پنجاب ایگزامینیشن کمیشن یا تعلیم مکاؤ کمیشن

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: طاہر محمود آسی
تعلیم ایک روشنی ہے اور اسے ہر حال میں پھیلنا چاہئے تعلیم کے بغیر معاشرے میں ہر طرف اندھیرا نظر آتا ہے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر ہر قوم اور ہر معاشرہ ترقی اور کامرانی کی منزلوں کی طرف رواں دواں ہوتا ہے کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے تعلیم یافتہ افراد کی قابلیت اور اہلیت پر ہوتا ہے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ افراد کے ہاتھوں میں ملک اور سلطنت کی باگ ڈور تھمائی جاتی ہے ۔اگر ان کی تعلیم و تربیت میں کمزوریاں ہونگی تو کاروبار سلطنت اچھے طریقے سے نہیں چل پائے گا ۔ شرمندگی کے بعد پھر شرمندگی اٹھانا پڑے گی ۔گذشتہ کئی سالوں سے ہمارا نظام تعلیم تباہی اور بربادی کی راہ پر گامزن ہے ۔تعلیمی پالیسیاں نئے نئے انداز کے ساتھ آ رہی ہیں اور جا رہی ہیں مگر تعلیم بد حالی اور ناکامیوں کا شکار ہوتی جا رہی ہے ۔تعلیمی پالیسیاں بنانے والے اکثر معاشرے کے حالات و واقعات ،خدوخال اور ضرورتوں سے نا واقف ہوتے ہیں ائر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر تعلیمی پالیسیاں تشکیل دینے والے کیا جانیں کہ غربت کے ہاتھوں لا چار شخص کس طرح اپنے بچوں کو تعلیم دلوائے گا ۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ پالیسیوں کے خالق وہ لوگ ہیں جن کو غریبوں کی حالت زار اور استاد کی قدروقیمت کا اندازہ بہت کم ہوتا ہے ۔اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے متعلق مشہور ہے کہ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے ہیں ۔یہ بالکل اسطرح ہے جیسے ایک عربی پڑھانے والے استاد کو ریاضی پڑھانے کا کہہ دیا جائے ۔اندھا کیا جانے بسنت کی بہار ۔فعل حال غریبوں سے ان کی نسل نو کو تباہ کر کے نہ جانے کس امر کا بدلہ لیا جا رہا ہے ۔دوہرے تہرے معیار تعلیم اور نصاب تعلیم نے ہمارے بچوں کا کچھ اسطرح بیڑا غرق کیا ہے کہ ہم نام کے پڑھے لکھے رہ گئے ہیں ۔ مولانا روم کہتے ہیں کہ ایک ہزار اہل دانش کے قتل ہونے کا اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا کہ ایک احمق کو اختیار دے کر ہوتا ہے ۔ہر حکومت نے نسل نو کی اس آبیاری میں اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق حصہ ڈالا ہے ۔ تعلیمی پالیسیوں کے فنکاروں نے بچوں پر کتابوں کا اتنا بوجھ ڈالا ہوا ہے کہ بیچارے ننھے بچے کئی دفعہ سڑکوں پر گرے ہوئے دیکھے ہیں ۔ رہی سہی کسر ہمارے نظام امتحان نے نکال دی ہے ۔پنجم اور ہشتم کی سطح پر ہونے والے امتحانات خصوصی طور پر ہمارے بچوں کو قوت تحریر اور جذبہ تعمیر سے دور کر رہے ہیں کنیڈا سے آنے والی امداد پنجاب ایگزامینیشن کمیشن کے ذریعے ہر سال مختلف طریقں سے اور مختلف عوامل کے ذریعے ٹھکانے لگائی جا رہی ہے ۔طالب علموں میں نقل کا ایک مربوط اور مضبوط سلسلہ پروان چڑھایا جا رہا ہے طالبعلم کی نظر سے مقام معلمیت گرتا جا رہا ہے ۔ نا جانے ہم اپنی نسل نو کو کیا پیغام دے رہے ہیں نیچے سے لے کر اوپر تک ہر کوئی دانستہ طور پر اس گناہ میں شامل ہو کر بھی خود کو بیگناہ سمجھ رہا ہے ۔ امتحانات کا موسم آتے ہی ماہرین تعلیم کی دوڑین لگنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ سکولوں کو انرولمنٹ کے اہداف دیئے جاتے ہیں سربراہان ادارہ ان اہداف کو پورا کرنے کے لئے اکثر و بیشتر ایسی انرولمنٹ کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔سرکاری سکولوں میں مختلف طریقوں سے کامیابی حاصل کرنے کے لئے کئی کئی جتن کئے جاتے ہیں پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں داخلہ اور امتحان کے نام پر والدین کی جیبوں کو نہائت مؤثر طریقے سے ہلکا کیا جاتا ہے امتحانی عملہ کی خاطر تواضع کے لئے خفیہ انداز میں مال جمع کیا جاتا ہے اور عمل میں سربراہ ادارہ کا مکمل ہاتھ ہوتا ہے ۔مگر متعلقہ کلاس انچارج سے آرڈر بک پر کچھ اس قسم کی تحریر پر دستخط کروا لئے جاتے ہیں جیسے سربراہ ادارہ کو فنڈنگ کے متعلق کسی قسم کا کوئی علم نہ ہے ۔جس سر ٹیفکیٹ اور ڈگری کو نقل کے ذریعے حاصل کیا جائے گا وہ آئندہ برسوں میں کیا گل کھلائے گی گذشتہ کئی سالوں کے تجربے نے یہ بات ثابت کی ہے کہ امتحانی عملہ صرف کھانے پینے اور ریلیکسیشن کیلئے آتا ہے ۔اگر کوئی سربراہ ادارہ یا متعلقہ استاد امتحانی عملے کو خوش کرنے میں ناکام رہے تو اسکا نتیجہ نہائت برا اور بھیانک نکلتا ہے ۔یہ بات مدنظر رہنی چاہئے کہ اس بہتی گنگا میں چاہے کوئی حافظ ہو یا مفتی اسے ہاتھ دھونے ہی پڑتے ہیں ۔ کیا بڑے افسروں کو چھوٹے افسروں کے متعلق کچھ پتہ نہیں ہے ؟کیا اعلیٰ عہدے داروں کو لا علم سمجھا جائے ؟خود ہی سمجھو ہم کہیں گے تو شکائت ہو گی۔اس ناگفتہ بہ دور میں آج کے طالبعلم کے پاس علم نام کی کوئی چیز نہیں ہے ماڈل پیپرز نے استاد کو محنت سے کچھ عاری سا کر دیا ہے صرف رٹنے رٹانے پر توجہ مرکوز ہو کر رہ گئی ہے ۔پرچہ بنانے والے ہر مرتبہ کچھ اس انداز سے سوالنامہ تیار کرتے ہیں کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں ۔ طالبعلم تو دور کی بات استاد بھی اسے حل کرنے سے قاصر ہوتا ہے ۔ بچوں کے اس امتحان کو شائد سی ایس ایس لیول کا امتحان سمجھا جاتا ہے ۔ ایسے میں بچوں کا کم اور استاد کا زیادہ کچومر نکلتا ہے ۔ اس صورت حال میں عزت بنانے اور بچانے کے لئے موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں امتحانی سنٹروں کی طرف دوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں متعلقین کی سانسیں پھولی ہوئی اور رنگت اڑی ہوئی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔ پرائیوٹ تعلیمی ادارے پوزیشنیں حاصل کرنے کے لئے مال کے ذریعے خیال کے عمل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں ۔کمیشن کے اندر بیٹھے ہوئے کمیشن کمانے پر لگ جاتے ہیں ۔ بہتر نتائج کے لئے سرکاری سکولوں سے بھی کمیشن کی مدد کرنے کے لئے وفاداران علم کلرکوں تک پہنچ جاتے ہیں ۔جن سے امتحانی سنٹر میں کچھ نہیں ہو پاتا وہ کسی نا کسی طریقے سے پتہ لگا کر ماکنگ عملے سے تعاون کی امید لگا کر اس کار خیر میں حصہ ڈالتے ہیں اور پھر بڑے فخریہ انداز میں اپنی امتحانی کاوشوں کا محفلوں میں ذکر کرتے ہیں شرمندگی ان کے قریب سے بھی نہیں گزرتی ہے کہیں تو کیا کہیں ، کیا کریں کیا نہ کریں ،اف اللہ ۔۔۔۔یہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے یا ہم اپنے ساتھ کیا کر رہے ہیں ؟نو خیز کونپلوں کو شائید اپنے ہی ہاتھوں مسل رہے ہیں ،گلاب جیسے لوگوں کو خوشبو سے محروم کر رہے ہیں ،کیا ہم پیغمبرانہ پیشے کی توہیں اور بے حرمتی نہیں کر رہے ؟
منافقوں کی بستی میں ڈیرے ہیں 
تیرے منہ پہ تیرے ہیں 
میرے منہ پہ میرے ہیں 
سنو ذرا سنو ! اے چارہ گرو یہ سب کیا ہے ؟شائید ہم اپنی ہی قسمت سے کھیل رہے ہیں ۔ ہم وقتی اور ذاتی مفاد کے لئے نسل نو کے سامنے اپنی ہی بے حرمتی کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ کیا کوئی باپ اپنے ہاتھوں سے قتل اولاد کا خواہاں ہے ؟اگر نہیں ہے تو ہم کیوں ہیں ؟آج کے استاد کو بدلنا ہو گا ، نظام امتحان کو اسلامی طور طریقوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا ۔(PEC)کو بھی اپنی عزت کا خیال ہونا چاہئے ۔وزارتوں اور بڑی عمارتوں کے مکینوں کو بھی کچھ سوچنا پڑے گا ناجائز سختی اور زبردستی روا رکھنے سے میدان علم میں کہیں تباہی نہ آجائے ۔ خدارا اس وطن کے نظام کو یورپیئن ملکوں کے نظام کی طرز پر استوار کرنے کی کوشش نہ کرو ۔اسلامی فلاحی مملکت میں اسلامی طرز امتحان رائج کرو ۔ایسا نظام امتحان اور تعلیمی نصاب لایا جائے کہ جس سے ہماری نئی نسل کو پڑھنے لکھنے کا پتہ چل جائے ۔موجودہ نظام امتحان سے ہماری نرسری تباہ ہو رہی ہے کوئی مالی اپنی نرسری کو تباہ نہیں ہونے دیتا صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے ،رات گئی بات گئی کے باب کو بند کر کے بہتری کے لئے کاوشوں کو تیز کیا جائے ۔حکومت وقت سے بھی امید ہے کہ وہ حالات کے مطابق مربوط نظام کو لاگو کرے کیونکہ ہم نے ترقی یافتہ قوموں میں شامل ہونا ہے یہ تب ہی ممکن ہے جب ہر کوئی اپنی ذمہ داری کو نیک نیتی سے پورا کرے گا ۔
انداز بیاں گرچہ کچھ شوخ نہیں ہے 
شائید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات

Short URL: http://tinyurl.com/ybwg4m24
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *