بے لوث

Print Friendly, PDF & Email

افسانہ نگار: در نجف، بھلوال

آنسو تھے جو جو مسلسل بہے جا رہے تھے انجانے خوف نے دل کی دھڑکن بڑھا رکھی اور دل نہیں نہیں کی گردان الاپ رہا تھا ہونی کو کون ٹال سکتا تھا وہ بے بسی سے ماں کو دیکھ رہی جسکا سر وہ گود میں رکھے مسلسل سوچ رہی تھی کہ کیا کرے بالآخر سوچ کے محور کو تھماتے ہوئے اسنے ماں کو سیدھے لٹاتے ہوئے اٹھی اور عبایا اٹھاتے ہوئے جسے اس نے چلتے چلتے ہی پہن لیا تھا دروازے سے باہر نکلی چند قدم اٹھانے کے بعد اس نے گیٹ کے سامنے سے نکلتے دونوں کو روکا۔سنیے پلیز میری مدد کیجئے اسنے ملتجانہ لہجے میں جلدی سے کہا میری امی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ارے بیٹی گھبراؤ نہیں چلو مجھے لے چلو کہاں جانا ہے؟ نفیس سی خاتون نے نرمی بھرے لہجے میں کہا۔یہ یہ بلکل ساتھ ہی گھر ہے میرا اس نے جلدی سے کہا اور تیز تیز قدم اٹھاتی دروازہ کھول کر داخل ہو گئی۔وہ اپنی گاڑی کو گھورتے وہیں رک گیا اور انتظار کرنے لگا اور بے دلی سے سوچنے لگا پتہ نہیں کتنا ٹائم لگے اچانک فون بجا اور اسنے جلدی سے فون پک کرتے ہوئے سلام جھاڑا
دوسری طرف سے خوبصورت آواز ابھری کہاں ہو تم
ارے یار سلام کا جواب تو دے دیا کرو۔
اسنے پیار بھری سرزنش کرتے ہوئے کہا
ھاں وعلیکم السلام کتنی دیر سے ویٹ کر رہے ہیں اور تمہیں کوئی پرواہ ہی نہیں حد ہوتی ہے آزر تمہیں پتہ بھی ہے ویٹ کرنا مجھے سخت نا پسند ہے پھر بھی تم ویٹ کراتے ہو شاید ادھر سے غصے کا اظہار کیا گیا تھا
سبین سانس لے لو شروع ہو جاتی ہو بولنے کا موقعہ تو دے دیا کرو آزر بے بسی سے بولا
لو اب بولنے پہ بھی اعتراض ہے سبین دکھی ہوتے ہوتے ہوئے بولی
میں بتانے والا تھا ابھی……سنیے اس سے پہلے کہ آزر بات کمپلیٹ کر پاتا لڑکی کی آوز پہ پلٹ کر دیکھا
لڑکی نے روئے سے لہجے میں آپکی امی بلا رہی ہیں آزر نے لڑکی کو پہچان لیا یہ وہی تھی جو ابھی کچھ دیر پہلے آئی تھی لڑکی جا چکی تھی آزر نے پھر فون کان کے ساتھہ لگاتے ہوئے کہا سبین میں کرتا ہوں کال ویٹ کرو۔سبین نے غصے سے کہا کیوں کروں ویٹ ابھی آؤ اور کس سے بات کررہے ہو کہاں ہو؟ کہا نا کرتا ہوں کال آزر نے فون کٹ کرتے ہوئے اسی کے پیچھے قدم بڑھا دیئے اندر پہنچ کر آزر نے ادھر ادھر دیکھ کوئی نظر نہیں آیا تو وہ وہیں رک گیا اچانک آواز آئی اس طرف آیئے لڑکی منتظر سی بولی آزر نے آگے بڑھتے ہوئے اثبات میں سر ھلا دیا برآمدہ عبور کر کے وہ روم میں داخل ہوا تو اسکی امی افسردہ سی کھڑی تھیں آزر آگے بڑھا اور بیڈ پہ پڑے ساکت وجود کو دیکھتے ہوئے نبض چیک کرنے لگا اگلے ہی لمحے اسنے گویا بجلی گرا دی ہو سوری یہ اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔لڑکی نے لڑکھڑا کر دیوار کا سہارا لیا اور بیٹھتی چلی گئی آنسو کو رستہ مل گیا آزر کی امی نے سہار دیا اور اسے سینے سے لگا لیا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہی ایسی کیا آفت پڑ گئی جو آ نہ سکے سبین کی ماں خفگی سے بولیں میرے دل میں تو حول اٹھ رہے ہیں پتہ نہیں یہ رشتہ ہو گا بھی یا نہیں……..اف اللہ اماں کتنا ڈراؤ گی ٹینشن دے رہی ہو خوامخوہ اک وہی نہی رہ گیا دنیا میں توبہ ہے کیا کمی ہے مجھ میں؟ دفع کریں اسے سبین نے اتراتے ہوئے کہا وہ تو اسکی دولت نے مجھے اسکا دیوانہ بنا رکھا ہے ورنہ میں تھوڑی مری جا رہی۔اللہ تیرے حال پہ رحم فرمائے بچی یہ کن راستوں پہ چل پڑی ہے تو روز تیرے ابا کے آگے بہانے بناتی ہوں تیرے کرتوتوں پہ پردہ ڈالتی رہتی ہوں لیکن یہ آخری بار ہے اسکے بعد میں سختی سے پیش آؤں گی اور سبین بیبس سی ماں کا منہ دیکھنے لگی 
سبین غربت سے تنگ تھی وہ ہمیشہ ایسے دوست بناتی جو کافی امیر ہوں اور اسکا تیر صیحح نشانے پہ جا لگتا آزر سے اسکی ملاقات ایک پارٹی میں ہوئی تھی وہ ایک پڑھا لکھ خوبرو نوجوان تھا سبز آنکھوں والا وہ دیکھتے ہی اسکی اسیر ہو گئی پھر بہت مشکل سے اس تک رسائی حاصل کی کتنی تگ و دو کے بعد اسے اس محنت کا پھل ملنے جا رہا تھا گاڑی بنگلہ اک لگثری لائف۔ نہیں نہیں منزل مجھ سے دور نہیں ہو سکتی وہ خود سے الجھتے ہوئے بولی اور فون ڈھونڈنے لگی کدھر گیا وہ ٹیبل پہ پڑے فون کی طرف لپکی نمبر ڈائل کیا اور بے چینی سے ٹہلنے لگی اف آزر فون اٹھاو لیکن فون بزی کر دیا گیا وہ بے حال بیڈ پہ جا گری۔ بھوری آنکھوں سے آنسو گرنے لگے سلیقے سے کٹے بالوں نے خوبصورت چہرے کا حصار کر لیا کاجل بھرے نینوں میں سرخ ڈورے پڑنے لگے ناجانے روتے روتے کب اسے نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹی کچھ کھا لو آج کتنے دن ہو گئے نہ ٹھیک سے کھاتی ہو نہ پیتی ہو مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جا سکتا اللہ انکی مغفرت فرمائے آمین دیکھو بیٹی تم اس طرح کرو گی تو تمہاری ماں بھی بے چین ہو گی بس ان کے واسطے پڑھایی کرو جو انکے کام آئے یوں رونے سے کیا ہو گا چل میری بیٹی منہ ھاتھ دھو لے میں تمھارے لئے کھانا لائی ہوں جبین نے اسکے بال سنوارتے ہوئے کہا اور وہ پتھر سی بیڈ پہ بیٹھی جبین کو دیکھ کر پگھل سی گئی جھٹ سے جبین بیگم کے گلے لگ کر خووب روئی اماں مجھے کس کے سہارے چھوڑ گئیں میرا کوئی نہیں تھا ان کے سوا میں کیا کروں گی کیسے جیؤں گی میں ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں وہ اپنا دکھ سنا رہی تھی اور جبین بیگم بھی رو رہیں تھیں بس کرو میری بچی اللہ بہت مہربان ہے تیرے لئیے بھی کچھ سوچ رکھا ہو گا 
مشال ایک خوبصورت اور پڑھی لکھی لڑکی تھی اور زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتی تھی نویں کلاس کی طالبہ تھی جب باپ کے سائے سے محروم ہو گئی ماں نے بہت اچھی پرورش کی وہ خود بھی ایک صابر خاتون تھیں اور وہ بھی انہی کا پرتو تھی اکلوتی وارث تھی اتنی بڑی جاگیر کی جسے وہ سنبھال رہی تھی لیکن جہاں سمندر ہو وہاں مچھ بھی ھوا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزر حسین آفس کے کاموں میں الجھ گیا کچھ نیا سٹاف بھی تھا کام بڑھتا جا رہا تھا کافی لیٹ گھر آتا وہ سبین کو مسلسل نظر انداز کر رھا تھا اسے معلوم تھا وہ ناراض ہوگی کتنی بار سوچ کر رہ گیا کہ فون کرے وہ اسکی بک بک مس کر رھا تھا لیکن وہ اسے سرپرائز دینا چاھتا تھا اس نے سوچا صبح ضرور اسے ملوں گا گندمی رنگت والی بھوری آنکھوں والی دبلی سی نخریلی لڑکی اسکے دل میں گھر کر گئی آزر سبین کو بے پناہ چاھتا تھا اس دن وہ سبین کے گھر رشتہ مانگنے جا رہے تھے لیکن مشال کی والدہ کی وجہ سے نا جا سکے آزر اور جبین بیگم نے ہی تدفین کرائی جبین بیگم مشال کے پاس رکی تھیں چالیسویں کے بعد وہ گھر آ گئیں اور مسلسل کھوئی سی رہنے لگیں اسی وجہ سے وہ بی پی ھائی کر لیتں دن گزرتے گئے آزر نے دوبارہ جبین بیگم کو سبین کے گھر جانے کو راضی کر لیا اور وہ خوشی خوشی آفس کے لئے نکلا وہ جیسے ہی نکلا دائیں جانب اس کی نگاہ پڑی اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا وہ سبین تھی جو گاڑی میں کسی کے ساتھ محو گفتگو تھی اسکے دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی نکل گئی وہ جیسے ہوش میں آیا اس نے سبین کا نمبر ڈائل کیا۔
ھلو سبین نے فون اٹھایا
آزر نے خود پہ قابو پا کر کہا کہاں ہو۔ میں شہر سے باہر ہوں سبین نے اکتائے لہجے میں کہا۔ آزر نے مختصراً کہا ہممممم ملنا چاہتا ہوں؟
سبین نے سوچتے ہوئے کہا میں صبح تک آ جاؤں گی ملتے ہیں۔
آزر نے کال کاٹ دی۔دل جیسے کھائی میں جا گرا جھوٹ آزر نے دانت پیستے ہوئے کہا کیوں؟ سبین کیوں؟ وہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔ادھر جبین بیگم مشال کیلئیے فکرمند تھیں ان کا بس چلتا تو وہ اسے اپنی بیٹی بنا لیتیں لیکن مجبور تھیں ادھر آزر ساری رات جلتا کڑھتا رھا پوری رات وہ جاگتا رہا دل نے کتنی صفائیاں پیش کیں سبین کے حق میں لیکن زہن ہر دلیل کو ماننے سے انکاری تھا فیصلہ پینڈننگ چھوڑ کر وہ صبح کا انتظار کرنے لگا صبح ھوتے ہی اس نے فون اٹھایا اور سبین سے بات کی۔ میں دس بجے تمہارا ویٹ کروں گا یہ کہہ کر اس نے کال کاٹ دی۔طے شدہ مقام پہ وہ دونوں آمنے سامنے تھے سبین اسے دیکھ کر سوچ میں پڑ گئی اسے کیا ہوا ہے یااللہ خیر کرنا یہاں تو کوئی ہے بھی نہیں جو بچا لے کہیں مجھے مار دیا تو سبین
نے ادھر ادھر دیکھا پارک ابھی خالی تھا یہاں دوری کی وجہ سے آمدورفت کم تھی دھڑکتے دل کے ساتھ وہ گویا ہوئی۔ آآآآزر کککیا ہوا ہے تم تمنے کیا حال بنا رکھا ہے؟
محمود کے ساتھ کہاں گئی تھی وہ زہر خند لہجے میں بولا۔
کون کون محمود؟ آزر نے غص سے گھورا۔ اچھا اچھا محمود شاہ تمہارا دوست اسے پتہ چل گیا تھا کہ آزر نے اسے محمود کے ساتھ دیکھ لیا وہ کمال ہوشیاری سے بولی۔ مجھے شاپنگ کے لئیے جانا تھا تو اس نے کہا کہ میں چھوڑ دیتا ہوں جبکہ میں نے منع بھی کیا تھا۔ لیکن وہ نہیں مانا تو میں چلی گئی آزر یہ سنکر نرم پڑ گیا مجھے بھی کال کی جا سکتی تھی نا؟
سبین نے منہ بناتے ہوئے کہا تم کب اٹھاتے ہو کال میری۔
آزر مسکرایا اچھا چلو شاپننگ کرادوں۔سبین نے اک مطمئن نگاہ ڈالتے ہوئے آزر کو دیکھ کر کہا بہت ساری
آزر نے مسکرا کر کہا اوکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبین بیگم آزر کے ساتھ سبین گھر آئیں سبین گھر پر نہیں تھی آزر بھی حیران تھا کہ آج کہاں بزی ہے؟
سبین کے والدین شرمندہ سے بیٹھے تھے جبین بیگم کو اچھا نہیں لگا آزر ٹیکسٹ پہ ٹیکسٹ کر رھا تھا سبین کی وآپسی دو گھنٹے بعد ہوئی آ تے ہی سلام جھاڑا اور من گھڑت کہانی سنا دی اور دیری کی وجہ بتائی جبین بیگم نے اسکے حلیے پہ نگاہ ڈالی فٹ لباس اور میک اپ سے لتھڑا چہرا مصنوعی مسکراھٹ جبین بیگم نے جلدی سے کہا چلو بچے کافی دیر ہو گئی ہے آزر کی طرف دیکھ کر انہوں نے دبے لفظوں میں برہمی سے کہا۔ آزر فوراًاٹھ گیا گھر آتے ہی آزر کو جھاڑ پلا دی۔ یہ ہے تمہاری پسند زرا دیکھو تو کیسے بنی سنوری تھیں اور کہے جا رہیں کہ دوست کی عیادت کو گئیں تھیں آزر میرے بچے مجھے لڑکی پسند نہی ہے آگے تمہاری مرضی۔
آزر خاموش تھا امی جان وہ دھیرے دھیرے سمجھ جائے گی جب شادی ہو گی تب آپ اسے سمجھا لیں
نا۔آزر نے جیسے ھار مان کہ ایک حل پیش کیا۔ جبین بیگم نے نفی میں سر ھلایا مشکل ہے بہر حال جیسے تمہاری مرضی بیٹا۔ امی مجھے کچھ کام ہے میں گھنٹے تک آتا ہوں ڈرائیور میرے ساتھ ہے پریشان مت ہوئیے گا آزر نے احترام سے ماں کا ھاتھ چوم کر اجازت چاہی جبین بیگم نے دعاؤں کے حصار میں آزر کو رخصت کیا جبین بیگم اٹھیں اور مشال کو فون کیا کہ یہیں آجائے کچھ دیر وہ ٹی وی دیکھتیں رہیں پھر مشال آ گئی اور وہ باتیں کرنے لگی اچانک فون بجا اور جبین بیگم کا دل ڈول گیا انہوں نے فون سنا اور دل پہ ھاتھ رکھتے ہوئے بولیں ھائے میرا بچہ مشال پریشان ہو کر بولی آنٹی کیا ہوا مشال پانی لے کر آئی اور وہ سکتے کے عالم میں بیٹھیں تھیں مشال نے نے بازو سے پکڑ کر ھلایا آنٹی ھوش میں آئیں پانی پیءں زبردستی مشال نے پانی پلایا وہ خود بھی بہت پریشان ہو گئی تھی جبین بیگم اٹھیں اور مشال کا ھاتھ پکڑ کر بولیں ہاسپٹل جانا ہے چلو میرے ساتھ مشال پریشان سی ان کے سنگ ہو لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبین اور محمود کی ملاقاتیں بڑھنیلگیں تھیں مگر محمود شاہ اس بات سے ناواقف تھا کہ آزر اور سبین کا افئیر تھا محمود شاہ کئی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھا مشال کے منیجر کا بھی محمود شاہ سے رابطہ تھا وہ مشال کی پراپرٹی پر نظر جمائے ہوئے تھے لیکن مشال بہت سوچ کر قدم اٹھا رہی تھی اسی وجہ سے منیجر کی ہر چال الٹ پڑ رہی تھی اور وہ کسی سانپ کی طرح پھن پھلائے موقع کی تاڑ میں تھا۔
سبین آزر سے دور ہوتی جارہی تھی اور محمود شاہ سے نزدیکیاں بڑھنے لگییں اس کا اثر و رسوخ اور آزادانہ خیالات اسے اپنی طرف مائل کرنے کے لئیے کافی تھے وہ یہ بھول گئی کہ ایسے لوگ عورت کو ایک ٹشو پیپر سمجھتے ہیں زندگی اپنی ڈگر پہ رواں دواں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزر کا ایکسیڈنٹ کافی سیریس تھا ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی اور ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی جبین بیگم بیٹے کی
یہ حالت دیکھ کر ٹوٹ سی گئیں ادھر مشال بھی آزر کو پسند کرتی تھی لیکن اسنے کبھی ظاھر نہیں ہونے دیا کافی دنوں بعد ڈاکٹرز نے آزر کو گھر جانے کی اجازت دے دی آزر بیتابی سے ویٹ کرتا رہا کہ ابھی آئے گی سبین مگر سبین کو نہ آنا تھا نہ وہ آئی نہ کال کی۔ آزر نے کئی بار کال کی مگر نمبر بند تھا اس سارے عرصے میں آزر نے مشال کو نہیں دیکھا تھا وہ پردے میں ہی رہتی تھی گھر آتی تو بھی کم ہی آمنا سامنا ہوتا تھا جبین بیگم بیٹے کو لیکر دکھی تھیں انہوں فیصلہ کر لیا کہ سبین کو بہو بنا لیں اسی غرض سے وہ سبین کے گھر بیٹے کو بنا بتائے کئی بار جا چکیں تھیں لیکن سبین نے صاف انکار کر دیا کہ آزر کی بینائی جا چکی ہے۔جبین بیگم بیٹے کو اندھیرے میں نہیں رکھنا چاھتیں تھیں انہوں نے سب کچھ آزر کو بتادیا لیکن آزر نے کمال ضبط سے سب سہن کر لیا جبکہ ڈاکٹرز کہہ چکے تھے آزر کی بینائی وآپس آ سکتی ہے آزر ابھی چلنے کے لائق نہیں تھا۔
جبین بیگم مشال کے گھر آئیں تو مشال لیپ ٹاپ کھولے کام میں مگن تھی۔اسلام علیکم بیٹا۔مشال نے چونک کر دیکھا تو والہانہ جبین بیگم کے گلے لگ گئی وعلیکم السلام آنٹی مجھے بلا لیتیں آپ زحمت ہوئی آپکو۔ ارے نہیں بیٹا زحمت کیسی اصل میں میں تم سے ملنا چاہ رہی تھی اور مجھے ہی آنا تھا جبین بیگم مسکرا کر بولیں۔ جی جی آپ بولیں آپ چائے پیں گی ارشاد۔۔۔ارشاد۔۔۔۔ مشال نے ملازمہ کو آواز دی۔ جی بیبی جی ارشاد نے حاضری دیتے ہوئے کہا۔ آپ چائے لے آئیں۔مشال نے ملازمہ سے کہا اور ملازمہ غائب ہو گئی۔
جی آنٹی اب کہیئے۔ مشال نے انکا ھاتھ تھام کر کہا۔جبین بیگم زرا توقف سے بولیں۔ مشال تم مجھے بہت عزیز ہو بہت پسند ہو میں تمہیں بیٹی سمجھتی ہوں جبین بیگم کی آواز کپکپا رہی تھی بہو بنانا چاھتی ہوں۔مشال نے ایک دم جبین بیگم کا ھاتھ چھوڑ دیا اور سر جھکا لیا۔جبین بیگم نے گبھرا کر اب مشال کے ھاتھ تھام کر کہا کک۔کوئی زبردستی نہیں میری بچی تم۔۔تم جو بھی فیصلہ کرو مجھ سے میری بیٹی نہ چھیننا۔مشال نے ھاتھ چھڑا کر کہا بیٹی بھی کہتی ہیں اور میرے دل کی بات بھی نہیں جانتیں مائیں تو بیٹیوں کے حال سے بخوبی
واقف ہوتی ہیں۔جبین بیگم بھرائے لہجے میں بولیں میں جانتی تھی 
مشال پر اب حالات یکسر بدل چکے ہیں آزر کی جو حالت ہے تم جانتی ہو۔ امی مجھے آزر پسند ہیں وہ جس حال میں بھی ہوں میں انکا ساتھ دوں گی اور یہ میں ماں سے کہہ رہی اب آپ آزر کی امی بنکر سوچیں مشال نے سنجیدگی سے کہا اور جبین بیگم پھولے نہ سمائیں چائے آ گئی اور دونوں چائے پینے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزر حسین کی طبعیت کچھ سنبھلی اور وہ چلنے پھرنے لگا جبین بیگم نے شادی میں دیر نہ لگائی مشال آزر کی دولہن بن کر آ گئی جبین بیگم بہت خوش تھیں مشال نے آتے ہی گھر کی زمہ داری سنبھال لی اسکے آنے سے رونق سی ھو گئی آزر کسی طور بھی سبین کو بھلا نہیں پا رہا تھا اس نے کئی بار رابطے کی کوشش کی نمبر بند جا رہا تھا اور گھر پہ کوئی بھی نہیں تھا آخر اسنے اپنے سورسز سے پتہ لگایا تو پتہ چلا محمود شاہ اور سبین اسکے گھر والے غائب تھے۔وہ جو جینے مرنے کی قسمیں کھاتی تھی اور اس کی ہر بات ماننے والا آزر حسین اسکے بچھائے جال میں الجھتا چلا گیا کتنا اعتبار تھا اس پر اور وہ کیسے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ گ?ئی تھی۔وہ ٹوٹ سا گیا وہ اکثر سوچتا سبین اگر یہ تمہارے ساتھ ہوتا تو خدا کی قسم میں تمہارا ساتھ دیتا یوں چھوڑ کر نہ بھاگتا پر اچھا ہی ہوا ہر انسان کو بہتری کا سوچنا چاہیے۔ اب وہ پوری توجہ اور ٹائم اپنی فیملی کو دینے کا تہیہ کر چکا تھا وہ مشال کے متلعق سوچ رہا تھا کتنی معصوم اور پاکیزہ لڑکی ہے اتنی خامیوں سمیت مجھے قبول کیا اور اک وہ ہے جسے میں نے سب کچھ سونپ دیا تھا خود غرض عورت جسے صرف پیسہ اور آزادی چاھیے تھی میں اسکے بارے سوچ ہی کیوں رہا ہوں وہ اس قابل نہیں کہ اس کے بارے سوچا جائے اس نے اپنی پھیگی پلکوں کو بے دردی سے رگڑا اور اک نئی زندگی کی شروعات کی وقت گزرتا گیا آزر نے مشال کا بزنس سنبھال لیا اور سارا سٹاف تبدیل کر دیا وہ اپنی پوری توجہ گھر اور بزنس پہ دے رہا تھا شادی کے دو سال بعد خدا نے اسے بیٹے کی نعمت سے نوازا وہ بہت خوش تھا سبین تو اب بھولی بسری یاد بن چکی تھی۔

آفس سے وآپسی پر آزر کے سر میں بہت درد تھا وہ بمشکل ڈرائیو کر کے گھر پہنچا اور سر تھامتے ہوئے اپنے روم میں چلا گیا مشال دوڑی کیا ہوا ہے آپکو؟ آزر نے کہا مشال ڈاکٹر کو فون کرو۔مشال نے فون کر دیا جبین بیگم نے کمرے میں میں داخل ہوتے ہوئے فکر مندی سے کہا کیا ہوا بچے؟
آزر نے بہلاتے ہوئے کہا کچھ نہیں امی تھوڑا سر بھاری ہو رہا ہے۔مشال فورا بولی امی میں نے ڈاکٹر کو فون کیا ہے ابھی آتے ہوں گے ان کی باتوں کے دوران ہی فملیی ڈاکٹر ریحان شیخ آگئے انہوں نے چیک اپ کرنے کیبعد کہا ہاسپٹل جانا ہو گا اور وہ ہاسپٹل پہنچے جبین بیگم بہت گھبرا سی گئیں مشال حوصلہ دیتے دیتے خود بھی رو پڑتی کافی دیر بعد ڈاکٹر صاحب آئے اور کہا مبارک ہو آزر کی بینائی وآپس آ رہی ہے کچھ احتياطی تدبیر کرنا ہوں گی اور کچھ دوائیاں دے رہے ہیں انشائاللہ جلد بہتری ہو گی
ڈاکٹر جا چکا تھا دونوں بہت خوش تھیں اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے بیشک تیری رحمت کا کوئی شمار نہیں تیری رحمت کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں ہم ہی نا شکرے ہیں فرط جزبات سے جبین بیگم رونے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزر اب دیکھنے لگا تھا اور وہ ہر وقت رب کا شکر ادا کرتا رہتا پنجگانہ نماز ادا ادا کرتا اور لوگوں کی مدد کرتا رہتا آج وہ آفس پہنچا تو سبین اسکی منتظر تھی وہ اسے دیکھ کر اجنبی لہجے میں بولا۔جی فرمائیے۔سبین حیرت سے بولی شاید تم نے مجھے پہچانا نہیں۔ آزر نے فائل کھولتے ہوئے کہا میں آپکو پہچاننا بھی نہیں چاھتا۔ میں بزی ہو ں۔ سبین حیرت سے بولی آزر اسطرح مت کرو میں شرمندہ ہوں پلیز مجھے معاف کر دو سبین کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔دیکھیے محترمہ میں بہت بزی ہوں کس سلسلے میں آپ یہاں تشریف لائی ہیں آزر نے سخت لہجے میں کہا۔ میں نے محمود سے شادی کر لی تھی وہیں سے میرا زوال شروع ہو گیا تمہارے ایکسڈنٹ کے بعد میں نے سوچا اب تم اس قابل نہیں رہو گے کہ چل سکو دیکھ سکو تو میں نے محمود کے ساتھ
شادی کر لی کچھ عرصہ بہت اچھا گزرا اس کے بعد اسکی اصلیت کھلنے لگی سبین دکھ بھرے لہجے میں بول رہی تھی اور آزر منہ پھیرے برائے نام بزی ہونے کی ایکٹنگ کر رھا تھا۔
اس نے مجھے اپنے مقاصد پورے کرنے کے لی?ئے اپنی زندگی میں شامل کیا مجھے اک فائل دیتا اور کسی درندے کے آگے پھینک دیتا پورے ڈیڑھ سال تک وہ مجھے اسی جہنم میں جھونکتا رہا شراب کے نشے میں مجھے مارتا پیٹتا اور نشہ اترنے کیبعد مسیحائی کرتا روز مار کھا کھا کر اور زلت بھری زندگی سے تنگ آگئی تھی ماں باپ کو بھی قید کر لیا اس نے اور وہیں وہ چل بسے۔ ایکدن میں نے بھاگنے کا پلان بنایا اسی وقت پولیس نے ریٹ کیا اور میں اپنے روم کے خفیہ تہہ خانے میں چھپ گئی۔ پھر جب طوفان تھما تو مجھے پتہ چلا محمود مارا گیا اسکی سبھی پراپرٹی میرے نام تھی اب گرتے پڑتے تم تک پہنچی ہوں میں نے یہ ساری تمہارے نام کردی ہے اسے کسی اچھی جگہ خیرات کر دینا وہ جیسا بھی تھا شوہر تھا میرا میں نے اسے معاف کر دیا ہے آخری بار تم سے ملنے آئی ہوں اپنے کی?ے پر شرمندہ ہوں تمہارا اعتبار تمہارا مان تمہرا دل توڑا تھا جس کی سزا بھگت رہی میں میں بلکل نہیں کہوں گی مجھے معاف کرو بس اپنے مطلب سے آئی تھی یہ فائلز دینے سبین چند لمحے دیکھتی رہی لیکن دوسری طرف خاموشی تھی آزر فائل چیک کرنے میں مگن تھا۔ سبین تھکے تکھے قدموں سے باہر کو چل دی۔ آزر اسے جاتا دیکھتا رہا اسکے اندر کوئی چیخ رہا تھا روک لو اسے لیکن وہ بت بنے دیکھتا رہا سبین جا چکی تھی اور وہ خالی نظروں سے دروازہ دیکھ رہا تھا یکدم شور نے اسے چونکایا تو وہ باہر چلا آیا آفس سے باہر لوگوں کی بھیڑ جمع تھی اس نے آگے بڑھ کہ دیکھا تو دل کی دھڑکن رکتی محسوس ہوئی کسی گاڑی کی زد میں آئی خون میں لت پت سبین اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی آزر کو دیکھتے ہی اس نے ھاتھ جوڑ دیئے آزر نے جھک کر اسے اٹھایا اور اپنے آفس روم میں پڑے صوفے پہ لٹایا۔باتیں بہت تھیں لیکن سبین کی زبان ساتھ چھوڑ چکی تھی اس نے ایک بار پھر ھاتھ جوڑ دئیے جسے آزر نے تھام کر کہا سبین میں نے تمہیں معاف کیا سبین نے آخری سانس لی اور آزر کے ھاتھوں میں دم توڑ دیا۔

Short URL: http://tinyurl.com/ycfbr3bc
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *