوپس میں اس کی تلاش کی جائے  کیوں نہ پہلے  تھول نگر  کی طرف چلا جائے ۔وہاں سے ہوتے ہوئے  واپس گوپس قلعہ آنے تک  بات پوری سمجھ آئیگی ۔ یہ قلعے  شلے ایسے نہیں بنتے ان کے پیچھے کہانیاں چھپی ہوتی ہیں اور ہر کہانی چیخ چیخ کر بتا رہی ہوتی ہے پر بہت کم لوگ ہی ان کہانیوں کو سمجھ پاتے ہیں۔ فرانس کی شام والی کہانی کو  سمجھنے کے لئے تھول نگر جانا تو پڑے گا ۔ وہ کیا وقت ہوگا جب ہمارے اسلاف نے اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اپنی حثیت برقرار رکھنے کے لئے اپنی بساط بھر کوشش کی ایسا ہی سماں ہے   اٹھارہ سو اکانوے کا جہاں تھول نگر سے 20 دسمبر 1891 کی ایک تحریر پڑھتے کو مل جاتی ہے “جس کی عبارت کچھ یوں ہے ۔میں تھول نگر میں ہوں آج کا دن  ہماری حقیقی کامیابی کا دن  رہا  ہم نے ٹھیک ٹھیک نلت قلعہ کو نشانہ بنایا اور اس کے جواب میں بلکل خاموشی رہی” ۔جی یہ ڈیورنڈ پولیٹکل ایجنٹ گلگت کے دست راست  انگریزآفیسر کمانڈنگ  ٹائونشاینڈ کی تحریر ہے ۔ڈائری کے اس ورق کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ٹائونشاینڈ  وہی امپیرئل ٹروپس کے آفیسر تھے جنہوں نے ہنزہ نگر لڑائی میں کلیدی کردار ادا کیا اور اس کے فوراً بعد اسے گوپس میں بطور کمانڈنٹ ٹروپس بنا کے بھیج دیا گیا ۔گوپس قلعہ کا چارج لینے کے  بعد وہ 4 مئی 93 18(اٹھارہ سو تیرانوے  )کو اپنی گرل فرینڈ کو ایک خط لکھتا ہے  اور اسے وہ بتا تا ہے کہ “یہ ایک خوفناک جگہ ہے  اور تم نے کبھی بھی اس قسم کے صحرا کو نہیں دیکھا ہوگا  اگر اپ اس کو نقشے میں تلاش کرسکتی ہیں تو یہ گلگت کے شمال میں واقع ہے اور میں جانتا ہوں کہ اپ کے لئے ایسا کرنا محال  اور مشکل ہوگا” اس سے آگے وہ   نئے تعمیر شدہ گوپس قلعہ  کی  اہمیت اور یہاں ٹروپس کی موجودگی  کی ضرورت   اور واخان  کی پٹی  کا  ذکر کرتا ہے ۔گوپس قلعے میں فرانس کو تلاش کرنے کے لئے ان دو تحریروں کا ذکر ضروری تھا  ہوا یوں  کہ مشہور جیالوجسٹ اورتحقیق دان اور برطانوی ہند سرکار کے خارجہ امور کے ایک اہم شخص لارڈ کرزن  جو بعد میں وائسرائے ہند رہے 94   18اٹھارہ سو چوراناوے میں پامیرمہم  کے لئے گلگت پہنچ  جاتے ہیں    گوپس قلعہ میں موجود انگریزآفیسر کمانڈنگ  ٹائونشاینڈ  کو  اطلاع  مل جاتی ہے تو  وہ لارڈ کرزن کی   گوپس آمد پر استقبال کی تیاری شروع کر دیتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب رشیا سلک روٹ کے ساتھ ریلوے ٹریک بچھانے  کی منصوبہ بندی کر رہا تھا یا  کرچکا تھا ۔لارڈ کرزن کے بعد بھی بہت سارے برٹش آفیسر ان علاقوں میں روس کی جاسوسی کرنے آتے رہے ان میں سے ایک نام کرنل شمبرگ کا بھی تھا ۔ذرا فرانس کی شام سے پہلے اس برٹش کرنل شمبرگ کا قصہ بھی سن لیجئے۔یہ جب بھی گلگت آتا ایک مقامی آدمی جن کا تعلق ڈومیال گلگت سے اور نام دولت شاہ تھا اس سے ضرور ملاقات کرتا تھا کیونکہ ان دونوں کی آپس میں بڑی یاری تھی ان ہی کی زبانی گلگت بلتستان پاکستان کے ساتھ رہنے کی خبر برطانیہ کے جاسوسی  ادارے کے سربراہ  کرنل شمبرگ کی تھی جو انہوں نے پاکستان بننے سے چودہ سال پہلے دولت شاہ کو دی تھی اس سے ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے آزادی حاصل کرنے کی کہانی آشکارہ ہو جاتی ہے ۔اس سے آپ یہ  بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایجنسی اور قلعے ان کے لئے کتنے اہم تھے ۔ بات ہو رہی تھی لارڈ کرزن کی تو اس کے آنے سے پہلے ٹائو نشائنڈ نے گوپس قلعہ کی اندرونی دیواروں کو بڑے ہی خوبصورت طریقے سے سجایا اور اس قلعہ کے  ماحول کو کچھ  ایسا ترتیب دیا کہ جیسے اس وقت کے فرانس میں شام منائے جانے کے لئے نہایت ہی ضروری اور لازمی سمجھے جاتے تھے  بس جی کچھ ایسا ہی انتظام ٹائو نشائنڈ نے کرزن کے آنے سے پہلے کیا تھا ۔ اور جب لارڈ  کرزن نے اس کے ساتھ یہاں قیام کیا تو انہوں نے اس کے ساتھ ایک لمبی حسین  شام اس قلعے میں گزاری ۔ اب آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ گوپس قلعہ کو فرانس جیسی شام منائے جانے کا اعزاز  کیسے حاصل ہوا  ۔ اب نہ وہ دور رہا  اور نہ ہی وہ شام اب تو ہر شام یا رات اس قلعے کی دیواروں کے پتھر گرنے کی آوازیں آتی ہیں اور ممکن ہے کہ چند سالوں بلکہ آنے والے دنوں میں اس قلعہ کا وجود ہی باقی نہ رہے  ۔  چھوڑئے اس قصے کو بس اتنا کہنا ہے کہ ایک وہ دور تھا کہ ہزاروں میل دور سے اپنے مفادات کو بچانے کے لئے انگریز اس علاقے میں بڑے ہی سرگرم  رہے ایجنسی قائم  کی ٹرانزٹ کمپ اور دشمن سے محفوظ رہنے کے لئے قلعے بنائے ۔یہ ان کی حکمت عملی کا بنیادی حصہ تھا ۔ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ۔ان علاقوں کی  اہمیت کا سب کو پتہ ہے ۔پچھلے  کچھ سالوں میں حالات نے کچھ کروٹ بدلی تھی لیکن ان حالات کو یکسر پلٹ ہی دیا گیا اور ایک بار پھر پاکستان نے اپنے پُرانے دوست امریکہ کی گود میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اسی مقصد کے لئے عمران ٹرمپ ملاقات میں عسکری قیادت بھی شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ارے میں کہاں نکل گیا مجھے تو گوپس قلعے کی بات کرنی تھی  جو بلکل مخدوش ہو چکا ہے۔جی ایک وہ وقت تھا جب برٹش حکومت  اپنی حکمت عملی کے تحت رشیا کی جا سوسی اپنے خصوصی نمائندے  بھیج کر کرواتی تھی اسی مقصد کے پیش نظر ہی  انیس سو اکتیس میں رائل ایئر فورس  نے ہوائی سفر کا آغاز کیا  تھا  ادھر ہماری یہ حالت کہ ہم  ہندارپ نالے میں ایک پولیس چوکی قائم نہیں کر سکتے اور مومنٹ  بھی لوگوں کی واویلا کے بعد شروع کر دیتے ہیں ۔یہ علاقہ ایک متنازعہ خطہ ہے  اور اس کی باونڈریز ڈیورنڈ لائن کے تحت ڈیمارکیشن  شدہ ہیں ۔اس کی سرحیں زبردستی  سیکڑی جا رہی ہیں اور ہم ایس پی زندہ باد اور مردہ باد میں لگے ہوئے ہیں ۔ہمارے سامنے نہ کوئی مشن ہے اور نہ وہ سوچ جو ہمیں آگے کی طرف لے کے جائے موجود ہی نہیں ہے ہم تو دو جمع دو میں لگے ہوئے ہیں ۔ کس کو کتنا مال کہاں سے اور کب ملے گا  دوسری بات یہ کہ یہ تاریخی باتیں اس نیت سے بھی ضبط تحریر میں لانا ضروری تھا کہ اس قلعہ کی تعمیر کی تاریخ بھی ہمیں معلوم نہیں ۔ہم ہر چیز کو اندازے سے لکھنے کے عادی ہیں یہ چیز فلاں وقت کی ہے  ۔ہم لوگ اٹکل اور تکے لگانے والوں میں سے ہیں ۔ اوپر کے تاریخی حوالہ جات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ گوپس قلعہ نہ اٹھارہ سو پانچ میں بنا اور نہ ہی اٹھارہ سو چورانوے میں یہ قعلہ اٹھارہ سو بیانوے میں  تعمیر ہوا۔اور اسے کشمیر امپیرئل ٹروپس نے بنایا ۔کیوں بنایا اور کس لئے بنایا تھا  اس کا بھی ذکر اوپر ہو چکا ہے۔  لوگ  پوچھتے ہیں کہ ماضی میں کیا رکھا ہے  اب وہ حالات نہیں رہے ہیں  جی ہاں اپ صحیح کہہ رہے ہیں اب وہ حالات نہیں رہے ہیں  اب حالات یکسر تبدیل ہوئے ہیں کیا لینا دینا ہے ماضی سے باڑ ھ میں جائیں یہ قلعے اور شلے  ۔باڑھ  میں جائیں یہ رسم و رواج ۔باڑھ میں جائیں تاریخی مقامات سب کو ہی مٹا دو جو بھی نشانیاں ہیں جو ہمیں یاد دلاتی ہیں ماضی کی تاکہ نہ رہے باس نہ بجے بانسری  کس کو  پڑی ہے  کہ وہ گوپس قلعہ کو دیکھے کس کو پڑی ہے وہ مغل منار کو دیکھے کس کو پڑی ہے وہ کارگاہ بدھا کو دیکھے کس کو پڑی ہے کہ وہ ہینزل سٹوپا کی طرف دیکھے۔ یہ تو ٹیلے ہیں فضول قسم کے  اور کس کو پڑی ہے کہ علاقائی  سرحدوں کی خلاف  ورزی کی طرف دیکھے  اس سے کیا فائدہ ملے گا۔ سیاحت معشیت سماجیات  علاقے کی ترقی کے ساتھ منسلک ہیں اور علاقے میں  موجود تاریخی اثاثے اس وقت ہی محفوظ  ہونگے جب علاقائی اور قومی سوچ  ذہنوں میں ہوگی ۔ہمارے ساتھ یہ سب  اس لئے ہو رہا ہے کہ  ہماری رگ رگ میں مفاداتی سیاست اور سوچ  کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے ۔اس حوالے سے  حال ہی میں کسی دوست کی تحریر کا ایک لفظ  یاد  آیا “ایسی سوچ پہ لعنت”  اپنے لئے تو سبھی جیتے ہیں مزہ تب ہے کہ دوسروں کے لئے جیا جائے اور اس مقصد کے لئےاپنی سوچ کو بدلنے اور اجتماعی سوچ کو اپناے کی ضرورت ہے اور جب تک ہم اجتماعی سوچ کو نہہں  اپنائینگے تاریخی ورثے تو بے جان چیزیں ہیں مخدوش اور تباہ حال تو ہو ہی جائینگے لیکن  فکر اس بات کی کر وکہ ان کی تباہ حالی کے ساتھ ہی ہماری قبریں بھی تیار ہونگی جہاں ہمیں منوں مٹی تلے دفنانے کا شاندار بندوبست ہوگا اور ہماری داستان تک بھی نہیں ہوگی داستانوں میں

Short URL: http://tinyurl.com/y6ygsurd
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *