ذرا سوچو تو؟

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: طاہر محمود آسی
ہم سب پاکستانی ہیں ہمارے آباو اجداد نے بے شمار قربانیاں دیکر اسے حاصل کیا ہے آغاز تخلیق پاکستان سے لے کر حصول پاکستان تک ہمارے راہنماؤں کا انگریز سامراج اور ہندو سامراج سے واسطہ رہا ہے سیاستدان مدبرانہ سوچ اور فہم و فراست امین تھے نہائت دور اندیشی اور مجاہدانہ فکر ان کے اذہان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔صاف و شفاف سیاست کے بل بوتے پر آزادی کی بہت بڑی منزل کو حاصل کیا عوام کے دلوں میں ایسے اترے ہوئے تھے کہ جیسے کوئی آسمانی اوتار ہوں ۔سرسید ؒ ،اقبالؒ اور قائد اعظم ؒ ایسے نفیس سیاستدان تھے جن کے منہ کی نکلی ہوئی باتیں پھولوں جیسی خوشبو بکھیرتی تھیں قائدین کی بے حرمتی ناقابل برداشت عوامی فعل تھا ہر کوئی عزت و تکریم سے اپنی نگاہ و دل میں بٹھاتا تھا سیاست کے ایوانوں میں انگریز سامراجی عقل و فہم ہمارے پاکیزہ ،ایمانداراور دیانتدار قیادت کے سامنے ہر مسئلہ پر لٹی پٹی اور بکھری بکھری نظر آتی تھی ہمارے سب راہنماء ہندوٗوں پر بھاری تھے صرف اور صرف وجہ یہی تھی کہ انکے قول و فعل میں تضاد نہ تھا ،بکاؤ مال نہ تھے اعلٰی علمی و ادبی سوچ کے مالک تھے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی محبت انکا طرۂ امتیاز تھا ۔ خوف و خطر کی کوئی وباء انکو نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی عدل و انصاف اور احترام آدمیت کے ساتھ ساتھ قابلیت و علم کا احترام بھی انکا شیوۂ زندگی تھا ۔لالچ اور بدعنوانی کی ہوا بھی انکے قریب سے نہ گزر سکتی تھی ۔مگر ۔۔۔مگر آج یہ کیا ہو گیا ہے ؟ کیا جس طرح سوچا گیا تھا آج کا پاکستان ویسا ہی ہے ؟قائد کی سوچ کا عکاس پاکستان ایسا ہی تھا جیسا اب ہے ؟ابتدائی دنوں میں قائد کی رحلت سے تعمیر پاکستان کی منزل کو خاصا گہرا جھٹکا لگا ۔وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قتل ملک و ملت پر ایسے منافرت کے گہرے نقوش چھوڑ گیا کہ آج تک داغ دھلا نہیں ہے ،سراغ ملا نہیں ہے ۔ ہر بار عوام کی تقدیر بدلنے کے دعوے اور سبز باغ دکھا کر سیاست کے داؤ پیچ جاننے والے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر ملک و قوم کی تقدیر سے کھیلنا شروع کر دیتے ہیں متعدد حکومتوں کو بدعنوانیوں اور اقرباء پروری کی بدولت گھر بھیجا گیا ۔وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو جیسا عوامی رہنما پھانسی چڑھا دیا گیا ،بینظیر بھٹو جیسی ہر دلعزیز شخصیت کو مروا دیا گیا سیاست کے ایوانوں کو معتبر اور باوفا وطن پرست شخصیات سے خالی کروا کر اب اک نیا کھیل کھیلا جا رہا ہے ماضی کے حکمرانوں نے نئی آنے والی حکومتوں کو کبھی بھی اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا ہے کیڑے نکالنا تو موجودہ حکومتوں کا شیوہ بن چکا ہے ۔کریں تو کیا کریں ؟کہاں جائیں ؟کیا کہیں ؟کسے کہیں ؟اچھی اور صاف ستھری قیادت کو کہاں سے لائیں ؟شائید یہ ہمارے بعد ہی ممکن ہوگا ۔۔۔مگر کوشش تو جاری رہنی چاہیئے ۔آج کی گالم گلوچ کی سیاست معزز ایوانوں کو زہر آلود کر رہی ہے سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہر وہ بات اور ہر وہ کام کر رہے ہیں جس کی چھاپ ہمار ی آئندہ آنے والی نسلوں کے اذہان کو تباہ و برباد کر رہی ہے سیاسی لوگ ایوانوں میں جانے سے پہلے کیا ہوتے ہیں اور ایوانوں میں پہنچنے کے بعد کیا کچھ نہیں ہو جاتے اگر کوئی پوچھ لے تو کہتے ہیں کہ آپ کون ہوتے ہیں ہمارے سے ہمارے متعلق پوچھنے والے ۔ یہاں تک کہ عدالتوں کا مذاق اڑانے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ۔کیا سیدنا عمر فاروقؓ کو لباس کے متعلق صحابہؓ نے نہیں پوچھا تھا ؟کیا جواب نہیں دیا گیا تھا ؟آج کے عوامی نمائندے خود کو احتساب کے لئے پیش کیوں نہیں کرتے ہیں ؟عدل و انصاف اور میرٹ کو پس پشت کیوں ڈال رہے ہیں ؟کیا یہ محسن انسانیت ﷺ کے پیروکاروں کا عمل ہے ؟کیا یہ خلفائے راشدین کا عمل ہے ؟کیا یہ بزرگان دین کا عمل ہے ؟کیا قائد اعظم نے ایسے پاکستان کے لئے جد وجہد کی تھی ؟عقل و فہم کہتی ہے کہ نہیں نہیں ۔عوامی مسائل کو حل کرنے والا ایوان خود مسائل کا گڑھ بن چکا ہے قانون کے تخلیق کار خود قانون اور تقدس کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں ۔قانون بنانے والے ایوانوں میں خود ایسے دوڑ رہے ہیں جیسے کبڈی کا کوئی بین الاقوامی مقابلہ لڑ رہے ہوں ۔الفاظ کو ہذف کر دو ۔۔۔۔اجلاس کل تک کے لئے ملتوی کیا جاتا ہے ۔ یہ کیا ہے ؟باتوں باتوں میں اشاروں اشاروں میں بے حرمتی کرنا معمول بن چکا ہے ایسی ننگی اور گندی زبان استعمال کی جاتی ہے کہ ہم گھروں میں بیٹھے اپنی زبانوں کو دانتوں تلے دبا لیتے ہیں روشن پاکستان کے خواب دکھانے والے خود اندھیروں میں جا گھسے ہیں الیکشن میں منتخب ہونے والے اور ہارنے والے دونوں بے یقین ہوتے ہیں ہارنے والے ہارتے نہیں اور جیتنے والے جیتتے نہیں ہیں داستان حسرت کس کو سنائی جائے کیا یہ کہا جائے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ؟کب رکیں گی یہ بیان بازیاں ؟کب رکیں گی یہ غلط اندازیاں ؟ہمارے مسائل کب حل ہوں گے ؟ ہماری آئندہ نسلیں کب تک مقروض رہیں گی ؟ہمارے بچے کب تک علم و ہنر سے محروم رہیں گے ؟مملکت خداداد میں کب تک لوگ فکر معاش میں جیتے جی مرتے رہیں گے ؟فکر سائباں کب تک غریبوں کے دلوں کو جلاتی رہے گی ؟کب تک ذہنی طور پر محکوم رہیں ؟ آخر کب تک ؟؟؟؟جوتے شو کیسوں میں اور کتابیں فٹ پاتھوں پر کب تک ؟مجھ سے تو یہ منظر اب دیکھا نہیں جاتا ۔
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے 
ذکرو فکر میں میں کچھ آگے ہی نہ نکل جاؤں ۔ جن کو مسیحائی کا درس دے کر بھیجا گیا تھا جو سر بازار کہتے تھے تمہارے ہیں ہمارا آج اور کل تمہارے نام ہے کہاں ہیں وہ اور کیا کر رہے ہیں ؟ذرا سوچو تو ؟؟؟؟قائد کی روح بیزار و بیقرار تو نہیں کر رہے ہو ؟ اقبال کے افکار تہہ پا روند تو نہیں رہے ہو ؟چشم بددور ۔۔۔نسل نو کی امیدوں پر کہیں پانی پھر نہ جائے ۔ ہم اپنے اداروں کو مضبوط اور عدل و انصاف کے پیکر کے طور پر دیکھنے کے متمنی ہیں ہم قانون کی بالا دستی کے ساتھ وطن عزیز کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں وطن عزیز کا ہر باسی فکر معاش سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں چار سو سبز پاسپورٹ کی عزت و تکریم چاہتے ہیں یہ تب ہوگا جب ہم سب اپنے طور طریقے بدلیں گے ذرا سوچو تو ! 
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے 
وہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو 

Short URL: http://tinyurl.com/y7bnjmzn
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *