قرآن و حدیث کی روشنی میں شان اولیاء اللہ۔۔۔۔ تحریر: حافظ کریم اللہ چشتی

Hafiz Kareem Ullah Chishti
Print Friendly, PDF & Email

ارشادباری تعالیٰ ہے ۔\”بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہاکہ ہمارارب اللہ تعالیٰ ہے اورپھراس پرقائم رہے ان پرفرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرونہ غم کرواورخوش رہواس جنت پرجس کاتمہیں وعدہ دیاجاتاہے \”۔
اللہ رب العزت نے انسان کواشرف المخلوقات بنایاہے انسان کوطرح طرح کی نعمتیں عطاکی ہیں جن کاانسان شماربھی نہیں کرسکتاانسانوں اورجنوں کومحض اللہ پاک کی عبادت کے لئے پیداکیاگیاہے تاریخ اسلام پراگرنگاہ دوڑائی جائے تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت کے لئے انبیاء کرام کومبعوث فرمایاان انبیاء کرام نے اپنے اپنے ادوارمیں مخلوق کی ہدایت کافریضہ بخوبی انجام دیتے رہے حضرت محمدمصطفیﷺخاتم النبین ہیں آپﷺکے بعدنبوت کاسلسلہ ختم ہوگیااس لئے آقاﷺکے بعدامت کی ہدایت اوررہبری کے لیے اولیاء کرام بھیجے گئے جن کاسلسلہ قیامت تک جاری وساری رہیگا۔اللہ پاک کے وہ مقبول بندے جواس کی ذات وصفات کے عارف ہوں اس کی اطاعت وعبادت کے پابندرہیں گناہوں سے بچیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے انہیں اپناقرب خاص عطافرمائے ان کواولیاء اللہ کہتے ہیں ایسے خوش نصیب انسانوں کونہ کسی قسم کاخوف اورنہ کسی قسم کاغم ہوتاہے۔اللہ پاک کے مقبول بندوں سے عجیب وغریب کرامتیں ظاہرہوتی ہیں مثلاََپانی پرچلنا،بلائیں دفع کرنا،دوردرازکے حالات ان پرمنکشف ہونا،جمادات وحیوانات سے کلام کرناوغیرہ ،اللہ پاک کے مقبول بندوں کی کرامتیں درحقیقت ان انبیاء کے معجزات ہیں جن کے وہ امتی ہیں۔اللہ پاک کے ایسے مقبول بندوں کونہ دنیااورنہ آخرت میں کسی قسم کاخوف اورغم ہے ۔
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔\”سن لوبے شک اللہ کے ولیوں پرنہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم وہ جوایمان لائے اورپرہیزگاری کرتے ہیں انہیں خوشخبری ہے دنیاکی زندگی میں اورآخرت میں اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے \”(پارہ ۱۱سورۃ یونس آیت ۶۲تا۶۴)
ولی، اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کوکہتے ہیں۔جن کونہ دنیامیں اورنہ آخرت میں کسی قسم کاخوف اورغم ہے۔ مالک الملک کی محبت اطاعت اورخشیت نے انہیں ہرقسم کے خوف اورغم سے آزادکردیاہوتاہے اوروہ مرتبہ ولایت پرفائزہوگئے یعنی اولیاء اللہ بن گئے۔ اولیاء کرام کی محبت درحقیقت دارین کی سعادت اور رضائے الٰہی کاسبب ہے ۔ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ مخلوق کی حاجتیں پوری کرتاہے ان کی دعاؤں سے خلق فائدہ اٹھاتی ہے ۔
حضرت علی المرتضیٰ شیرخدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے دوجہاں سرورکون مکان ﷺسے سنا آپﷺ فرماتے ہیں کہ شام میں ابدال ہوں گے جن کی تعدادچالیس ہوگی جب ان سے ایک فوت ہوجائیگاتواللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرامقررفرمادے گاان کے وسیلہ سے بارش ہوگی اورانہی کے طفیل دشمنوں پرفتح حاصل ہوگی اورانہی کی برکت سے اہل شام سے عذاب دورکیاجائیگا۔(مشکوٰۃ شریف)
اہل لغت نے ولی کے چند معانی بیان فرمائے ہیں۔ ولی کے معنی وارث،قریبی اورمددگارکے ہیں ولیوں کے جماعت وہ مقدس جماعت ہے جنہیں اللہ رب العزت نے دنیاوآخرت کی نعمتوں کاوارث بنادیاہے ولیوں کویہ مرتبہ اورمقام صرف اورصرف نبی کریمﷺکی غلامی ،محبت اطاعت کرنے کی وجہ سے ملاہے ۔ شاعرمشرق علامہ اقبالؒ نے کیاخوب کہا۔
کی محمدسے وفاتونے توہم تیرے ہیں یہ جہاں چیزہے کیالوح وقلم تیرے ہیں !
ارشادباری تعالیٰ ہے \”بے شک ہم نے زبورمیں نصیحت کے بعدلکھ دیاکہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔(سورۃ الانبیاء پارہ ۱۷) اس زمین کی ملکیت اللہ پاک نے اپنے نیک بندوں کودے دی ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے \”یہی وہ جنت ہے جس کاوارث اپنے نیک بندوں میں اسے کریں گے جومتقی ہے\”(سورۃ مریم پارہ ۱۶)مزیدارشادہوتاہے \”ہم تمہارے دوست ہیں دنیاوآخرت میں اور تمہارے لئے اس (جنت) میں ہے جوتمہاراجی چاہے اورتمہارے لئے اس میں جوتم مانگو۔
ولی کادوسرامعنی مددگارکے ہیں یعنی مخلوق خداکی امدادکرنیوالے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے ۔\”اورایک دوسرے کی نیکی اورتقویٰ پرامدادکرو\” جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے \”مَنْ کُنْتُ مَوْلاَفَعَلِیّ’‘ مَوْلاَ\”جس کامیں مولا( مددگار)ہوں اس کے علی مولا( مددگار)ہیں ۔
ولی کاایک اور معنی قریبی کے ہیں ۔یعنی اولیاء اللہ کی جماعت وہ مقدس جماعت ہے جن کواللہ رب العزت کاقرب اورنزدیکی حاصل ہوتی ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا\”اللہ تعالیٰ فرماتاہے جومیرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس سے اعلان جنگ کرتاہوں اورمیرابندہ ایسی کسی چیزکے ذریعے میراقرب نہیں پاتاجومجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہواورمیرابندہ نفلی عبادات کے ذریعے برابرمیراقرب حاصل کرتارہتاہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتاہوں اورجب میں اس سے محبت کرتاہوں تومیں اس کے کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتاہے اوراسکی آنکھ بن جاتاہوں جس سے وہ دیکھتاہے اوراس کاہاتھ بن جاتاہوں جس سے وہ پکڑتاہے اوراس کاپاؤں بن جاتاہوں جس سے وہ چلتاہے اگرمجھ سے وہ سوال کرتاہے تومیں اسے ضرورعطاکرتاہوں ۔اگروہ میری پناہ مانگتاہے تومیں ضروراسے پناہ دیتاہوں میں نے جوکام کرناہوتاہے اس میں کبھی اس طرح مترودنہیں ہوتاجیسے بندہ مومن کی جان لینے میں ہوتاہوں ۔اسے موت پسندنہیں اورمجھے اس کی تکلیف پسندنہیں \”۔
ولی کاایک اورمعنی مددگارکے ہیں ۔ایک دن مشکل کشا سیدناحضرت علی المرتضیٰ شیرخدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لارہے تھے کہ اونٹوں کی ٹاپ کی آواز نے ایک نابیناسائل کوسرراہ کھڑاکردیا۔جس نے لوگوں سے پوچھاکون آرہاہے اسے بتایاگیاکہ شیرخدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لارہے ہیں جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سائل کے قریب پہنچے توا س نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں سوال کیاکہ میں بھوکاہوں مجھے کھاناچاہیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوالی کاسوال سناتواپنے غلام کوبلاکرفرمایاکہ سائل کوروٹی دی جائے توغلام نے عرض کیاحضورروٹی توتوشہ دان میں ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایااے میرے غلام دیرمت کرسائل کوتوشہ دان دے دیاجائے ۔غلام نے عرض کیاحضور!توشہ دان توکچاوے میں پڑاہے فرمایاپھرایساکرو اس سائل کوکچاواہی دے دو۔غلام نے عرض کیاحضور!وہ کچاواتواونٹ پرہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاسائل کواونٹ کی نکیل(مہار)ہی پکڑادو۔غلام نے عرض کیاحضور!اونٹ توقطارکے درمیان میں ہے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایااس سائل کواونٹوں کی قطارہی تھمادو۔
یہ شان ہے خدمتگاروں کی سردارکاعالم کیاہوگا۔
\”خبردار!\”سن لوبے شک اللہ کے ولیوں پرنہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم \”سوال پیداہوتاہے اللہ کے پیاروں کوکس طرح خوف اورغم نہیں۔ایک مشہور صحابی جس کانام تقریباَہرشخص جانتاہے ان کے بارے میں آتاہے کہ ایک مرتبہ سیدناحضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کابچہ بیمارتھا۔سیدناابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکسی کام کے لئے گھرسے جاناپڑاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی گھرواپس نہیں آئے تھے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاننھاسابچہ فوت ہوگیاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضرت رمیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے بچے پرکپڑاڈال دیارات کوجب حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھرپہنچے توبچے کی خیریت دریافت کی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکی صابرہ اورشاکرہ بیوی نے بڑے سکون سے عرض کیاکہ آج ہمارے بچے کی حالت پہلے کی حالت سے بہت اچھی ہے اب آرام وسکون میں ہے بیوی نے اپنے سرکے تاج سیدناحضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکھاناپیش کیاصحابی رسول ﷺنے کھاناکھایاکھاناکھلانے کے بعدحضرت رمیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے خاوندسے عرض کیااورکہااے میرے سر تاج ہمارے پڑوس والی عورت نے مجھ سے ایک چیزبطور عاریت لی تھی آج میں نے اس سے اپنی چیزکامطالبہ کیاتواس نے روناشروع کردیا۔حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کرکہاکہ وہ بڑی احمق عورت ہے اسے ادھار لی ہوئی چیزکی واپسی توبڑی خوشدلی سے کرنی چاہیے جب حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات کی توبیوی نے عرض کیا۔اے میرے سرتاج تیراچھوٹابیٹاجواللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں بطورامانت دیاتھاوہ آج اس نے واپس لے لیاہے ۔سیدنا حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کرعرض کیا اِنَّاللہ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن\”جب صبح ہوئی تویہ ساراواقعہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ مصطفیﷺ میں عرض کردیاتونبی کریمﷺنے فرمایا گذشتہ رات تمہیں مبارک ہوکہ میں نے تمہاری بیوی کوجنت میں دیکھاہے۔
میرے مسلمان بھائیو!ہم نے دنیامیں جودوست بنارکھے ہیں قیامت کے دن سب کے سب دشمن بن جائیں گے سوائے متقی (لوگوں)کے ،جن کی دوستی قیامت کے دن بھی ہم کوفائدہ دے گی ۔جیساکہ قرآن پاک میں ارشادہوتاہے \”گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہونگے مگر پرہیزگار ان سے فرمایاجائے گااے میرے بندوآج نہ تم پرخوف نہ تم کوغم ہووہ جوہماری آیتوں پرایمان لائے اورمسلمان تھے داخل ہوجنت میں تم اور تمہاری بیبیاں اورتمہاری خاطریں ہوتیں۔ا ن پردورہ ہوگاسونے کے پیالوں اورجاموں کااوراس میں جوجی چاہے اورجس سے آنکھ کولذت پہنچے اورتم اس میں ہمیشہ رہوگے اوریہ ہے وہ جنت جس کے تم وارث کئے گئے اپنے اعمال سے تمہارے لئے اس میں بہت میوے ہیں کہ ان میں سے کھاؤبیشک مجرم جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں \”۔(ترجمہ کنزالایمان پارہ ۲۵سورۃ الزخرف آیت ۶۷تا۷۴)سوال پیداہوتاہے کہ دنیاکی دوستی قیامت کے دن دشمنی میں کس طرح بدل جائے گی ۔یہ توہرکسی کومعلوم ہے کہ قیامت کادن نفسہ نفسی کاعالم ہوگاہرکسی کواپنی جان کی پڑی ہوگی انسان کی نیکیاں کم ہوجائیں گی تووہ نیکیاں مانگنے کے لئے اپنے والدین کے پاس جائے گاکہ مجھے کچھ نیکیاں ضرورت ہیں اگرآپ دے دیں تومیری جان چھوٹ جائے گی۔دنیامیں والدین کواپنی اولادسے کتنی محبت ہوتی ہے ۔اولاد دنیا میں جو بھی خواہش کرتی ہے والدین ان کی خواہشیں پوری کرتے ہیں ۔ پرقیامت کے دن والدین بھی نیکیاں دینے سے انکارکردیں گے اسی مایوسی کے عالم میں انسان واپس ہوکراپنے بھائی،بہن اوردوستوں کے پاس جائیگا توان تمام کی طرف سے بھی یہی جواب ملے گا۔کہ دنیاکی دوستی ،دنیاکی محبت بجاآج ہم آپ کوکسی قسم کی نیکی نہیں دے سکتے ۔جن لوگو ں سے ہم دنیامیں محبت کرتے تھے وہ نیکی دینے سے انکاری ہوجائیں گے جب انکاری ہوں گے تودنیاوالی دوستی دشمنی میں بدل جائے گی پرَقیامت کے دن بھی اللہ کے ولی ،متقی ،دوست ،ہماراساتھ نبھائیں گے۔توہمیں بھی چاہیے کہ ہم ان سے محبت کریں جن پراللہ پاک اوراسکاحبیب ﷺراضی ہو جن کی محبت قیامت کے دن بھی ہمیں کام آئیے۔حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے برگزیدہ بندے ہیں جونہ انبیاء کرام علہیم الرضوان ہیں نہ شہداء،قیامت کے دن انبیاء کرام علہیم السلام اورشہداء انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ مقام کودیکھ کران پررشک کریں گے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیایارسول اللہﷺ!آپ ہمیں ان کے بارے میں بتائیں کہ وہ کون ہیں ؟آپﷺ نے فرمایاوہ ایسے لوگ ہیں جن کی ایک دوسرے سے محبت صرف اللہ پاک کی خاطرہوتی ہے نہ کہ رشتہ داری اورمال دین کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی قسمْ ! ان کے چہرے نورہوں گے اوروہ نور(کے منبروں)پرہوں گے ،انہیں کوئی خوف نہیں ہوگاجب لوگ خوف زدہ ہوں گے ۔انہیں کوئی غم نہیں ہوگاجب لوگ غم زدہ ہوں گے ۔ پھرآپﷺنے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی ۔خبرداربے شک اولیاء اللہ پرنہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ وغمگین ہوں گے۔(ابوداؤد)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایایقیناًبعض لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکرکی کنجیاں ہوتے ہیں انہیں دیکھ کراللہ تعالیٰ یادآجاتاہے ۔(طبرانی،بیہقی )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی کریمﷺنے فرمایا۔جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتاہے توحضرت جبرائیل علیہ السلام کوآواز دیتاہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتاہے لہذاتم بھی اس سے محبت کرو۔پس سیدناحضرت جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں پھرسیدناجبرائیل علیہ السلام آسمانی مخلوق میں ندادیتے ہیں کہ اللہ پاک فلاں بندے سے محبت کرتاہے لہذاتم بھی اس سے محبت کروپس آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھرزمین والوں (کے دلوں)میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے ۔(بخاری شریف) علامہ شیخ محمدعبدالباقی ؒ نے اپنی کتاب زرقانی شرح مواہب لدینہ میں حدیث مبارکہ نقل فرمائی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺفرماتے ہیں ۔بے شک اللہ تعالیٰ کے لئے مخلوق میں تین سواولیاء ہیں ان کے دل سیدناحضرت آدم علیہ السلام کے دل پرہیں اورچالیس کے دل سیدناحضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل پراورسات کے دل سیدناحضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل پراورپانچ کے دل حضرت جبرائیل امین علیہ السلام پراورتین کے دل حضرت میکائل علیہ السلام کے دل پراورایک کاحضرت اسرافیل علیہ السلام پرہے جب ان سے ایک فوت ہوجاتاہے توتین میں سے کوئی اس کاقائم مقام ہوتاہے اورجب ان میں سے کوئی فوت ہوتاہے توپانچ میں سے کوئی اس کاقائم مقام ہوتاہے اورجب ان میں سے کوئی انتقال کرجاتاہے توسات میں سے اس کے قائم مقام کردیاجاتاہے اورجب سات میں سے کسی کاانتقال ہوتاہے توچالیس میں سے کوئی اس کے قائم مقام کردیاجاتاہے اورجب چالیس میں سے کوئی مرتاہے توتین سومیں سے اسکے قائم مقام کردیاجاتاہے اورجب تین سوسے کوئی فوت ہوجائے توعوام سے لیاجاتاہے انہیں سے حیات وموت ،بارش کابرسنا،نباتات کااُگنابلاؤں کادفع ہونااس امت کاہواکرتاہے ۔حدیث مبارکہ سے ثابت ہواکہ تین سوچھپن اولیا ء اللہ ہیں جواس نطام کوچلاتے ہیں ۔
حضرت عمروبن حمق رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم رؤف رحیم ﷺنے فرمایابندہ اس وقت تک ایمان کی حقیت کونہیں پاسکتاجب تک وہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہی (کسی سے)ناراض اوراللہ تعالیٰ کے لئے ہی (کسی سے )راضی نہ ہو(یعنی اس کی رضا کامرکزومحورفقط ذات الٰہی ہوجائے )اورجب اس نے یہ کام کرلیاتواس نے ایمان کی حقیقت کوپالیااوربے شک میرے احباب واولیاء وہ لوگ ہیں کہ میرے ذکر سے ان کی یادآجاتی ہے اوران کے ذکرسے میری یادآجاتی ہے (یعنی میراذکران کاذکرہے اوران کاذکرمیراذکر ہے ) (طبرانی)
مشارق الانوارمیں ہے ابن جوزی ؒ کہتے ہیں کہ شریعت محمدیہ ﷺکاعلم سیکھنے کے لئے حضرت خضرعلیہ السلام ہرروزصبح کے وقت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کی مجلس میں آیاکرتے تھے جب آپ کاوصال ہوگیاتوحضرت خضرعلیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ امام ابوحنیفہ کی روح کوان کے جسم میں لوٹادے تاکہ میں علم فقہ ان سے مکمل کرسکوں چنانچہ حضرت خضرعلیہ السلام اپنی عادت کے مطابق ہرروزصبح کے وقت امام اعظم ابوحنیفہؒ کی قبرپرآکران سے فقہ اورشریعت کے مسائل سناکرتے تھے ۔یہ توایک ولی کامقام ومرتبہ ہے۔ ہم شہیدکے مقام ومرتبہ کونہیں جان سکے کیونکہ ہم کوان کی زندگی کاشعورنہیں۔ انبیاء کرام علہیم الرضوان کامقام مرتبہ کیاہوگا۔یہ تواللہ پاک ہی جانتاہے۔اللہ پاک ہم کواپنی اوراپنے محبوب ﷺکی محبت نصیب فرمائے تاکہ ہم کامیاب ہوجائیں ۔کسی نے کیاخوب ہی کہا
یہ شان ہے خدمتگاروں کی سردارکاعالم کیاہوگا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی کریمﷺنے فرمایااللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جوانبیاء نہیں لیکن انبیاء کرام اورشہداء بھی ان پررشک کریں گے۔عرض کیاگیایارسول اللہﷺ!وہ کون لوگ ہیں (ہمیں ان کی صفات بتائیں )؟تاکہ ہم بھی ان سے محبت کریں آپﷺ نے فرمایاوہ ایسے بندے ہیں جوآپس میں بغیرکسی قرابت داری اورواسط کے محض اللہ تعالیٰ کی خاطرمحبت کرتے ہیں ان کے چہرے پرنورہوں گے اوروہ نورکے منبروں پرجلوہ افروزہوں گے انہیں کوئی خوف نہیں ہوگاجب لوگ خوفزدہ ہوں گے اورانہیں کوئی غم نہیں ہوگاجب لوگ غمزدہ ہوں گے پھر آپﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی\”خبردار!بے شک اولیاء اللہ پرنہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ وغمگین ہوں گے۔(ابن حبان،بیہقی فی شعب الایمان)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی کریمﷺنے فرمایاجب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتاہے توحضرت جبرائیل علیہ السلام کوآوازدیتاہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتاہے لہذاتم بھی اس سے محبت کروپس حضرت جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں پھرحضرت جبرائیل علیہ السلام آسمانی مخلوق میں ندادیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتاہے لہذاتم بھی اس سے محبت کروپس آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھرزمین والوں (کے دلوں )میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے (متفق علیہ)۔ولی اللہ کاپرہیزگاربندہ ہوتاہے ولی کی پہچان بھی یہی ہے کہ جب انسان اس کودیکھے تواللہ پاک یادآجائے ۔حضرت اسماء بن یزیدرضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ میں نے حضورنبی کریمﷺکویہ فرماتے ہوئے سناکیامیں تمہیں تم میں سب سے بہترلوگوں کے بارے میں خبرنہ دوں؟صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا:یارسول اللہﷺکیوں نہیں!آپﷺنے فرمایاتم میں سے بہتروہ لوگ وہ ہیں کہ جب انہیں دیکھاجائے تواللہ تعالیٰ کی یاد آجائے۔(ابن ماجہ،احمدبن حنبل)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرمﷺسے اولیاء اللہ کے متعلق پوچھاگیاتوآپﷺنے فرمایاوہ لوگ(اولیاء اللہ ہیں )جنہیں دیکھنے سے اللہ یادآجائے ۔(نسائی)
حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:بے شک معمولی دکھاوابھی شرک ہے اور جس نے اولیاء اللہ سے دشمنی کی تواس نے اللہ تعالیٰ سے اعلان جنگ کیا ،بے شک اللہ تعالیٰ ان نیک متقی لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جوچھپے رہتے ہیں،اگر وہ غائب ہو جا ئیں تو انہیں تلاش نہیں کیاجاتا اور اگروہ مو جود ہوں توانہیں(کسی بھی مجلس میںیا کام کے لئے) بلایانہیں جاتا اور نہ ہی انہیں پہچانا جاتا ہے ،ان کے دل ہد ایت کے چراغ ہیں ایسے لوگ ہرطرح کی آزمائش اور تار یک فتنے سے (بخیر و عافیت ) نکل جاتے ہیں۔(ابن ماجہ،الحاکم فی المستدرک)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ عرض کیا گیا :یا رسول اللہ! ہمارے بہترین ہم نشین کون لوگ ہیں ؟ آ پ ﷺ نے فرمایا : ایسا ہم نشین جس کا دیکھنا تمہیں اللہ تعا لیٰ کی یاد دلائے اور جس کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔
کرامات اولیا ء، صالحین
حضرت سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں سمندرمیں ایک کشی پرسوارہواوہ کشتی ٹوٹ گئی تومیں اس کے ایک تختے پرسوارہوگیااس نے مجھے ایک ایسی جگہ پھینک دیاجوشیرکی کچھارتھی ۔وہی ہواجس کاڈرتھاکہ (اچانک)وہ شیرسامنے تھامیں نے کہااے ابوالحارث (شیر)!میں رسول اللہﷺ کاغلام ہوں تواس نے فوراََ اپناسرخم کردیااوراپنے کندھے سے مجھے اشارہ کیااوروہ اس وقت تک مجھے اشارہ اوررہنمائی کرتارہاجب تک کہ اس نے مجھے صحیح راہ پرنہ ڈال دیاپھرجب اس نے مجھے صحیح راہ پرڈال دیاتووہ دھیمی آوازمیں غرغرایاسومیں سمجھ گیاکہ وہ مجھے الوداع کہہ رہاہے ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضورنبی اکرمﷺکے کسی صحابی نے ایک قبرپرخیمہ لگایا۔انہیں معلوم نہ تھاکہ یہ قبرہے اچانک پتہ چلاکہ یہ قبرہے اوراسکے اندرکوئی آدمی سورۃ الملک پڑھ رہاہے ۔یہاں تک (اس صحابی نے سناکہ)اس پڑھنے والے نے (قبرکے اندر)مکمل سورۃ الملک پڑھی یہ سن کروہ صحابی حضورنبی اکرم ﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اورعرض کیایارسول اللہ ﷺمیں نے (نادانستہ) ایک قبرپرخیمہ لگایااورمجھے یہ خیال نہیں تھاکہ یہ قبرہے اچانک سناکہ ایک آدمی قبرمیں سورۃ الملک پڑھ رہاہے یہاں تک کہ میں نے سنااس نے مکمل سورۃ الملک پڑھی حضورنبی اکرمﷺنے فرمایایہ سورۃ الملک عذاب قبرکوروکنے والی ہے اورعذاب قبرسے نجات دینے والی ہے۔
بہتجہ الاسرار میں ہے کہ ایک مر تبہ شہنشاہ بغدادحضورغوث اعظمرضی اللہ تعا لیٰ عنہ کہیں جنگل میں تشریف لے جا ر ہے تھے اچانک آسمان پر بادل کا ٹکڑا نظر آیا وہ بادل سر کے قریب آتا گیا ۔جب کافی قریب آگیا تو اس سے آواز آئی۔ اے عبدالقادر!میں تیرا خدا ہُوں ،میں نے تجھے قبول کر لیا ہے لہذا!اب تجھے عبادت و ریا ضت کی کو ئی ضرورت نہیں میں نے تیری سب عبا د تیں قبول کر لی ہیں ۔یہ لفظ سُن کر حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لاحول ولاقُوۃ الاباللّٰہ العلی العظیم پڑھا بادل پھٹ گیا اور آواز آئی ۔اے عبدالقادر !میں ابلیس ہُوں، تجھے تیرے علم نے بچا لیا ورنہ میں اس مرتبہ پر پہنچے ہُوئے ستر غوثوں کو اسی حربے سے گمراہ کر چکا ہوں اے عبدالقادر!تجھے تیرے علم نے بچا لیا ہے حضورغوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاظالم!اب بھی دھوکا دینا چاہتاہے کہ میں علم پرفخرکروں غلط ہے مجھے میرے علم کے علاوہ اللہ پاک کے فضل نے بچایاہے۔
ڈاکٹرعلامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ شاہ بُوعلی قلندرؒ کے ایک مریدکوشہرکے گورنرنے بلاوجہ سزادی اس مریدنے حضرت شاہ بوعلی قلندرؒ کی خدمت میں شکایت کی آپؒ نے ہندوستان کے شہنشاہ کوخط لکھاجس کاترجمہ علامہ اقبال ؒ یوں بیان کرتے ہیں۔
بازگیرایں عاملِ بدگوہرے ورنہ بخشم ملکِ توبادیگرے
اس گورنرکوقرارواقعی سزادی جائے اس نے میرے مریدکوبلاوجہ ماراہے اگرتونے سزانہ دی توتیراملک کسی اورکوبخش دونگا۔
ایک امریکن پادری گولڑہ شریف آیااورمجلس میں داخل ہوتے ہی سوال پیش کیاکہ مسلمانوں کادعویٰ ہے کہ قرآن شریف میں ہرچیزکاذکرموجود ہے حالانکہ ز حضرت امام حسین علیہ السلام جن کی زندگی میں قرآن چھ برس تک نازل ہوتارہاان کانام تک قرآن میں موجودنہیں حضرت امام حسین علیہ السلام نے اسلام کے لئے بڑی قربانی دی ہے ایسے خادم اسلام کاذکرتوقرآن میں ضرورہوناچاہیے تھا۔تاجدارگولڑہ حضرت پیرمہرعلی شاہ صاحب ؒ نے دریافت فرمایاکہ پادری صاحب کیاآپ نے قرآن پاک پڑھاہے؟کہنے لگامیں نے قرآن پڑھاہے اوراس وقت بھی میری جیب میں موجود ہے فرمائیے کہاں سے پڑھوں؟آپؒ نے اپنے علماء کی طرف دیکھااورمسکراکرفرمایاسبحان اللہ!پادری صاحب کوبھی قرآن دانی کادعویٰ ہے یہاں عمرگزری ہے اس دشت کی سیاہی میں مگراس دعوے کی مجال نہیں پھرپادری سے مخاطب ہوکرفرمایااچھاپادری صاحب قرآن پڑھیے کہیں سے قرآن پڑھ دیجیے و ہ مؤدب ہوکر بیٹھ گیااورعربی لہجے میں ترتیل سے پڑھنے لگااعوذباللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمان الرحیم قبلہ عالم قدس سرہ نے اشارے سے روک کرفرمایاکہ بس اعوذ توقرآن کاحصہ نہیں بسم اللہ الرحمان الرحیم ہے اوربقاعدہ ابجداکے عدد۷۸۶ہیں اب ذرالکھیے ۔امام حسین عددہیں ۲۱۰سن پیدائش ۴ہجری سن شہادت۶۱ہجری کرب و بلا۲۶۱امام حسن علیہ السلام ۲۲۰سن شہادت ۹۵میران ۷۶۸۔تاجدارگولڑہ حضرت پیرمہرعلی صاحبؒ نے فرمایاپادری صاحب قرآن مجیدکی جوپہلی آیت آپ نے پڑھی اس میں ہی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانام ،سن پیدائش،سن شہادت مقام شہادت ان کے بھائی صاحب کانام اورسن شہادت اوردونوں بھائیوں کے نام امام ہونے کاثبوت موجودہ ہے آگے چلے توشایدان کی زندگی کے کئی واقعات بھی مل جائیں اس پراس امریکی پادری نے کہاعربوں کے علم ہندسہ اورجعفروغیرہ کاذکرمستشرقین یورپ کی کتابوں میں میری نظرسے گزراہے لیکن یہ معلوم نہ تھاکہ مسلمانوں نے ان علوم کے اندراتنی گہری ریسرچ(تحقیق )کی ہوئی ہے حضرت قبلہ عالم قدس سرہ‘نے فرمایاجب مسلمان کہتاہے کہ قرآن شریف کے اندرہرچیزکاذکر موجودہے تواس بات کاایک ظاہری مفہوم جوہوتاہے یہ ہوتاہے کہ ہراس چیزکاذکرموجودہے جومذہب حقہ اسلام کی ضروریات میں داخل ہے لیکن یہ کہنابھی غلط نہیں کہ ہروہ چیزجس سے اسلام کاذراسااوردورکاتعلق ہے قرآن مجیدمیں بیان فرمادی گئی ہے ۔ایسی چیزوں کے لئے اس یک جلدکتاب کے اندراظہارمعانی کے طریقے لامحال متعددمتصورہوں گیاآپ کو اُستاد نے بتایا ہو گا کہ حُروف مقطعات کے اندر معانی اور مطالب کا ایک جہان پوشیدہ ہے ۔اسی قسم کی کیفیت دیگر حروف و الفاظ قرآنی کی بھی ہے ا گر چہ ان معانی پر انسان اپنی کو شش اور تحقیق سے پُوری طرح مُطلع نہیں ہو سکتا ۔ قرآن مجید کے با طنی ر موز اور معانی پر اطلاع تحقیق اور تفتیش سے زیادہ خدائے تعالیٰ کے فضل اور انسان کے نیک عمل پر مو قو ف ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے حا جت ان اسرار پر مطلع فرما دیتا ہے سبحا ن اللہ اسلام کے اسی درخشندہ ما ہتاب اور اسی زندہ جا وید شہید حضرت امام حسین علیہ السلام کے والد گرامی باب علم سیدنا مولا ئے علی کرم اللہ وجہ الکریم نے فرمایا تھا کہ میں سُورۃ فا تحہ کی تفسیر لکھنے بیٹھوں تو کئی ضنیم جلدوں میں ایک دفتر تیار ہو جا ئے ۔
اللہ اللہ با ئے بسم اللہ پدر معنئی ذبح عظیم آمد پسر
حضرت بابوجی مدظلہ العالی ایک کتابی واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مر تبہ حضرت شیخ اکبری محی الدین ابن عربی سواری سے گر پڑے اور اٹھ کر کچھ دیر اسے پکڑے ہوئے آنکھیں بند کر کھڑے رہے خادم نے پوچھاحضرت چوٹ تونہیں آئی؟فرمایانہیں چوٹ نہیں آئی میں غورکررہاتھاکہ اس وقت میرے سواری سے گرنے کاذکرقرآن مجیدمیں کہاں آیاہے چنانچہ اب معلوم ہوگیاہے کہ کہاں موجودتھا۔
حضرت محمدبن حنیف شیرازی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ میں بغدادمیں پہنچااورچالیس روزتک نہ کچھ کھایانہ پیاپھرایک دن پیاس لگی توڈول اوررسی پکڑی اورایک کنویں پرجاپہنچادیکھاتوایک ہرن پانی پی رہاتھااورکنویں کاپانی کناروں تک پہنچاہواتھا۔میں جب قریب گیاتوہرن واپس چلاگیامیں نے پانی پینے کاارادہ کیاتوپانی تہہ میں چلاگیامیں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی ۔یااللہ!کیامیں اس ہرن سے بھی کم مرتبہ رکھتاہوں ؟ہرن آیاتوپانی کناروں تک آگیااورجب میں پہنچاتوپانی نیچے تہہ تک پہنچ چکاتھا۔آوازآئی ہرن ڈول اوررسی کے بغیرآیاتھااورتونے ڈول اوررسی پربھروسہ کیاآپؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ڈول اوررسی فوراََ پھینک دی اورتوبہ کی پھردیکھاتوپانی اوپرآگیامیں نے پیٹ بھرکرپیاواپس آکرحضرت جنیدؒ کی خدمت میں حاضرہواتاکہ یہ واقعہ سناؤں مگرآپ نے میرے عرض کرنے سے پہلے ہی فرمادیاشیرازی !اگرتوتھوڑی دیراورٹھہرتاتوپانی تیرے قدموں کے نیچے جوش مارتاتوچلتاتو تیرے پیچھے چلتامعلوم ہواک جنیدبغدادی کی نظرسے کنویں کاواقعہ پوشیدہ نہیں تھا۔اللہ پاک سے دعاکرتاہوں کہ اللہ پاک ہم کوصراطِ مستقیم کے راستے پرچلنے کی توفیق عطافرمائے بروزقیامت آقاﷺکی شفاعت نصیب فرمائے آمین ،

Short URL: http://tinyurl.com/zgactkc
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *