حد ہوگئی یار

Hadayat Ullah Akhtar
Print Friendly, PDF & Email

ڈوگروں کے انخلا   کے بعد  ہم کس بحث و مباحثے میں  مبتلا  رہے ذرا ملاحظہ کریں -ہم متنازعہ ہیں۔ ہم متنازعہ نہیں ہیں، ہم پاکستانی ہیں ،ہم پاکستانی نہیں ہیں، ہم آزاد ہیں ، ہم آزاد نہیں ہیں ، ہم نے پاکستان سے الحاق کیا ہے۔الحاق نہیں انتطام کے لئے بلایا تھا۔ ہم نے ڈوگروں کو مار بھگایا، نہیں  ایک سوچے سمجھے  منصوبے  کو عملی جامعہ  پہنایا  گیا – ہم ایک قوم  ہیں  ہماری ایک پہچان ہے ہم گلگت بلتستان کے ہیں   لیکن  افسوس  الگ پہچان والی قوم    گلگت بلتستان  کے رہنے والے  بچوں کی طرح    کھلونے   مانگنے کی ضد  کرتے رہے ۔اور یہاں   جو مطالبات  گردش کرتے رہے   ان پہ بھی ایک نظر ڈالئے –  گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنائو۔ گلگت بلتستان   کو الگ سے خود مختاری دے دو، گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دے دو۔آزاد کشمیر اور جی بی کو ملا کر ون یونٹ بنائو۔ گلگت بلتستان کی تاریخ میں کئی نظام کی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں پچھلے اکہتر سالوں کی طرف دیکھا جائے تو اس کی تفصیل  کچھ یوں  بنتی ہے ۔خالصہ سرکار  ، سرکار مہارجہ، سرکار انگلشیہ   اور پھر موجودہ سرکار  پاکستان  شامل ہیں  اس  عرصے  میں بہت سے نشیب و فراز سے بھی واسطہ پڑا اور ان اکہتر سالوں  کا جائزہ لیا جائے تو  یہ بات روز روشن کی طرح عیاں  ہو جاتی ہے کہ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگانے والی مخلوق اب بھی زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں میں ہی گھری ہوئی ہے۔اس کا مطلب  یہی نکلتا ہے کہ   اکہتر سالوں سے جو لوگ مزے لوٹ رہے ہیں انہوں نے اس زندہ اور مردہ باد والی مخلوق کی طرف  کوئی خاص   بلکہ عام سی توجہ بھی نہیں دی ہے۔اگر ان کی توجہ عوام اور عوام سے جُڑے مفاد کی طرف ہوتی تو آج حالات یکسر مختف ہوتے اور  عوام  ان  کے دُکھ سکھ کے ساتھی بنتے۔اندھا آنکھوں کا متلاشی ہوتا ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ اندھا کیا چاہئے دو آنکھیں اور غریب    کو   پوچھو  کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں وہ یہی کہیےگا کہ  چار روٹیاں۔ اور غریب  آج بھی دو روٹیوں کی تلاش میں ہے  جس کی مثال گلگت بلتستان کی تاریخ میں گندم کی سبسڈی ختم  کئے جانے کے بعد کی کامیاب احتجاج سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے  کہ عوام کو  بنیادی حقوق سے زیادہ بنیادی سہولتوں  سے غرض ہے ۔اور آج بھی ٹیکس  یا گندم کی قیمت  بڑھانے کی بات  ہو تو شائد  عوام سڑکوں  میں   آجائے ورنہ   اور کسی  ایشو  کے لئے تو کافی پاپڑ بیلنے  یا جھیلنے پڑینگے۔اس سے یہ مظلب بھی اخذ  نہ کیا جائے کی میں بنیادی حقوق کی  مخالفت   کر نے لگا ہوں   ۔اسے  ایک تجزیہ  کے طور پر لکھ  دیا ہے  ۔ پچھلے اکہتر سال  کی تاریخ  سے  یہ بات  واضح  ہو جاتی ہے  کہ   جی بی میں  آج تک  جو بھی جہد و جہد  کی گئی اس میں  عوام کا مفاد  برائے نام اور تحریکیں چلانے  والوں کے  مفاداتی  عزائم    زیادہ  جھلکتے ہیں ۔ان تنظیموں اور تحریک چلانے والوں  نے ہمیشہ زمینی حقائق  سے نظریں چُرا  کر   لوگوں  کو فضول اور لا حاصل مطا لبات  میں الجھا کر  اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ باتیں  کئی لوگوں  کو   ہضم نہیں ہونگی  جو لکڑ پتھر  سب ہضم کر جا نے کے عادی ہیں  اور  جن کو ڈکار تک نہیں آتی ۔وہ سچ سننے کے عادی نہیں ہیں     سچ   کی گولی  ہمیشہ  ان کے لئے  زہر ہی لگتی ہے۔ خاص کر ان  حضرات کے لئے   جن  کی زبانیں  الحاق   پاکستان کے نعرے اور ریاست جموں و کشمیر سے جی بی  کا  کوئی تعلق     نہیں  ہے  کے جملوں سے تھکتی   نہ تھی۔تعجب کی بات یہ ہے کہ   کچھ مذہبی جماعتیں   اپنی دکانداری  بند  ہونے کے خوف سے  ان کی تقلید میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے  نا خوش  اپنے اصولی موقف سے  رو گردانی  کرتے ہوئے اب اسی ٹولے میں نظر  آتی ہیں – 17 جنوری کا دن   گلگت بلتستان  کی تاریخ میں یاد رکھا جانے والا دن بن گیا ہے ۔مجھے تو یہ دن اس لئے بھی اچھا لگتا ہے کہ  جی بی  میں  ایک فضول قسم کی بحث  جو اکہتر سالوں سے جاری تھی  اس کا اختتام ہوا۔  یہ فضول بحث تو  اس وقت ہی ختم ہونی چاہئے  تھی جب 1999  میں اسی سپریم  کورٹ   نے  اپنے  فیصلے   میں جس کا حوالہ   چیف  جسٹس  نے بھی   دیا ہے ۔ لیکن  بتی کے پیچھے لگانے والوں نے   اس فیصلے  کے اس جملے کی طرف  دہان  ہی نہیں دیا جس میں صاف اور واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ گلگت بلتستان  پاکستان     ریاست جموں و کشمیر  کا حصہ ہے ۔اپنی   پُرانی روش کے تحت  رٹا کیا ہوا سبق  ہی سناتے رہے ۔نہیں  ہم پاکستانی ہیں  ہمیں صوبہ دو۔پاکستان اور ہندوستان  کی تین جنگوں   کی وجوہات  جاننے کے بعد بھی  ہمیں عقل نہیں آئی  کہ   ہمارے حقوق کا راستہ  شاہراہ اسلام آباد  سے  نہیں بلکہ ہمارا  ٹرک شاہراہ کشمیر سے منزل  تک پہنچ سکتا ہے ۔ایسے ہی نا سمجھوں کے لئے  میں اپنے ایک کالم میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والے   کے  لقب  سے نواز چکا ہوں ۔ اب جب کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ  آچکا ہے اور  فیصلے قانون بن جاتے ہیں  ۔فیصلہ حق میں ہوا یا   نہیں        یہ الگ بحث  ہے اور  سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد گلگت بلتستان   ریاست  جموں و کشمیر  کا قانونی حصہ بن گیا ہے۔قانونی چارہ جوئی کا حق جی بی والوں کے پاس موجود ہے  وہ اس  فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں  ۔حکومت پاکستان  کے پاس  اس فیصلے کے علاوہ  اور کوئی راہ ہی نہیں تھی  وہ اس خطے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں   کے مطابق  اپنا  صوبہ کیسا بناتا-پاکستانی عدالت نے اپنے آئین اور  موقف  کو سامنے رکھتے ہوئے  نہ صرف کشمیر کاز کو  نقصان   پہنچنے سے بچایا ہے بلکہ  پاکستانی کنٹرول کو  مزید   عدالتی شکل میں جی بی  تک بڑھا دیا ہے  اب یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے  کہ جی بی میں  سپریم کورٹ  نہیں ہے   ۔ یہاں کے لوگ  کسی بھی کیس کے خلاف سپریم کورٹ میں جا سکتے ہیں ، دیکھا جائے تو    یہ علاقہ ظاہری طور پر متنازعہ حثیت    کی شکل میں نظر آتا ہے لیکن عملاً یہاں کے لوگ آئینی  نہیں   قانونی طور  پر پاکستانی بن گئے ہیں ۔اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ ایک ٹکٹ   دو مزے (بیک وقت متنازعہ بھی اور پاکستانی بھی) کم از کم میں اس ایک ٹکٹ دو مزے   کے نظام  کے حق میں نہیں تفصیل  اس  ایک ٹکٹ  دو مزے  کی پھر کبھی۔میں قانونی  موشگافیوں سے واقف نہیں لیکن  اس فیصلے کو نہ ماننے والے اور قانونی جنگ لڑنے والوں    سے  ایک سوال پوچھنے کی جسارت کرنا  چاہتا ہوں  کہ  وہ جس بین الاقوامی عدالت  کی بات کرتے ہیں    اس عدالت میں تو    ریاست یا ملک  ہی  رجوع کر سکتا ہے ، کوئی فورم یا تنظیم نہیں ۔بلفرض محال   اگر عالمی  عدالت میں  پہنچ بھی گئے تو  اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ اقوام متحدہ  کی قراردادوں  سے پہلو تہی کرکے کوئی فیصلہ دے۔ جبکہ اس  اقوام متحدہ  کی قرارداد میں سرے سے گلگت بلتستان کا نام ہی موجود نہیں ۔اسی تناظر میں دیکھا جائے  تو  فیصلہ نامنظور    ہم عالمی عدالت میں جائینگے  نعرے بھی ٹامک ٹوئیاں ہی  ہیں  اور کچھ نہیں  اگر یہ عالمی عدالتیں اتنی کارگر اور موثر  ہوتی تو  کیا  مسلہ کشمیر اکہتر سالوں سے الجھا ہوا ہوتا ۔ کسی اور کا میں نہیں کہتا کم از کم میں کسی غلط یا خوش فہمی  کا شکار نہیں ہوں  ہم ہمیشہ ایسے مطالبات   اور باتیں  کیوں کرتے ہیں جس کا نہ سر اور نہ پیر  ہوتا ہے اور ایسے مطالبات   جو آسانی سے پورے اور جن کو حاصل کرکے  ہم اپنی قسمت بدل سکتے ہیں ان  کو قابل غور بھی نہیں سمجھتے ۔ماضی کی  پندرہ دن کی عارضی اور عبوری کونسل جو بنا کے دی گئی اسےسنبھال نہیں سکے  اور  اب  جبکہ  جی بی کی حثیت  کو قانونی شکل مل گئی ہے اس کی روشنی میں   اپنا لانحہ عمل تیار کرکے ایک بہتر مستقبل  کی طرف گامزن  ہونے کے بجائے پھر سے بے تکی  گھسے پٹےاور لا حاصل  خواہشات اور مطالبات   کے پیچھے   ۔حد ہوگئی  یار

Short URL: http://tinyurl.com/y8aka7ph
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *