میرا گھر

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: رخسانہ افضل
تو آگ میں اے عورت زندہ بھی جلی برسوں سانچے میں ہر اک غم کے چپ چاپ ڈھلی برسوں شادی سے پہلے جب بھی میں نے اماں سے کوئی فرمائش کرنی تو اماں نے یہی کہنا۔ جو بھی کرنا اپنے میاں کے گھر جا کے کرنا۔ میں نے کہنا کہ کیا یہ میرا گھر نہیں اماں۔ تو اماں نے جواب میں گلے لگا کر مجھے پیار سے سمجھانا۔ ناں شہزادی یہ بھی تیرا ہی گھر ہے۔ مگر بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں ناں۔ تیرا اصل گھر تو وہی ہو گا ناں۔ تیرے میاں کا گھر۔ جسے تو بنائے گی سجائے گی۔ سنوارے گی۔ اور میں اماں کی باتیں سن کے سنہرے روپہلے سپنے سنجونے لگتی۔ آخر ایک دن میرے نصیب کا لکھا بر بھی آ گیا مجھے لینے کے لئے۔ اماں کی ڈھیروں نصیحتیں اور سیکھیں لئے چلی آئی اپنے پیا کے سنگ اپنا گھر بنانے اور سجانے۔ میرے میاں کا نام وقاص تھا بہت اچھے تھے۔ بہت خیال رکھتے تھے میرا۔ وہ صبح کام پہ جاتے شام گئے آتے۔ میں جی جان سے گھر کو سنبھالتی، سنوارتی، سجاتی۔ کبھی ڈرائنگ روم کے کشن بناتی۔ کبھی لان کے پودے سیٹ کرتی۔ کبھی کچن میں بیلیں لگاتی۔ کبھی ٹی وی لاونج میں سینٹر پیس ڈالتی۔ کبھی کچھ، کبھی کچھ۔ شام کو وقاص آتے۔۔ میں ان کو خوشی خوشی سب بتاتی۔ کہ آج میں نے یہ کیا آج یہ سیٹنگ کی۔ وہ بھی مسکراتے سب سن کے۔ اگر ان کا موڈ اچھا ہوتا تو۔ اور اگر موڈ خراب ہوتا تو پھر وہ ان سب کو فضولیات کہتے۔ یہ بات جب بھی اماں کو بتاتی۔ اماں کہتیں کوئی بات نہیں۔ مرد ذات ہے اس کے باہر بڑے بکھیڑے ہوتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں سے دل میلا نہ کرنا کبھی بھی۔ پھرمیں بھی دل دھو لیتی اماں کی باتوں سے۔ خیر ان ہی روزوشب میں اللہ نے مجھ پہ کرم کیا اور یکے بعد دیگرے ایک بیٹی نور اور ایک بیٹے سیف الرحمن سے نواز دیا دو تین دن سے میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ اس دن وقاص کسی کام سے گھر آئے۔ نجانے کس بات پہ موڈ خراب تھا۔ مجھ سے کہنے لگے۔ بچے کہاں ہیں۔ میں نے کہا کہ اس ٹائم تو بچے اسکول ہوتے ہیں پھر کہنے لگے یہ گھر کیوں بکھرا ہوا ہے میں نے کہا کہ ابھی بچے اسکول گئے ہیں۔ میری طبیعت بھی ٹھیک نہیں۔ بس ابھی سب سمیٹ لیتی ہوں۔ بس چلانا شروع ہو گئے وقاص۔ کیسی عورت ہو تم۔ نہ گھرکو ڈھنگ سے سنبھالتی ہو اور نہ بچوں کی ہوش ہے سارا دن پھوہڑ عورتوں کی طرح گھر بکھرا رہتا ہے۔ میرے گھر میں یہ سب نہیں چلے گا۔ اگر گھر نہیں سنبھال سکتی تو اپنے باپ کے گھر چلی جاؤ میں سر جھکائے اپنے عیب سنتی رہی اور بے آواز آنسو بہتے رہے۔ اماں نے تو کہا تھا کہ میاں کا گھر تمہارا اپنا گھر ہو گا مگر گھرتو یہ بھی میرا نہیں؟ یعنی اگر میں کام کر سکتی ہوں تو میاں کے گھر رہوں اور اگر میری طبیعت خراب ہے تو باپ کے گھر چلی جاؤں کیااپنے گھر ایسے ہوتے ہیں اماں؟ یہ بات تو مجھے اماں نے بھی نہیں بتائی تھی! گھر میں رہتے ہوئے غیروں کی طرح ہوتی ہیں لڑکیاں دھان کے پودوں کی طرح ہوتی ہیں!

Short URL: http://tinyurl.com/y64hydy7
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *