ایفائے عہدقرآن وحدیث کی روشنی میں ۔۔۔۔ حافظ کریم اللہ چشتی، پائی خیل

Hafiz Kareem Ullah Chishti
Print Friendly, PDF & Email

ارشادباری تعالیٰ ہے ۔’’اورعہدپوراکروبے شک عہدسے متعلق سوال ہوناہے ‘‘۔(سورۃ بنی اسرائیل34)۔
ایفاء کے معنی ہیں پوراکرنا،مکمل کرنا،عہدایسے قول اورمعاملے کوکہاجاتاہے جوکہ طے ہویعنی کہ ایفائے عہد’’وعدہ پوراکرنا‘‘اپنے قول کونبھانا، اس پرقائم رہناہیں ۔وعدہ اورعہدکی پابندی کرناایفائے عہدمیں شامل ہے ۔ایفائے عہدنہ کرنے سے آدمی کااعتباراُٹھ جاتاہے۔ اعتباراور اعتماد کے بغیرخوشگوارمعاشرتی زندگی محال ہے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے ۔’’وہ جواللہ کاعہدپوراکرتے ہیں اورقول باندھ کرپھرتے نہیں ‘‘۔(سورۃ الرعد)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضوراکرم نورمجسمﷺنے فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا!تین اشخاص سے میں قیامت کے دن جھگڑا کروں گاایک وہ شخص جس نے میرے نام پروعدہ کیااورپھروعدہ خلافی کی اورایک وہ شخص جس نے کسی آزادانسان کوبیچااورپھراس کی قیمت کھاگیااورایک وہ شخص جس نے کسی سے اجرت پرکام کرایااس نے کام توپورالے لیالیکن اجرات ادانہ کی ‘‘۔(بخاری)۔
حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ سے مروی ہے کہ حضورنبی کریمﷺنے ارشادفرمایا’’چارخصلتیں جس شخص میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اورجس کے اندران میں سے ایک خصلت موجودہواس کے اندرنفا ق کی ایک خصلت موجودہے حتیٰ کہ وہ اس کوترک کردے جب اس کوامانت سونپی جائے تووہ اس میں خیانت کرے ۔جب بات کرے توجھوٹ بولے ۔جب عہدکرے توعہدشکنی کرے اورجب جھگڑاکرے توبیہودہ بکواس کرے‘‘۔(بخاری ومسلم)حضرت ابوسعیدخدریؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺنے ارشادفرمایا’’قیامت کے دن ہروعدہ خلافی کرنے والے کی سرین کے پاس ایک جھنڈاہوگاجسے اس کی وعدہ خلافی کی مناسبت سے بلندکیاجائے گا۔خبردارکوئی وعدہ خلاف اپنی وعدہ خلافی میں (عہدشکن)امیرِ عمومی کی وعدہ خلافی سے بڑھ کرنہ ہوگا۔(مسلم شریف)۔
حضوراکرم نورمجسم ﷺکی حیات طیبہ سے ایفائے عہدکے بے شمارایمان افروزواقعات کی مثالیں ملتی ہیں ۔رحمۃ اللعالمین اپنے تواپنے دشمنوں سے بھی کیے گئے وعدے بھی پورے فرماتے تھے ۔چاہیے ایساکرنے میں نقصان کااندیشہ ہی کیوں نہ ہوتا۔جس وقت غزوہ بدرمیں مسلمانوں کی تعدادکافروں کے مقابلے میں بہت کم تھی ۔اس موقع پردوصحابی رسولﷺحضرت حذیفہ بن الیمانؓ اورابوجبلؓکفارکے ہاتھ لگ گئے ۔اس وقت مسلمانوں کوایک ایک آدمی کاضرورت تھی کیونکہ مسلمانوں کی تعدادبہت کم تھی ۔کفارنے ان دونوں کواس شرط پررہاکیاکہ وہ کفارکے خلاف مسلمانوں کے لشکرمیں شامل ہوکرجنگ میں شریک نہ ہوں گے ۔انہوں نے واپس آکرحضوراکرمﷺکی خدمت اقدس میں ساراواقعہ سنادیا۔ اورعرض کیایارسول اللہﷺہم نے یہ عہدمجبوری کی حالت میں کیاتھا۔ہم کفارکے خلاف ضرورلڑیں گے ۔توآپﷺنے فرمایا’’ہرگزنہیں تم اپناوعدہ پوراکرواورلڑائی کے میدان سے واپس چلے جاؤ،ہم مسلمان ہرحال میں وعدہ پوراکریں گے ۔ہمیں صرف خداکی مددکی ضرورت ہے‘‘۔ حضوراکرمﷺکی حیات طیبہ سے ایفائے عہدکاایک خوبصورت واقعہ ہے ۔صلح حدیبیہ کے موقع پرجوشرائط طے پائی تھیں ۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اگرکوئی مسلمان مکہ مکرمہ سے بھاگ کرمدینہ منورآجائے تواسے مدینہ منورہ والوں نے واپس کرناہوگا۔صلح کے بعدمکہ سے ایک نوجوان مسلمان حضرت ابوجندلؓ اس حالت میں بھاگ کرآئے کہ ان کے پاؤں زنجیرں سے بندھے ہوئے تھے ۔انہوں نے حضورﷺسے التجاکی کہ مجھے اپنے ہمراہ لے چلیں لیکن آپﷺتووعدہ کرچکے تھے ۔اس لئے آپﷺنے اسے پوراکیااورانہیں قریش کے حوالے کردیا۔اس منظرکودیکھ کر صحابہ کرام علیہم الرضوان رونے لگے لیکن آپﷺنے معاہدے کی خلاف ورزی گوارہ نہیں کی ۔
آج کے پُرفتن دورمیں ہم وعدہ توکرتے ہیں پراس وعدہ کوپورانہیں کرتے ۔ہمارے ذہن میں یہ ہوتاہے کہ وعدہ پورانہ کیاتوکیاہوگا۔پر ہمیںیہ معلوم نہیں کہ وعدہ پورانہ کرنے سے دنیاوالے بھی اعتبارکرناچھوڑدیتے ہیں اورقیامت کے دن بھی اس کی بازپُرس ہوگی جس سے ہم کونجات نہ ہوگی ۔توہمیں ایساوعدہ نہیں کرنا چاہیے جس کوہم پایہ تکمیل تک پہنچانہیں سکتے ۔ہمیں اپنی چادردیکھ کرپاؤں پھیلانے چاہییں ۔بلندوبانگ دعوؤں سے بازرہیں ۔
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔’’اوراللہ کاعہدپوراکروجب قول باندھواورقسمیں مضبوط کرکے نہ توڑواورتم اللہ کواپنے اوپرضامن کرچکے ہوبے شک اللہ تمہارے کام جانتاہے ‘‘۔(سورۃ النحل91)۔
حضرت عبداللہ بن ابی الخمساءؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺکی نبوت سے قبل میں نے آپﷺسے کوئی چیزخریدی اورکچھ رقم باقی رہ گئی میں نے آقاﷺسے عرض کیایارسول اللہﷺآپ یہیں ٹھہریں میں باقی رقم لے کرحاضرہوتاہوں ۔لیکن میں دوسرے کامو ں میں بھول گیا اورتین روزبعدمجھے یادآیا،میں نے وہاں پہنچ کردیکھاکہ آپﷺاسی جگہ پرتشریف فرماہیں ۔قربان جاؤں رسولوں کے سردارنبی مختارجناب احمدمجتبیٰ محمدمصطفیﷺکی ذات پرآپﷺنے صرف اتنافرمایا’’تم نے مجھے تکلیف میں ڈال دیا،تین دن سے اسی جگہ تمہارا انتظار کر رہا ہوں ‘‘۔
حضرت عبداللہ بن مبارک ایک مرتبہ جہادمیں ایک کافرسے برسرپیکارتھے ۔کہ نمازکاوقت ہوگیاآپؒ نے کافرسے اجازت چاہی اورنمازادا کرلی۔پھرجب اس کافرکی عبادت کاوقت ہواتواس نے بھی اجازت چاہی ۔اوراپنے بت کی جانب متوجہ ہوا۔توحضرت عبداللہ بن مبارکؒ کے دل میں اس کوقتل کردینے کی خواہش پیداہوئی ۔چنانچہ آپؒ نے تلوارکھینچی اوراس پرحملہ کرنے کی خاطراس کافرکے قریب پہنچے ہی تھے کہ ندائے غیبی آئی کہ ہماری اس آیت مبارکہ کے مطابق’’وَاَوْفُوْبالعھدان العھدکان مسؤلا‘‘یعنی’’ تم سے قیامت میں عہدشکنی کی بازپرس ہوگی لہذااپنے قصدسے بازآجاؤ‘‘یہ ندا سنتے ہی آپؒ روپڑے اس کافرنے جب دیکھاکہ آپؒ تلوارکھینچ کررورہے ہیں توکافر نے رونے کاسبب دریافت کیاتوآپؒ نے پوراواقعہ بیان کردیایہ سن کراس کافرکوخیال آیاکہ جوخدااپنے دشمن کی وجہ سے اپنے دوست پرناراض ہواس کی اطاعت نہ کرنابزدلی ہے اوراس خیال کے ساتھ ہی وہ سچے دل سے مسلمان ہوگیا۔(تذکرۃ الاولیاء)۔
ایک دن امیرالمومنین سیدناحضرت عمرفاروقؓ کاسادہ دربارِ خلافت سرگرم انصاف وعدل تھا۔اکابرصحابہ کرام علہیم الرضوان موجودتھے ۔مختلف معاملات پیش ہوہوکرطے ہورہے تھے کہ اچانک ایک خوش رونوجوان کودونوجوان پکڑے ہوئے لائے اورفریادکی ’’یاامیرالمومنین !اس ظالم سے ہماراحق دلوائیے اس لئے کہ اس نے ہمارے بوڑھے باپ کومارڈالاہے ‘‘۔امیرالمومنین سیدناحضرت عمرفاروقؓ نے اس نوجوان کی طرف دیکھ کرفرمایا’ہاں دونوں کادعویٰ توسن چکا‘اب بتاتیراکیاجواب ہے ؟اس نوجوان نے نہایت ہی فصاحت وبلاغت سے پوراواقعہ بیان کیاجس کا خلاصہ یہ تھاکہ ہاں مجھ سے یہ جرم ضرورہواہے اورمیں نے طیش میں آکرایک پتھرکھینچ ماراجس کی ضرب سے ان کابوڑھاباپ مرگیا۔ امیرالمومنین حضرت عمرفاروقؓ نے فرمایاتوتجھے اعتراف ہے تواب قصاص کاعمل لازمی ہوگیااوراسکے عوض تجھے اپنی جان دینی ہوگی ۔جوان نے سرجھکاکرعرض کیا۔مجھے امام کے حکم اورشریعت کافتوٰی ماننے میں کوئی عذرنہیں لیکن ایک درخواست ہے ۔آپؓ نے فرمایاکیادرخواست ہے ۔ اس شخص نے عرض کیایاامیرالمومنین میراایک چھوٹانابالغ بھائی ہے۔ جس کے لئے والدمرحوم نے کچھ سونامیرے سپردکیاتھاکہ وہ بالغ ہوتواس کے سپردکروں میں نے اس سونے کوایک جگہ زمین میں دفن کردیا۔اوراس کاحال سوائے میرے کسی کومعلوم نہیں اگروہ سونااس کونہ پہنچاتو قیامت کے دن میں ذمہ دارہوں گا۔اس لئے اتناچاہتاہوں کہ تین دن کے لئے مجھے ضمانت پرچھوڑدیاجائے ۔امیرالمومنین حضرت عمرفاروقؓ نے اس بارے میں سرجھکاکرذراغورفرمایااورپھرسراٹھاکرارشادکیااچھاکون ضمانت کرتاہے کہ تین دن کے بعدتکمیل قصاص کے لئے توواپس آجائے گا۔امیرالمومنین !کے اس ارشادپراس شخص نے چاروں طرف دیکھااورحاضرین کے چہروں پرایک نظرڈال کرحضرت ابوذرغفاریؓ کی طرف اشارہ کرکے عرض کیایہ میری ضمانت دیں گے ۔امیرالمومنین حضرت عمرفاروقؓنے پوچھا۔اے ابوذر!کیاتم اس کی ضمانت دیتے ہو۔ حضرت ابوذرؓنے عرض اے امیرالمومنین بے شک اس کی میں ضمانت دیتاہوں کہ یہ نوجوان تین دن بعدتکمیل قصاص کے لئے آپؓ کے پاس حاضرہوجائے گا۔یہ ایسے جلیل القدرصحابی رسولﷺکی ضمانت تھی کہ امیرالمومنین حضرت عمرفاروقؓ بھی راضی ہوگئے ۔ان دونوں مدعی نوجوانوں نے بھی اپنی رضامندی ظاہرکی اوروہ شخص چھوڑدیاگیا۔جب تیسرادن آیا۔امیرالمومنین حضرت عمرفاروقؓکادرباربدستورقائم تھا۔ تمام جلیل القدرصحابہ کرام علہیم الرضوان جمع ہوئے ۔وہ دونوں نوعمرمدعی بھی آئے ۔حضرت ابوذرغفاریؓ بھی تشریف لے آئے ۔اوروقت مقررہ پرمجرم کاانتظارہونے لگا۔اب وقت گزرتاجارہاتھااوراس مجرم کاپتہ نہیں ۔صحابہ کرامؓ میں حضرت ابوذرؓ!کی نسبت تشویش پیداہوگئی ۔دونوں نوجوانوں نے بڑھ کرکہا۔اے ابوذرؓ!ہمارامجرم کہاں ہے ؟آپؓ نے کمالَ استقلال اورثابت قدمی سے ان کوجواب دیاکہ اگرتیسرے دن کا وقت مقررگزرگیااوروہ نہ آیا۔تواللہ کی قسم!میں اپنی ضمانت پوری کروں گا۔عدالت فاروقی بھی جوش میں آئی ۔حضرت عمرفاروقؓ سنبھل بیٹھے اور فرمایااگروہ نہ آیاتوحضرت ابوذرؓ کی نسبت وہی کاروائی کی جائے گی جوشریعت اسلامی کاتقاضاہے ۔یہ سنتے ہی صحابہ کرامؓ میں تشویش پیداہوگئی بعض کی آنکھوں سے بے اختیارآنسوجاری ہوگئے ۔لوگوں نے مدعیوں سے کہناشروع کیاکہ’’تم خوں بہاقبول کرلو‘‘۔ان نوجوانوں نے قطعی انکارکیاکہ ہم خون کے بدلے خون ہی چاہتے ہیں ۔لوگ اسی پریشانی میں تھے کہ ناگہاں وہ مجرم نمودارہوا۔حالت یہ کہ پسینے میں ڈوباہوااورسانس پھولی ہوئی تھی۔وہ آتے ہی امیرالمومنین سیدناحضرت عمرفاروقؓ کے سامنے آیا۔سلام کیااورعرض کیا۔اے امیرالمومنینؓ ! میں اس بچے کواس کے ماموں کے سپردکرآیاہوں اوراسی کی جائیدادبھی انہیں بتادی ہے ۔اب آپؓ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولﷺکاحکم بجالائیں۔حضرت ابوذرغفاریؓ نے عرض کیا۔یاامیرالمومنین سیدناحضرت عمرفاروقؓ ۔اللہ کی قسم!میں جانتابھی نہ تھاکہ یہ کون اورکہاں کارہنے والاہے؟نہ اس روزسے پہلے کبھی اس کی صورت دیکھی مگرسب کوچھوڑکرمجھے اس نے اپناضامن بنایاتومجھے انکارمروت کے خلاف معلوم ہوااور اسکے بشرے نے یقین دلایاکہ یہ شخص عہدمیں سچاہوگااس لیے میں نے اس کی ضمانت قبول کرلی تھی۔اس کے آپہنچنے سے حاضرین میں ایساغیر معمولی جوش پیداہوگیاکہ دونوں مدعی نوجوانوں نے خوشی میں آکرعرض کیا۔یاامیرالمومنینؓ !’’ہم نے اپنے باپ کاخون معاف کردیا‘‘۔ حاضرین مجلس نے نعرہ بلندکیا اورامیرالمومنین سیدناحضرت عمرفاروقؓ کاچہرہ مسرت سے چمکنے لگااورفرمایا۔مدعی نوجوانو!تمہارے باپ کاخون بہا میں بیت المال سے اداکروں گا۔اورتم اپنی اسی نیک نفسی کے ساتھ فائدہ اٹھاؤگئے ۔انہوں نے عرض کیایاامیرالمومنینؓ!ہم اس حق کوخالص اللہ رب العالمین کی رضاوخوشنودی کے لئے معاف کرچکے ہیں لہذا!اب ہمیں کچھ لینے کاحق نہیں اورنہ ہی لیں گے ۔یہ ایمان افروزایفائے عہدکا واقعہ اس مسرت وشادمانی پرختم ہوا۔اللہ پاک سے دعاگُوہوں کہ اللہ پاک ہم سب کووعدے کاپابندبنائے ۔ اللہ رب العزت ہم کواپنی بندگی اور مخلوقِ خداکی خدمت کی توفیق عطافرماکر ہم سب کواس پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے، بروزمحشرآقاﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے وطن عزیزپاکستان کوامن وسلامتی کاگہوارہ بنائے۔ملک پاکستان میں نظام مصطفیﷺنافذکرنیوالاحکمران عطافرمائے۔ مسلمانوں کوآپس میں اتفاق واتحاد نصیب فرمائے۔اللہ رب العالمین آقائے دوجہاں سرورکون ومکاںﷺ کی سچی اورپکی غلامی نصیب فرمائے۔کفارومشرکین،منافقین، حاسدین کامنہ کالافرمائے ۔ حضورﷺکے غلاموں کادونوں جہانوں میں بول بالافرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامینﷺ
Short URL: http://tinyurl.com/halp4nh
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *