فیس بک زندگیوں میں زہر گھولنے لگی

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: عبدالوارث ساجد
فیس بک کا آغاز مارک زکر برگ نے 2004ء فروری کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیلفورنیا کے شہر مینلو میں کیا۔ تاکہ ایک دوسرے کو بہتر طریقے سے جاننے کے سلسلے میں طلباء کی مدد ہو سکے۔ اس کے آغاز کے چوبیس گھنٹے کے اندر ہارڈورڈ کے بارہ سو طلبا کا اندراج ہو گیا۔ جلدہی یہ سلسلہ دیگر کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پھیل گیا۔ 2005 کے آخر میں اس نیٹ ورک کا نام فیس بک رکھا گیا۔ اس کے بعد یہ دنیا کی مختلف زبانوں میں بھی دستیاب تھا۔ فیس بک جو طلبا کے باہمی رابطے سے شروع ہو کر بزنس۔ مسالک، سیا ست۔ آرٹ۔ شاعری۔ اور پھر عام آدمی کی دستبردمیں آگئی۔اور اب فیس بک پوری دنیا میں مقبول عام ہے اور اس کے یوزر کی تعداد اربوں میں ہے۔ فیس بک کا استعمال وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہونے لگا اور اسے اچھے برُے مقصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ عام طور پر کوئی چیزبھی فی نفسہ اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس کی اچھائی یا برائی اس کے اچھے یا برے استعمال پر موقوف ہوا کرتی ہے۔ یہ ضابطہ جہاں دنیا کی عام چیزوں میں جاری اور عملا نافذ ہے، وہیں فیس بک اور واٹس ایپ سمیت سوشل میڈیا کی دنیا بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ۔
اگر فیس بک کو برُے مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کو دیکھاجائے تو تاریخ نے دیکھا ہے کہ اس فیس بک نے ہزاروں گھر اجاڑے ہیں، طلاقتیں بھی کروائی ہیں اور جانیں بھی لی ہیں۔ ماڈرن ایج کے میاں بیوی فرضی آئی ڈی سے ایک عرصے تک باہمی چیٹنگ کرتے رہے اور آخر ایک دن جب ملاقات کے لیے دونوں ہوٹل پہنچے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر اور مدتوں جاری رہی فحش چیٹنگ کے اپنے ہی کرتوتوں کو یاد کر کے دنگ رہ گئے اور پھر اسی دم اسی جگہ طلاق لے کر ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔ کئی بار یہی صورت حال باپ اور بیٹی کے درمیان میں بھی پیدا ہوئی اور باپ جہاں اپنے کالے کرتوتوں پر پشیماں ہوا وہیں اپنی بیٹی کے کردار پر بھی انگشت بدنداں رہ گیا جبکہ بچی بھی باپ کی اس کارستانی پر پانی پانی ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
کینیڈا کے صوبہ نوواسکوشیا کی رہائشی 17سالہ ریہتا پارسنز نے اسی فیس بک کی وجہ سے خود کشی کر لی اور اس کے مرنے کی وجہ انٹرنیٹ اور فیس بک کا ضرورت سے زیادہ استعمال تھا۔ کسی نے اس کی قابل اعتراض تصاویر فیس بک پر آویزاں کر دیں اور وہ یہ بے عزتی برداشت نہ کر سکی اور اس نے زہر پھانک کر جان دیدی۔ ریہتا کی والدہ کے مطابق وہ کئی دنوں سے ذہنی انتشار کا شکار تھی اور اسے مختلف لڑکے ناجائز تعلقات استوار نہ کرنے کی صورت میں سنگین دھمکیاں دے رہے تھے۔ یہ ایک ہی واقعہ نہیں ہے ایسے بے شمار واقعات مزین ہیں جو فیس بک کی تباہی کے گواہ ہیں۔ کسی کی شادی ہو گئی۔کسی کو طلاق تو کسی گھر جھگڑا۔ کہیں مسالک کی الجھنیں اور کہیں سیاست کے مسائل۔ بعض ایسی پوسٹیں بھی دیکھنے میں آئیںیہ بچہ بیمار ہے اور غریب ہے۔ ان کے پاس علاج کے پیسے نہیں۔ اگر آپ اس پوسٹ کو لائک کریں گے تو جتنے لائک ملیں گے فیس بک اس بچے کو پیسے ادا کرے گی۔ یہ فقط چند پیج کی ریٹنگ بڑھانے کا چکر ہے۔ فیس بک کوئی فلاحی ادارہ نہیں۔ وہ کسی قسم کی ایکٹیوٹی پر کسی کو رقم مہیا نہیں کرتا۔ مگر اپنے مفاد کے لیے غلط لوگ اسے استعمال کرتے ہیں اور غلط کام میں اس کی مدد لیتے ہیں ایسے دنیا بھر کے ممالک میں فیس بک خواتین کے لیے وبال جان بن گئی ہے، شوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال نے شہریوں کی زندگی برباد کر دی ہے شوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال کے حوالے سے ہونے والی سروے رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ دنیا بھر میں سائبر کرائمز میں گزشتہ 2سال کے دوران خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے، اور پچھلے 6ماہ کے عرصہ میں شوشل میڈیا پر خواتین کو بلیک ملینگ جیسے جرائم میں 100 فیصد سے زائد اضافہ ہو چکا ہے، دنیا سائبرکرائم ایکٹ نافذ العمل ہونے کے بعد سوشل میڈیا کے جرائم میں کمی نہیں آسکی اور فیس بک کے ذریعے خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کے متعلق روزانہ ایف آئی اے کو درجنوں درخواستیں موصول ہو رہی ہیں ہیکرز نے جعلی فیس بک اکاوئنٹس کے ذریعے جوان لڑکیوں کے ساتھ ساتھ شادی شدہ اور طلاق یافتہ خواتین کی برہنہ تصاویر بنا کر ان کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا اور ان سے رقم بٹوری جاتی ہے اور ایسے گروہ زیادہ تر امیر گھرانوں کی لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں تاکہ اس سے اپنی مرضی کے مطابق رقم وصول کی جا سکے ایسے امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی تعداد 80 فیصد تک ہے، سائبر کرائم کے بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ سے ایف آئی اے سائبر کرائم کے افسران بھی پریشان ہو گئے ہیں۔ فیس بک کے چکر میں کالجز اور یونیورسٹیوں کی کئی نوجوان لڑکیاں اپنی عزت گنوا چکی ہیں جبکہ 3 سال قبل اس حوالے سے ایف آئی اے سائبر کرائم کو بہت کم درخواستیں موصول ہوتی تھیں لیکن سال 2016ء کے بعد اب تک ایف آئی اے سائبر کرائم کو ریکارڈ3506 شکایات موصول ہوئیں۔ ذرائع کے مطابق کئی لڑکے اپنے آپ کو لڑکی ظاہر کر کے جعلی فیس بک اکاوئنٹس بنا کر دوستی کرتے ہیں اور بعد ازاں مذکورہ لڑکیوں کی تصاویر حاصل کر کے ٹیکنالوجی کے ذریعہ ان کی برہنہ تصاویر بنا کر ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے سزائیں اور جرمانے بڑھانے کے باوجود سائبر کرائم جیسے جرائم میں کمی نہیں آسکی ایف آئی اے کے مطابق سوشل میڈیا کے حوالے سے کالجز اور یونیورسٹیوں میں باقاعدہ لیکچرز دییے جانے چاہئیے تاکہ نوجوان نسل کو فیس بک سمیت ٹیلی پولی گراف غلط استعمال کے متعلق آگاہ کیا جائے کہ اس کے کیا نقصانات ہیں۔ آگاہی نئی نسل کے لیے بہت ضروری ہے ورنہ جس تیزی کے ساتھ ہماری نسل اسمارٹ فون میں گم ہی گئی ہے اور کتاب سے دور ہو گئی اس سے تباہی ہی تباہی ہے۔اور اس سے بچاؤ کا راستہ ان بچوں کو آگاہ کرنا ہے اور اچھا برُا کیا ہے اس کی پہچان کروانا ہے ہمارے ہاں فیس بک کا استعمال ایک نشہ بن گیا ہے اور نشہ کسی بھی چیز کا ہو زندگی تباہ کر دیتا ہے پچھلے دنوں ایسے ہی فیس بک کی وجہ سے دو خاندان تباہ ہو گئے فیس بک پر لڑکے لڑکی کی دوستی ہوئی پھر شادی اور پھر لڑکا قتل ہو گیا کیس عدالت میں چلا گیا اور دو خاندان عدالتوں کچہریوں کے چکر کاٹنے لگے اسی عدالت کے باہر لو میرج کرنے والی لڑکی نے جو کہ اب ملزمہ تھی نے بتایا کہ میں نے شیرون کے ساتھ لومیرج کی تھی اور ہماری شادی کی رسومات شیرون کے گھر پر ہوئی تھیں جس میں اس کی والدہ نے بھی شرکت کی تھی، ہماری شادی پر شیرون کے گھر والے خوش نہ تھے جس کی وجہ سے شیرون شدید ذہنی دباؤ کا شکارتھا، گھر والوں کے رویے سے تنگ آکر شیرون نے خود کشی کر لی، وہاں موجود جب ایک صحافی نے یہ سوال کیا کہ شیرون کی نعش اسلام آبا د سے سینکڑوں میل دور پسرور کے گاؤں میں کیسے پہنچی تو نائلہ نے اس سوال کا جواب گول کرتے ہوئے کہا کہ میں اس سوال کا جواب عدالت میں دوں گی، نائلہ کے وکیل نے بتایا کہ ہمارے پاس تمام ثبوت موجود ہیں جس میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شیرون نے خود کشی کی ہے، نائلہ نے شیرون کی نعش کو اس کی والدہ اور کزن کے حوالے کر دیا تھا۔ دوسری طرف شیرون کی والدہ اور بھائی نے میڈیا کو بتایا کہ شیرون کو نائلہ نے قتل کر کے اس کی نعش غائب کردی تھی ہمیں انصاف فراہم کیا جائے، نائلہ جب ہمارے گھر آئی تھی تو وہ میڈم بن کر آئی تھی۔ اور کہتی تھی کہ وہ شیرون کی میڈم ہے نہ کوئی شادی ہوئی ہے اور نہ ہی ہم نے شادی کی تقریب میں شرکت کی ہے، نائلہ نے ہی شیرون کو قتل کیا ہے لیکن اب بچنے کے لیے فرضی کہانیاں بنا رہی ہے، یہ وہ واقعہ ہے جو پسرور اور اسلام آباد سمیت پاکستان میں بہت مشہور رہا اخبارات میں خبریں آئیں ٹی وی پر بھی رپورٹ ہوا۔ اس واقعہ کو جنم دینے میں فیس بک کے غلط استعمال کا بڑا کردار رہا ۔ اخبارات میں آنے والی خبریں اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں فیس بک سے ہونے والی دوستیاں اور اس کے بعد ہونے والی قتل و غارت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے پچھلے سال ایک خبر بہت مقبول رہی کہبہاولپورمیں فیس بک حسینہ نے شادی کے نام پر نوجوان سے لاکھوں روپے بٹور لئے۔ مبارک پور موضع منوٹی کے رہائشی سعودیہ پلٹ محمد آصف بتایا کہ مخدوم عالی کی رہائشی لڑکی نے فیس بک کے ذریعے اس سے دوستی کی اور شادی کا جھانسہ دیا۔ تقریباً ڈیڑھ سال قبل میرے گھر والے منگنی بھی کر آئے بعد میں شادی اور جہیز کے نام پر مختلف اوقات میں لڑکی نے 2لاکھ روپے بٹورے جس کی رسیدیں بھی موجو ہیں۔ اس دوران لڑکی نے بھائی اور کزن کے ویزے کی مدمیں تین تین لاکھ الگ وصول کئے۔ اس کے علاوہ لاکھوں کے تحائف بھی وصول کئے۔ اب آٹھ برس بعد پاکستان آیا اور ان سے ویزوں کی مد میں دی گئی رقم کا مطالبہ کیاتو اس پر اس کے گھروالے سیخ پا ہو گئے اور میرے گھر والوں کو شادی کی تاریخ دینے سے انکار کر دیا۔ نوجوان نے بے بسی سے کہا کہ شادی کرے یا نہ کرے مگر اس سے لوٹی ہوئی رقم واپس دلائی جائے۔فیس بک کی وجہ سے ایسے بڑھتے واقعات جہاں لوگوں کی شوشل لائف برباد ہوئی وہیں اس پلیٹ فارم کو آزادی اظہار رائے کے نام پر استعمال کیا گیا اور مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے توہین رسالت کا ارتکاب کر کے مسلم دنیا کے باسیوں کی زندگیوں میں بے چینی اور ارتعاش پیدا کیا گیا۔ یوں نجی زندگی کے ساتھ ساتھ مذہبی وابستگی سے بھی کھلواڑ ہونے لگا۔
سوشل میڈیا میں مسلمانوں کی مقدس ترین ہستیوں کی شان میں مسلسل توہین کرنے والے پیجز کا معاملہ اس وقت سب سے اہم اور حساس مسئلہ بن گیا ہے۔ ویسے گستاخیوں کا یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ مگر پچھلے دنوں چھ بلاگرز کے اچانک غائب ہونے پر اس مسئلے نے شدت سے سر اٹھایا اور ان بلاگرز کو مبینہ طور پر مذکورہ گستاخ پیجز کا ایڈمن قرار دیا گیا۔ اس دوران سوشل میڈیا پر بدترین گستاخیوں کا سلسلہ نہ صرف جاری رہا، بلکہ اس میں مزید شدت بھی آگئی۔ اب گستاخ مزید پیجز بنا کر خبث باطن کا اظہار کر رہے ہیں۔
بلاشبہ فیس بک اس وقت سماجی راوبط کا سب سے بڑا اور مقبول ترین نیٹ ورک ہے۔ جس کے صارفین کی تعداد دوارب کے لگ بھگ ہے۔ ان میں صرف موبائل فون پر فیس بک استعمال کرنے والے ایک ارب سے زائد ہیں۔ جبکہ روزانہ سوا ارب افراد اس ویب سائٹ سے جڑے رہتے ہیں۔ فیس بک انتظامیہ کا ماننا ہے کہ اس کے زیادہ ترصارفین ایشیائی باشندے ہیں۔ جن میں پاکستانیوں کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زائد ہے فیس بک کوپچاسی فیصد آمدنی اشتہارات کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ صارفین کی تعداد جتنی بڑھتی ہے، اس حساب سے ویب سائٹ کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کاروباری ادارے کسی کے مطالبے پر اسی وقت کان دھرنے کو تیار نہیں ہوتے مگر ہماری حکومتیں ایسے کام کر سکتی ہیں جس سے ہمارے معاشرے میں زہت گولتی فیس بک جیسی ویب سائٹ کا تدارک ہو سکتا ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/y3h2gdge
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *