روز مرہ انسانی زندگی میں پیش آنے والے حیران کن واقعات

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: عبدالوارث ساجد
گھانا میں مردوں کو برسوں بعد دفنایا جاتاہے
کئی ممالک میں مرد عورت کی وفات کے بعد انہیں ایک دو روز میں دفنایا جاتا ہے۔ لیکن افریقی ملک گھانا میں اس اہم کام میں بھی کئی ہفتے بلکہ کئی سال بھی لگ جاتے ہیں۔ اس عرصے میں لاش کو برف میں منجمد کرکے رکھا جاتا ہے گھانا میں کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کے خاندان کے ایک ایک فرد اور دور دراز رشتے داروں سے بھی رابطہ کیا جاتا ہے خواہ مرنے والے نے ان سے برسوں تک بات نہ کی ہو۔ یہ رشتہ دار وں کا انتظار بھی تدفین میں تاخیر کرتاہے تاہم تدفین کے اخراجات کی ذمے داری مرنے والے کے بچوں اورقرابت داروں پر ہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مرنے والے کے گھر کو ڈھا کر دوبارہ تعمیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح رونے دھونے والوں کی فہرست بنانا بھی ایک عذاب ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ جنازے میںآنے والے ایک ایک فرد سے بات کرنی پڑتی ہے کہ آیا وہ فارغ بھی ہیںیا نہیں ؟
حال میں ایک مشہورصنعتکار کے انتقال کے بعد اس کی84سالہ زندگی پر ایک خوبصورت رنگین کتاب چھاپی گئی اور جنازے میں آنے والوں میں مفت تقسیم کی گئی۔ دوسری جانب اگر کوئی خوش نصیب لاش دو سے تین ہفتے میں دفنا دی جائے تو لوگ اسے عزت نہیں دیتے اور اسے براشگون سمجھتے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق مرنے والوں کی سست تدفین کی وجہ ریفریجریشن کا عمل ہے اور گھانا میں جگہ جگہ لاشوں کو محفوظ رکھنے کے لئے سرد خانے موجود ہیں۔ اگر ان کا فروغ کم ہو جائے تو از خود لوگ اپنے مردوں کو جلد دفنانے لگیں گے۔
کتے مریکل ملی کی 49 کلوننگ کاپیاں تیار
دنیا میں سب سے زیادہ کلوننگ شدہ کتے مریکل ملی کو 49 کلون کاپی بننے پر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کر لیا گیا۔ جنوبی کوریا کے متنازع ریسرچ ادارے سو اآم بائیولک 2006 سے کتوں کی کلوننگ کر رہا ہے تاہم گزشتہ برس اگست سے اس ادارے نے مخصوص نسل کے چھ سالہ کتے مریکل ملی، کی کلوننگ کرکے اس جیسے49 کلون کتے بنا لیے ہیں۔ شکل و صورت اور جسامت میں ایک جیسے دکھائی دینے والے یہ کلون کتے مریکل ملی، کی کاربن کاپی لگتے ہیں۔ ابتداء میں مریکل ملی کی 10 کلون کاپی کا ارادہ تھا تاہم یہ تعداد بڑھتے بڑھتے 49 تک جا پہنچی ہے۔ تاہم سائنس دانوں نے اس عمل کو فطرت کے لئے خطرناک قرار دیا ہے اور مکمل معلومات جامع کیس ہسٹری اور محفوظ ترین احتیاطی اقدامات کے بغیر کلوننگ کو کرہ ارض اور نسل انسانی کیلئے تباہ کن عمل کہا ہے۔ سائنس دانون نے تنبہہ کی ہے کہ کلوننگ کاعمل نہایت ضرورت پڑنے پر اور ایک خاص تعداد تک کیا جاتا تو محفوظ ہوسکتا ہے۔ لیکن اس ٹیکنالوجی کابے تحاشا اور بے دریغ استعمال نقصان دہ ثابت ہوگا۔ نظام فطرت کو اپنے ہاتھ میں لینا عقل مندی نہیں ۔ واضح رہے کہ 1996میں سب سے پہلے کلون ٹیکنالوجی کا تجربہ کیا گیا تھا۔ جس میں ایک بھیڑ کی کلوننگ کی گئی تھی اور کلون شدہ بھیڑ کو ڈولی کا نام دیا گیا تھا۔
چھٹی حس کی تصدیق
حواس خمسہ کی موجودگی اہل دانش اور فلسفی صدیوں سے تسلیم کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن چھٹی حس کو آج تک سائنس کی دنیا میں محض ایک مذاق سمجھا جاتا رہا ہے مگر اب امریکی سائنس دانوں نے پہلی بار چھٹی حس کی موجودگی کی سائنسی طور پر بھی تصدیق کردی ہے ۔ برطانوی اخبار دی مرر کی رپورٹ کے مطابق یہ دریافت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے سائنس دانوں نے کی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے ماہر دماغی امراض ، ڈاکٹر کارسٹن بان مین نے بتایا کہ دونو عمر لڑکوں پر کی جانے والی تحقیق میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ انسان میں حواس خمسہ یعنی دیکھنے ، سننے چکھنے، سونگھنے اور چھونے کی حس کے علاوہ بھی ایک حسں پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں لڑکے ایک حیرت انگیز بیماری میں مبتلا ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ دیکھے بغیر اپنے ہی جسم کی موجودگی کا احساس نہیں کر پاتے۔ ڈاکٹر بان نے بتایا کہ جب ان لڑکوں کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی تو انہیں معلوم بھی نہیں تھا کہ ان کی ٹانگیں کہاں اور بازو کہاں ۔ تاہم وہ اپنی چھٹی حس کی مدد سے بعض کام انجام دینے میں کامیاب رہے مثلاً میز پہ پڑا گلاس اٹھا لیا ۔ جب لڑکوں کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی تو وہ چلنے کے قابل بھی نہیں تھے کیونکہ انہیں اپنی ٹانگوں کی موجودگی کا احساس ہی نہیں تھا۔ اس کے باوجود چھٹی حس سے کام لے کر بتائی گئی جگہ تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
گھرمیں جوتے پہننا منع ہے
جاپانیوں کے رسوم و رواج خاصے دلچسپ و عجیب ہیں اور انکے کلچر کی کچھ باتیں تو دنیا کے لئے معمے کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ گھر کے اندر جوتے نہ پہننا بھی ایک ایسی ہی بات ہے جسے دنیا آج تک حیرت سے دیکھتی رہی لیکن اب سائنس دانوں نے اسے انسانی صحت کے لئے مفید قرار ددے دیا ہے۔
جاپانی لوگ باہر سے آتے ہیں تو اپنے جوتے گھر کے اندرونی حصے سے باہر رکھتے ہیں۔ گھر کے اندر یا تو ننگے پاؤں چلتے پھرتے ہیں یا ایسے جوتے استعمال کرتے ہیں جو ہمیشہ گھر کے اندر ہی رہتے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جاپانیوں کے یہ عادت محض روایت کا حصہ نہیں بلکہ بے پناہ طبی فوائد کی حامل بھی ہے ۔ کیونکہ باہر استعمال ہونے والے جوتوں کو گھر کے اندر استعمال کرنا طرح طرح کی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف ایروزونا کے سائنسدان نے ایک تحقیق میں معلوم کیا ہے کہ جب ہم باہر سے گھر کے اندر آتے ہیں تو ہمارے جوتوں کے تلووں پر تقریباً چار لاکھ اکیس ہزار مختلف اقسام کے بیکٹیر یا موجودہوتے ہیں ۔ یہ بیکٹیر یا تقریباً 96فی صد جوتوں کے تلووں پر پائے گئے ۔ ان میں کلیسیلا نمونیا جو پیشاب کی نالی کا انفکشن پیدا کرتا ہے اور سراتیا فکاریا جو سانس کی انفکشن پیدا کرتا ہے اور ایکول جیسے بیکٹیر یا بھی پائے گئے جو نظام انہضام کی بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ 
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیکٹریا سٹرکوں پر ریستورانوں میں ، فٹ پاتھ پر ، باغیچوں میں غرض ہر جگہ موجود ہوتے اور ہمارے جوتوں کے ساتھ گھر میں بھی آ جاتے ہیں۔ اس مسئلے کا ایک حل تو یہ ہے کہ آپ اپنے جوتوں کو گھر میں داخل ہونے سے پہلے جراثیم کش محلول سے دھولیں۔ اگر انہیں ویسے ہی اندر لے آئیں تو پھر فرش کو بھی اسی طرح دھوئیں۔ لیکن یہ مشکل کام ہے لہذا اس کا آسان حل یہ ہے کہ باہر استعمال ہونے والے جوتے گھر کے اندرونی حصے میں نہ لائیں۔ گھر کے اندر آپ جاپانیوں کی طرح ننگے پاؤں چل پھر سکتے ہیں یا ایسے جوتے استعمال کرسکتے ہیں جو صرف گھر میں ہی استعمال ہوں اور کبھی بھی باہر نہ لے جائیں۔
جوتے کے ڈبے میں ملنے والا دو ارب کا گلدان
کباڑ خانے میں برسوں سے پڑے ایک ڈبے میں پڑا گلدان چینی فن کا شاہکار نکلا۔ اور ایک کروڑ نوے لاکھ ڈالر (پاکستانی دو ارب روپے)میں نیلام ہوگیا ہے۔اٹھارویں صدی میں بتلایا گیاکہ گلدان فرانس کے ایک گھر کے مچان میں رکھا ہوا تھا جسے سوتھ بائی نیلام گھر کو فروخت کرنے کے لئے دیا گیا نیلام گھر والوں نے اس کی قیمت پانچ سے سات لاکھ یورو رکھی تھی وہ اپنی مجوزہ قیمت سے دس گنا زیادہ قیمت پر فروخت ہوگیا یوں اس نیلام گھر سے فروخت ہونے والی سب سے مہنگی شے بھی ثابت ہوا۔ یہ گلدان ایک خاندان کو وراثت میں ملا تھا جسے بیکارسمجھ کر کئی سال کباڑ خانے میں رکھاگیا پھر اسے قیمت تعین کے لئے ایک نیلام گھر کودے دیا گیا سوتھ بائی میں ایشائی نوادرات کے ماہراولیورولیمر نے کہا کہ گلدان فروخت کرنے والا شخص میٹرو ٹرین سے سفر کرکے آیا تھا اور میرے آفس میں آکر جوتوں کا ایک ڈبہ کھولا جس میں اخبارمیں لپٹا ہوا ایک قدیم گلدان تھا اس گلدان کی خوبصورتی دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ گلدان کی لمبائی 30سنٹی میٹر ہے جو بلب نما ساخت رکھتا ہے اور اس پرسبز ، نیلے ، پیلے اور جامنی شیڈزمیں خوبصورت نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ پورسلین سے بنا گلدان چین کے چنگ عہد سلطنت(dynasty qing)سے تعلق رکھتا ہے۔ جو چین کا آخری شاہی عہد بھی تھا۔ اس پر پرندے اور ہرن بھی نقش ہیں اور اوپر کی گردن پر سنہری کشیدہ کاری کی ہوئی ہے۔ گلدان کی سب سے اہم بات ایک مہر ہے جو چینامنگو فرمان روا کی مہر ہے۔ 1736سے1796تک چین پر حکمران رہا اسی لے یہ ایک نایاب شے کادرجہ رکھتا ہے ۔ دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ نیلامی شروع ہوتے ہی بولی دینے والوں میں سے زیادہ سے زیادہ رقم لگانیکی جنگ شروع ہوگئی۔ اور صرف بیس منٹ میں اس کی بولی 19 ملین ڈالرپر پہنچ کر ختم ہوئی۔
مردہ لومٹری کو اپنے ساتھ رکھنے والی لڑکی
جانوروں سے محبت کرنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ انہیں ہر جگہ اپنے ساتھ رکھیں۔ لیکن شمال مغربی انگلینڈ کے علاقے مر سے سائیڈ کی لیزافاکس کرافٹ کو اپنی پالتو لومڑی سے اتنی محبت ہے کہ وہ اب اس کے مرنے کے بعد اسکی لاش کے پاس رہتی ہے ۔ لیزا نے اپنی لومڑی کے بچے کو مرنے کے بعد حنوط کرا لیا ہے۔ نیز لومڑی کی تصاویر پر انسٹاگرام سمیت سوشل میڈیا کی دیگر ویب سائیڈ پربہت مقبول ہو رہی ہیں۔ لیزا نے بتایا کہ میں اس لومٹری کواپنی اولاد کی طرح سمجھتی ہوں۔ جس طرح میں اپنا خیال رکھتی ہوں بالکل ایسے ہی اس لومٹری کی لاش کی دیکھ بھال بھی کرتی ہوں ۔ گھر ہو بازار ہو یاکوئی ریستو ران ، لیزا اپنی حنوط شدہ لومڑی کو ہر جگہ لیکر جاتی ہےَ لوگ پہلے انہیں عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں لیکن لیزا سارا معاملہ بیان کرتی ہیں تو لوگ ان سے ہمدردی کرنے لگتے ہیں۔ لوگ لیزا اور اسکی لومڑی کے ساتھ سیلفی بھی بناتے ہیں۔ ان کے مطابق حنوط کرکے کسی جانور کو محفوظ کرنا کوئی بری بات نہیں۔ لیکن اب بھی کئی لوگ لیزا کے اس عمل پر تنقید کر رہے ہیں۔
خطرناک ترین مرچیں کھانیو الی ’’مرچ ملکہ‘‘
ہرسال برطانیہ مین ’’کلفٹن چلی ایٹنگ کلب‘‘ کی جانب سے دنیا کی خطرناک اور تیز ترین مرچ کھانے کا مقابلہ منعقد ہوتا ہے ۔ جس میں دنیا کی انتہائی تیز ترین مرچ کھانے کے کئی راونڈ ہو تے ہیں۔ 2014 سے سڈ نامی خاتوں یہ مقابلہ جیت رہی ہے۔ اور اب انہیں ’’ان بیٹ ابیل سڈ‘‘ کا نام دے دیاگیاہے اگر آپ تیز مرچ کھانے کے ماہر ہیں تب بھی آپ اس کے مقابلے میں دور رہیں۔ کیونکہ یہاں کی مرچیں کھانے سے اچھے اچھوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ اور وہ کئی گھنٹے تکلیف میں رہتے ہیں۔ یہ مرچیں صرف زبان ہی نہیں بلکہ حلق اور معدے میں بھی آگ لگا دیتی ہیں۔ ضبط کرکے مرچ کھانے والوں کی آنکھ میںآنسو اور چہرے پر سرخی نمایان ہو جاتی ہے۔ یہاں اس قدر تکلیف برداشت کرنے کے باوجود صرف 170 ڈالر انعام میں ملتے ہیں ۔ تاہم شرکاء کے نزدیک انعامی رقم سے زیادہ مرچیں کھانے کا چیلنج ان کے لئے زیادہ پرکشش ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/y2cyrxcr
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *