موت۔۔۔۔ شاہد شکیل

Shahid Shakil
Print Friendly, PDF & Email

انسان جب بوڑھا ، نَحیف ، بیمار اور لَاغر ہو کر بِستر سے لگ جاتا ہے تو خُدا سے یہ ہی دُعا مانگتا ہے کہ اے اللہ اب مجھ میں زِندہ رہنے کی سَکت نہیں مجھے اپنے پاس بُلا لے لیکن جب تک اوپر سے اُس کا بُلاوہ نہیں آتا وہ تڑپتا ، سسکتا اور ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے ۔ ” کیوں انسان کی روح بغیر تکلیف کہ نہیں نکلتی ” ؟

یہی اِنسان جوانی میں زندہ رہنے کی تَگ و دو میں پِیروں ، فَقیروں ، دَرگاہوں ، مَندروں ، حَکیموں اور ڈوکٹرز کے تَلوے چاٹتا ہے بے تحاشا رقم خرچ کرتا ہے کہ کِسی بھی قیمت پر کوئی اس کی جان بچائے لیکن زِندگی کے آخری لَمحات میں موت کی دُعا مانگتا ہے ، انسان کتنا ہی بَہادر کیوں نہ ہو تکلیف برداشت نہیں کر سکتا ۔

حَالیہ رِپورٹ کے مُطابق دو ہزار تیرہ میں ایک سو پچپن شدید بیمار جَرمن مریضوں نے اپنی موت کو آسان بنانے کے لئے ڈوکٹرز اور ہو سپیٹل کے عملہ کی مدد سے دُنیا چھوڑی  بدیگر اِلفاظ اپنی مرضی اور خوشی سے دنیا کو خیر باد کہا اور موت کو گَلے لگایا ۔ سابق ڈِ پٹی ہیڈ ٹیچر پیٹر پُو پے (Peter Puppe) نے گزشتہ دنوں جرمن ٹی وی چینل اے آر ڈی پر یہ اِنکشاف کیا کہ وہ ہر سال چار یا پانچ سَنگین بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو مَرنے میں مدد کرتا ہے اس نے بتایا کہ یہ کام وہ دو ہزار پانچ سے بخوبی انجام دے رہا ہے ، کاک ٹیل میں مخصوص دوا مِلا کر مریض کو پِلا دیتا ہے کیوں کہ جب مُجھے مریض کی طَرف سے اِشارہ موصول ہوتا ہے کہ اَب بَس میں اور زندہ نہیں رہنا چاہتا کیوں کہ مَزید تکلیف بَرداشت نہیں کر سکتا اور ایڑیاں رَگڑ رَگڑ کر مرنا نہیں چاہتا مجھے مار دو تو مجبوراً مجھے اُ س کی بات ماننی پڑتی ہے تاکہ وہ تکلیف سے نِجات حاصل کرے اور یہ دنیا چھوڑ دے ۔

اِن حالات میں کِسی انسان کو مرنے میں مدد کرنے کے عمل کو میں قانونی سمجھتا ہوں ، یہ بات میونخ کے طِبی قانون دان وولف گینگ ((Wolfgang نے ایک سوال کے جواب میں کہی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پِیٹر پُوپے اگر کسی قَریب المرگ مریض کو مرنے میں مدد کرتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ مریض کی خواہش پر عمل کرتا ہے اور یہ کوئی غیر قانونی کام نہیں ہے ۔

وفاقی وزیرِ داخلہ مسٹر ہَرمن گروہے Hermann Groehe)) کا کہنا ہے کہ اس فورم میں موت کی مدد کا طریقہ غلط ، ممنوع اور سزا پر مبنی ہے ، مُمتاز سیاسی پارٹی سی ڈی یو کے نمائندہ گان ، سیاسی پارٹی ایس پی ڈی کے سابق چئیر مین مسٹر فَرانز مُنتے فیرنگ (Franz Muentefering) اور گرین پارٹی کے سیاست دانوں نے اس بے رحمانہ قتل کے قانون کو ریجیکٹ کیا اور فوری ختم کرنے کو کہا

مطالعہ۔” لاتعداد مریضوں کی خود کشی کے بارے میں سوچ ” ۔ ڈوکٹرز کی مدد سے شدید بیمار مریضوں کی خود کشی کی سوچ پر ایک حالیہ رپورٹ میونخ یونیورسٹی میں تیار کی گئی ہے جس میں بتایا گیا کہ پٹھوں کے فالِج میں مبتلا چھیاسٹھ فی صَد مریض صِرف تکلیف محسوس کرتے ہیں لیکن بیالیس فی صَد واقعتاً فالج میں مبتلا ہیں پچاس فی صد ڈوکٹرز سے اِلتجا کرتے ہیں کہ اُنہیں خود کُشی کرنے میں مدد کی جائے ۔ کچھ مریضوں سے خُود کُشی کے بارے میں اِنٹر ویوز بھی لئے گئے لیکن ان کا کہنا تھا ہم ایسی باتیں ڈوکٹرز سے کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ۔ ان تمام باتوں سے کوئی نتیجہ اَخذ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ ڈوکٹرز اور مریض کے تعلقات کا مُعاملہ ہے ، مکمل طور پر شدید بیمار مریضوں کی خود کُشی کی امداد کو بند کرنے کے حق میں نہیں ہوں، یہ بات میونخ کے ایک ڈوکٹر نے کہی ان کا کہنا ہے کہ اِس سَنجیدہ معاملے کو واضح ضوابط اور کنٹرول کے تحت حل کیا جانا چاہئے ، ڈوکٹرز کی مدد سے خود کُشی کے اس عَمل کی مُمانعت سے شدید بیمار مریض کے ساتھ اِنصاف نہیں ہو گا ، ہمیں مریضوں کے حُقوق اور سیفٹی کے عِلاوہ ان کے اندر خوف اور خُود مُختاری کو کسی قیمت پر ٹھیس نہیں پہنچانی چاہئے ۔

مسٹر مائیکل ریڈر ، سابقہ اِنٹر نِسٹ ، انتہائی نگہداشت کے ڈوکٹر اور طویل عَرصہ برلِن کے شہری ہوسپیٹل میں چیف فِزیشن رہے فی الحال برلِن ٹیمپل ہوف میں واقع ایک فاؤنڈیشن کے سَر براہ ہیں ۔

اُن کا کہنا ہے کہ شدید بیمار جو خود اپنی زندگی سے چھٹکارا حاصِل کرنا چاہتے ہیں ان مریضوں کی مَدد کرنا ضروری ہے تاہَم بنیادی طور پر ان کی دیکھ بھال اَشد ضروری ہے آخری حَربہ ڈوکٹر کی مدد سے خود کُشی ہو سکتا ہے ، انسانی مَصائب اور خاص طور پر مایوس کُن بیماری یا شدید درد کی حالت میں مریض کے خود کُشی کے ارادے کو ختم یا رَد نہیں کیا جا سکتا ان حالات میں مریض کی ذہنی حالت کو مدِ نظر رکھنا بھی لازمی ہے ۔ طویل عرصہ انٹر نِسٹ رہنے والے ڈوکٹر ریڈر کا کہنا ہے کہ اِن حالات میں مریض کا کہا ماننا ہی بہتر ہے کیوں کہ جب میڈیسن اثر نہیں کر رہی اور اُس کا علاج ہی نہیں ہو رہا تو مریض کا حق ہے کہ وہ اپنی موت کا وقت تعین کرے ، کسی سر کاری اِدارے ، گرجا گھر ، ہوسپیٹل ، تنظیم یا ڈوکٹر کا حق نہیں ہے کہ مریض کو ان کی مرضی سے موت آئے یا جیسے وہ چاہیں مریض ویسے مرے ، ان حالات میں ڈوکٹرز اور مریض کی باہمی رضا مَندی سے مریض کے رِشتہ داروں کو آگاہ کرنا لازمی ہے اور سب کے مُشترکہ فیصلے سے مریض کو اپنی مرضی سے مرنے دیا جائے ۔

گُزشتہ دہائیوں میں میڈیسن نے بہت ترقی کی اور بیماریوں کی روک تھام ہوئی لیکن کئی دواؤں کے استعمال سے مریضوں کی ایک بیماری ختم ہوئی تو تین دوسری خوفناک بیماریوں کا اِنکشاف ہوا ، اُس زمانے میں اگر کِسی مریض کی موت قُدرتی ہونا تھی تو نئی ایجاد کی گئی دوا نے بیماری کو طویل کیا یا اُسے مزید بِگاڑ دیا اور اکثر اُس مریض کو فالِج ہو گیا آج کی میڈیسن بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں ایک بیماری کو ختم کیا جاتا ہے تو دوسری پر قابو پانے کے لئے نئی دوا کا استعمال شروع ہو جاتا ہے اور کئی بار انسان تندرست ہونے کی بجائے مَزید بیمار ہو جاتا ہے ، اس کی ایک مثال ٹیومر ہے اس بیماری میں انسان صرف مرنے کی ہی خواہش رکھتا ہے ، میری رائے میں ڈوکٹرز کی مدد سے مریض کی خود کشی جائز ہے لیکن ضروری نہیں ، کیوں کہ کسی ڈوکٹر کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مریض کی جان لے لیکن آخری حربہ خود کُشی ہے ۔

ڈوکٹرز کی ایک تہائی تعداد اِس بے رحمانہ قتل کے خِلاف ہیں۔ جرمنی کے شہر کیل (Kiel)میں ہونے والی طِبی کانفرنس میں گزشتہ سال اس موضوع کو بند کر دیا گیا تھا دو تہائی اکثریت کے ساتھ فیصلہ کیا گیا کہ معالِج کی مدد سے خود کُشی کی ممانعت ہے ۔ ریاست کے میڈیکل بورڈ نے کافی سوچ بِچار کے بعد فیصلہ کیا کہ ڈوکٹر کے پیشے میں اس قِسم کی مدد گار خود کشی کا کوئی وجود نہیں ہے کیوں کہ مدد گار خود کشی ڈوکٹر ز کے فرائض میں نہیں ، ہمیں کھلے اور مُشاورتی نتائج کی ضرورت ہے ، ہمیں ہوسپیٹلز میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے مزید توسیع کی ضرورت ہے ہم چاہتے ہیں کہ مریض شدید تکلیف دہ بیماری میں بھی بغیر کسی ڈوکٹر کی خود کشی امداد کے انسانی ،امن اور دیگر قانونی طریقے سے مرے ۔

مسٹر ایڈزرد شمت جورٹزِگ ۔(Edzard Schmidt-Jortzig)انیس سو چھیانوے سے اٹھانوے تک جسٹس وزیر رہے اور سیاسی پارٹی ایف ڈی پی کے ممبر بھی ۔ انہوں نے میڈیسن اور حُقوق پر ایک کِتاب بھی تحریِر کی ۔ سابق وزیر کا کہنا ہے کہ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی زندگی جینے کا فیصلہ خود کرے اور اسے آخر تک کیسے پہنچائے لیکن کسی بھی صورت میں خود کُشی میں مدد کرنے کا حق نا قابلِ قُبول ہے ، آج عام رائے ہےکہ انسان آزادانہ طور پر خوداریت کا حق رکھتا ہے صرف اس لئے کہ وہ انسان ہے لیکن کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی زندگی کا خود خاتمہ کرے یا کسی دوسرے سے مدد کا طالب ہو اس کو دوسرے پہلو یا نقطہِ نظر سے ایسے دیکھا جاسکتا ہے کہ مرنے والا کسی کو کہے میں زندہ رہنا نہیں چاہتا تم مجھے مار دو لیکن مارنے والے کا ضمیر یہ کیسے گوارا کرے گا کہ وہ کسی بے گُناہ کا خون کرے علاوہ ازیں معاشرے اور ریاست میں خود کشی جیسے عمل کو ختم کر کے سہولت فراہم کرنی چاہئے اور مرنے میں مدد کے حق کو نا قابلِ قبول قرار دیا جائے انسان کو اپنی زندگی کا تعین کرنے کی آزادی اور اسے استعمال کرنے کا حق ہو نا چاہئے اس کے علاوہ قانونی اور اِخلاقی طور پر معاشرے سے یہ پہلو ختم کر دیا جانا چاہئے کہ مرنے والے کی مدد کی جائے تاکہ وہ جلد مر جائے ۔

ستر فی صد جرمنوں کا کہنا ہے درد سے نِجات کے لئے مرنے میں مدد چاہیں گے ۔اکثریت کا دعویٰ ہے کہ شدید تکلیف میں مدد گار موت ہی بہتر ہے ۔

ہیلتھ انشورنس کمپنی کے سروے کے مطابق چودہ سے انتیس سال کے افراد (چھیاسی فی صد) کے خیال میں مرنے میں مدد ہونی چاہئے ، ساٹھ سال سے اوپر کے افراد (چوہتر فیصد) بھی اسی حق میں ہیں جب کہ اکتالیس فی صد ایسی موت کو اچھا نہیں سمجھتے اور سولہ فی صد اس کے خلاف ہیں ۔

رالف شمت کئی سال وارڈ بوائے کی حیثیت سے ہوسپیٹل میں کام کر چکا ہے ایک واقعہ کے بارے میں اس نے بتایا کہ ایک چالیس سالہ مریض کو پیٹ کی رگوں میں خون کی بندِش کی بنا پر ہوسپیٹل لایا گیا وہ شدید تکلیف میں مبتلا تھا ناف سے نیچے پاؤں تک کا تمام حصہ نیلا پڑ چُکا تھا اور اوپریشن لازمی قرار دیا گیا ۔(Implanted aortic)بہت بڑی اور خطر ناک سرجری کے کچھ ہفتوں بعد ہائی رسک کے ساتھ وہ اپنی ذمہ داری پر گھر چلا گیا تکلیف کی صورت میں ٹیبلیٹس ، کیپسولز اور الکوحل سے اپنے جسم کو سُن رکھتا چند ہفتے گزرنے کے بعد بذریعہ ایمبولینس دوبارہ ہوسپیٹل پہنچایا گیا اس کی ٹانگوں کی رگیں سیاہ اور تقریباً ساکت ہو چکی تھیں علاج کرنے کی کوشش کی گئی لیکن رفتہ رفتہ وہ سبز اور گلابی ہوتی گئیں اور سڑے گوشت کی بدبُو پورے وارڈ میں پھیلتی گئی اوپریشن ممکن نہیں تھا اور کئی ہفتے شدید تکلیف میں رہنے کے بعد وہ جوان آدمی مر گیا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جو پیدا ہوا ہے اُسے ایک دن مرنا ہے ۔ انسان کو جس خمیر سے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اس کی ایک حد بھی مقرر کی ہے اللہ تعالیٰ غیب کا عِلم رکھنے کے ساتھ ساتھ جانتا ہے کہ کب اور کس لمحے فلاں فَلاں انسان نے دنیا سے رُخصت ہونا ہے کِتابوں اور باتوں کو دیکھا جائے تو بے شمار اِلفاظ ہماری آنکھوں اور ذہن میں گَردِش کریں گے جیسے کہ اُمید ، قِسمت ، سِتارے ،بہانہ وغیرہ وغیرہ لیکن یہ سب دِل بہلانے اور ہمت بڑھانے تک ہی محدود ہیں کیوں کہ جب موت آتی ہے تو ان اِلفاظ کو یکسر نظر انداز کر کے آتی ہے انسان صرف اپنی دِلی اور ذہنی تسلی کے لئے ان الفاظ کا سہارا لیتا ہے لیکن ان الفاظ کو بے معنی بھی قرار نہیں دیا جا سکتا یہ الفاظ ہی موت کی وجوہات ہیں ۔ موت انسان کا ہر لمحہ پیچھا کرتی ہے موت کسی بوڑھے ، عورت ، جوان  اور بچے کو نہیں پہچانتی اور نہ ہی کسی امیر غریب یا بیمار اور تندرست کو ۔ جس انسان کا زندہ رہنے کا پیریڈ ختم ہو جاتا ہے ہم انسان اسے بہانہ ، قسمت اور ستاروں کا کھیل سمجھتے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں کہ گھر ہو سڑک ہو یا ہوسپیٹل ہماری زندگی کا آخری سٹیشن قبرستان ہے۔

ایک کہاوت ہے۔”زندگی گزارنا مشکل ہے لیکن مرنا اس سے بھی زیادہ مشکل”۔

Short URL: http://tinyurl.com/jg27cch
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *