پاکستانی معشیت

Sadia Malik
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: سعدیہ ملک، میرپور
کسی بھی ملک کی معشیت اس کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔معشیت میں ترقی کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔معاشی استحکام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے۔کہ اس کی پیداواری صلاحیت کیا ہے؟اس میں سرمایہ کاری کے کیا امکانات ہیں؟اور اس ملک میں کیا سرمایہ کاری ہو رہی ہے؟پاکستانی معشیت دنیا کی چھبیسویں سب سے بڑی بلحاظ مساوی قوت خرید اور بلحاظ خام ملکی پیداوار بیالیسویں سب سے بڑی معشیت ہے۔پاکستان 1947 میں غریب ملک تھا مگر اس کی معاشی حالت دنیا کے بیشتر ممالک سے بہتر تھی.بھارت چین اور دنیا کے بیشتر ممالک سے بہتر معاشیات والے پاکستان کے معاشی منصوبے دنیا کے کئی ممالک اپناتے تھے ابتدائی بجٹوں نے بہترین نتائج پیش کئے۔سیاسی قیادت مثالی اور دیانت دار تھی۔پہلی وفاقی کابینہ مثالی تھی۔گزشتہ ستر سالوں سے سمجھدار اور تعلیم یافتہ قیادت کے فقدان کی وجہ سے 1947کے بعد سے لے کر آجتک پاکستانی معشیت پر نظر ڈالیں تو سوائے مایوسی اور ارباب اختیار کی بے حسی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ گزشتہ ستر سالوں سے اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے اور سنجیدگی سے معاشی منصوبہ جات کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے کچھ فوڈ پروڈکٹس اور موبائل فونز کے علاوہ پاکستانی صنعتکاری فروغ نہیں پا سکی۔ بیرونی ممالک سے امپورٹڈ اشیا پر وسیع زر مبادلہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ چینی صنعتکار پاکستان میں ہر فیلڈ کی اچھی اشیا بنا کر سستے داموں پر فروخت کر رہے ہیں۔چینی اور بیرونی صنعتکار پاکستان میں صنعتکاری کے بعد جتنا سرمایہ بھی کما رہے ہیں سال کے آخر میں وہ اپنے ملک کو بھیج دیتے ہیں اسطرح کے معاشی نظام کے نتیجے میں ملکی معشیت روز بروز کمزور ملکی حزانہ خالی ہو رہا ہے۔ملکی وسائل کی کمی کی وجہ سے ملک کو چلانے کے لئے بیرونی ممالک سے قرضے لئے جاتے ہیں۔سود پر قرضوں کا حصول ملکی معشیت کو مزید کھوکھلا کر رہا ہے۔ اور اس مد میں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ ہم قرض فراہم کرنے والے لوگوں کے ذہنی غلام بن جاتے ہیں اور ان کی پالیسیوں کا نفاذ اپنے ملک میں کرنے لگتے ہیں۔چاہتے ہوئے بھی اپنے منصوبہ جات پر عملدرآمد نہیں کر سکتے کیوں کہ ان ورلڈ پاورز کو ناراض کر کے ہم قرضہ بمع سود کی واپسی جیسا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔اور کفر کی مسلم دشمنی اور گٹھ جوڑ پروپیگنڈہ کا منہ توڑ جواب نہیں دے سکتے۔چاہے سوال ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر آ جائے۔گستاخانہ خاکوں یا فلموں کا ہو یا گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آسیہ مسیح کی سزا معافی اور بیرون ملک واپسی کا ہو۔ہم تو بھکاری ملک کے ذہنی غلام ہیں ہم جن ممالک کے تلوے چاٹتے ہیں ان کے گریباں پر ہاتھ کیوں ڈالیں گے۔اور جماعت اسلامی مسئلہ کشمیر کی حمایتی اور (اس ضمن میں میں یہ بات کہنا چاہوں گی 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر جماعت اسلامی کی کاوشوں کی وجہ سے آج دنیا بھر میں کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کے لئے منایا جاتا ہے)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروکار جماعت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔صرف بیرونی ترقی یافتہ ممالک سپر پاورز کے مسلم دشمن پروپیگنڈے پر مبنی الزامات کی بوچھاڑ اور نفرت کی وجہ سے۔تو ملکی معشیت کی کمزوری وہ واحد لا علاج مرض ہے جو پاکستان کو لاحق ہے۔چونکہ پاکستان بہترین موسموں اور دریا آب و ہوا سمندر تیل معدنیات بندرگاہوں افرادی قوت کی وجہ سے صنعتکاری کے لئے بہترین ملک ہے اس لئے عالمی برادری کی بد نظر ہمیشہ اس پر رہی ہے۔لیکن ہمارے عالمی اداروں کے غلام ارباب اقتداراپنی مصلحتوں اور منافقتوں کی وجہ سے اس طرف توجہ نہیں دے رہے اور صرف نعروں دعوؤں کھوکھلے وعدوں میں الجھا کر ہماری سادہ لوح اور معصوم عوام کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔جھوٹے اعدادوشمار پیش کر دیئے جاتے ہیں اور پھر سے کشکول اٹھا کر قرضوں کے حصول کے لئے کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ اگر ترقی یافتہ ممالک کی ذہنی غلامی سے ہم نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ عاشق رسولوں کی آواز دبانے کی بجائے ان کی ڈھال بننا چاہتے ہیں تو خدارا اپنی معشیت پر توجہ دیں۔آیندہ برسوں میں زر مبادلہ کے ذخائر کی کیسے توسیع کی جائے؟اندرون ملک تیار کردہ پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈی میں کیسے لے کر جایا جائے؟لیبر فورس کو باعزت روزگار کے مواقع کیسے فراہم کیے جائیں؟سب سے اہم اور ناقابل شکست ہتھیار ملکی نصاب ہے۔اس میں اس طرح ترمیم کی جائے کہ درکار افرادی قوت پیدا کی جائے؟بیرونی ممالک کے نصاب پر مکمل طور پر پابندی ہونی چاہیے کیونکہ غیر ملکی نصاب غیر ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے۔پاکستانی نظام تعلیم پاکستانی معاشی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جانا چاہیے۔آخر میں میں یہ کہوں گی 
بقول اقبال 
ستارے جس کی گرد راہ ہیں وہ کارواں تو ہے
کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسبان تو ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/y5zbg6px
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *