ہرجائی۔۔۔۔ مصنف: علی حسنین تابش، چشتیاں

Print Friendly, PDF & Email

Hy,how are you?
’’جی اللہ پاک کا شکر ہے ،میں ٹھیک ہوں۔آپ کون۔۔۔۔۔؟‘‘
’’میرانام عنبرین ہے اور میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’کس سلسلے میں ،آپ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔؟‘‘
’’آپ بتائیں کہ آپ مجھے کہاں مل سلتے ہیں۔؟‘‘
’’محترمہ !آپ بتائیں تو سہی ،مجھ سے کیا کام ہے۔؟پھر ملنے کا بھی ڈیسائیڈ کرلیں گے۔‘‘
’’کیا میں آپ کو ،آپ کے گھر ملنے آسکتی ہوں۔۔؟‘‘
’’دیکھیں عنبرین جی!پہلے آپ مجھے ملنے کی وجہ تو بتائیں ،پھر جہاں کہیں گی ،مل بھی لیں گے۔؟‘‘
’’ٹھیک ہے کل شام کو ،میں آپ کے گھر آرہی ہوں۔اوکے۔۔۔بائے۔۔‘‘
****
میں ایک کشمکش میں مبتلا تھا۔۔۔نجانے کون ہے۔۔یہ عنبرین۔۔۔اپنا ایڈریس بھی نہیں بتایا اور ملنے کی وجہ بھی نہیں بتائی ،میرے گھر کا اُس کو کیسے معلوم ہوا۔۔۔بہت سے سوالات میرے ذہن میں اُبھرتے رہے اورکافور ہوتے رہے۔
*****
ٹک ٹک۔۔۔۔
’’کون ہے۔؟‘‘اندر آجاؤ دروازہ گُھلا ہے۔شام ڈھلے میں اپنی مخصوص بیٹھک میں بیٹھااقبالیات کا مطالعہ کر رہا تھا۔
’’کیا میں اندر آسکتی ہوں۔۔۔۔؟‘‘
جی آجائیں۔‘‘
’’شکریہ‘‘
’’محترمہ !تشریف رکھیں۔مجھے کال آپ نے ہی کی تھی۔۔۔؟‘‘
’’جی ،تابش جی!کال میں نے ہی کی تھی ۔میں ہی عنبرین ہوں ۔‘‘اُس نے بیٹھے ہوئے دھیرے سے کہا۔
’’کیا پسند کریں گی ،چائے یا کافی۔۔۔؟‘‘
’’آپ کیا پسند کرتے ہیں۔۔۔؟‘‘
’’چائے‘‘
’’تو پھر چائے ہی منگوالیجئے۔‘‘
’’نوید۔۔۔!او ۔۔نوید!‘‘
’’جی تابش بھائی۔‘‘
’’یار !اچھے سے دو کپ چائے بنوالاؤ۔‘‘
’’اوکے تابش بھائی!ابھی لایا۔‘‘
نوید کو چائے کا کہنے کے بعد،میں نے عنبرین سے کہا۔
’’آپ!کس سلسلے میں مجھ سے ملنا چاہتی تھیں۔؟‘‘
’’سب کچھ بتانے کے لئے ہی حاضر ہوئی ہوں ۔پریشان کیوں ہوتے ہیں۔‘‘اُس نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’دراصل میں آپ سے اپنی کہانی شیئر کرنا چاہتی ہوں،کیونکہ آپ تو دُکھوں کو الفاظ کا رُوپ دیتے ہیں،اور میں چاہتی ہوں ،میری زیست کے دُکھوں کو الفاظ کا رُوپ دیں۔کافی عرصے سے کوشش میں تھی ،مگر نجانے کیوں ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔آج دل نے بہت مجبور کیا اور میں آپ کے پا س چلی آئی۔‘‘
’’یہ تو آپ کی نوازش ہے عنبرین جی!کہ آپ نے اِس بندہ ناچیز کو اِس قابل سمجھا۔‘‘وہ کچھ افسردہ سی ہو گئی اور سوچوں کی نگری میں کھو گئی ،جیسے ماضی کے دریچوں سے الفاظ اکٹھے کر رہی ہو۔چند لمحوں کے بعد اُس نے لب کھول دیئے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں FSCکی طالبہ تھی۔میرا امیر گھرانے سے تعلق ہے۔میں اپنے والدین کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹھی تھی۔اِسی لیے سب مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔میرے ابو،میری ہر خواہش کو پورا کرتے تھے۔میں اپنی لائف کو بہت انجوائے کر رہی تھی۔میری سہیلیاں ،اکثر میرا مذاق اڑایا کرتی تھیں ،کیونکہ میں اکثر کہا کرتی تھی۔
’’پیار کچھ بھی نہیں۔سب ایک ڈرامہ اور دھوکہ ہے ۔‘‘مگر وہ کہا کرتی تھیں۔
’’عنبرین !جب تجھے پیار ہوگا ،تب تجھے پتہ چلے گا۔‘‘وہ سارا سارا دن اپنے کزنز اور اپنے
LOVERS
کی باتیں کرتیں۔۔۔۔مگر میں اپنی پڑھائی میں مصروف رہتی۔مجھے کبھی کسی سے پیار نہیں ہوا تھا۔میری لائف سب سے الگ تھی ۔مجھے ان باتوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
’’اتنی دیر میں چائے آگئی ۔ہم ساتھ میں چائے کا لطف لینے لگے اور عنبرین نے اپنی بات وہیں سے جاری کی ،جہاں ختم کی تھی۔‘‘
بس میرا سارا دن پڑھائی میں ہی گزر جاتا اور گھرمیں بھی ،میں سب سے الگ تھلگ رہتی۔میں
FSC
فائنل امتحان دے چکی تھی۔ایک دن امی نے مجھے بتایاکہ۔
’’تمھارے ماموں کے بیٹے کی شادی ہے اور ہم سب کو بھی اُنہوں نے بُلایا ہے۔‘‘میرے ماموں ملتان میں رہتے تھے۔میں نے ہاں میں سر ہلادیا۔
چند دنوں کے بعد ہم ملتان چلے گئے۔شادی کی تیاریاں پورے زور و شور سے جا ری تھیں۔ہر طرف رونق ہی رونق تھی۔مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔لیکن میں خلوت میں رہنے کی عادی ہو چکی تھی۔میرا نہ تو کوئی بھائی تھا نہ کوئی بہن۔گھرمیں امی ابو کے سواکوئی نہیں تھا۔بس اِسی لیے میں شادی کو زیادہ انجوائے نہ کر سکی۔مہندی والی رات ،میں اپنی کزنوں کے ہمراہ باتوں میں مصروف تھی۔اِسی دوران میں نے غور کیاکہ ایک لڑکا مسلسل کافی دیر سے مجھے دیکھے جا رہا تھا،شاید وہ نبیل بھائی کا دوست ہی تھا۔بعد میں بھی یہ بات ،میں نے کئی بار نوت کی۔ہم ملتان پانچ دن رہے اور وہ اکثر مجھے دیکھ کر اشارہ کرتا تھا۔
ایک رات سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے اور میں چھت پر بیٹھی اپنے خم شدہ گیسو سنوارنے میں مصروف تھی۔ایک بچی میرے پاس آئی ۔اُس کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔
’’آپی!یہ آپ کے لیے ،اُنہوں نے دیا ہے‘‘اُس نے راحیل کی طرف اشارہ کیا۔میں نے بچی سے کاغذ پکڑ کر اُس کو واپس بھیج دیا اور اس کاغذ کی تہہ کھول کر پڑھنے لگی۔
ڈئیر عنبرین جی!
آپ یہ سوچ رہی ہوں گی کہ آپ کا نام مجھے کیسے معلوم ہوا ۔بس وہ کیا کہتے ہیں کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔بس کیا کہوں عنبرین جی!آپ مجھے پہلی ہی نظر میں بھاگئی تھیں۔میں آپ پر دل ہا ر بیٹھا ہوں ۔مجھے آپ سے بہت پیار ہے۔
(میں تو اُس کے معصوم سے چہرے کو ہی دیکھتا رہ گیا۔۔۔۔گھنے بکھرے گیسوؤں میں چھپا اک چاند سا چہرہ۔قربان جاؤں ،اُ س مصور کی تخلیق پر واہ سبحان اللہ !وہ اپنی کہانی سناتی رہی اور میں اُس کی باتوں میں کھویا ۔اُس کے حسین گلابی گالوں کو ہی دیکھتا رہا۔۔۔۔)
میں اب تمھارے بغیر نہیں جی سکتا ،اگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا مگر میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا اور آپ سے یہ بات کہہ ڈالی۔پلیز!مجھے یوں تنہا مت چھوڑ کر جانا ۔مجھے اپنا موبائل نمبر ضرور دینا ۔جواب کا منتظر رہوں گا ۔میر اموبائل نمبر یہ ہے۔۔۔۔۔۔
والسلام !
تمھیں دل سے چاہیے والا
راحیل احمد
خط پڑھ کرمجھے مسرت بھی ہوئی اور میں کچھ مضطرب بھی ہوئی۔اچھا تو مجھے بھی لگنے لگا تھا ۔سو دل نے اُسے اور اُس کے پیار کو تسلیم کر لیا۔پھر میں نے ،اُس کے نمبر پر کال کی اور اپنا حال دل اُسے سنا دیا۔
اِسی طرح پھر ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔پانچ دن ہم ملتان رہے اور پھر ہم سب واپس آگئے،لیکن میرا موبائل پر راحیل سے رابطہ رہا۔۔۔۔
*****
اب ہماری محبت کو تین سال گزر چکے تھے ۔میری سہیلیاں اب مجھے چھیڑا کرتی تھیں۔
’’اب بتاؤمیڈم!تم تو کہتی تھیں یہ پیار بس اک دکھاوا ہے۔۔۔۔یہ سب کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔اب بتاؤ ،تمھیں ہو گیا ناں پیار۔۔۔ہاہاہاہاہاہا
میں اُن کی باتیں سن کر شرما جاتی ۔راحیل اچھا لڑکا تھا۔وہ ایک پرائیوٹ بینک میں جاب کرتا تھا۔چار بہن بھائی تھے۔راحیل سب سے چھوٹاتھا۔
ایک دن باتوں کے دُوران ،میں نے راحیل سے کہا۔
’’اب تمھیں اپنے گھروالوں کو رشتے کے لیے ،میرے گھر بھیجنا چاہیے۔‘‘اُس نے بات ٹال دی۔کئی بار ،میں نے اُس سے ،اِس بات کا ذکر چھیڑا،مگر وہ اِس بات پر غورہی نہیں کرتا تھا۔اُس کے ابو کافی بیمار رہتے تھے اور امی بھی کچھ زیادہ ٹھیک نہ تھیں۔میرے بار بار اصرارپر اُس نے اپنے والدین کو میرے گھر رشتے کے لئے بھیجا۔لیکن میرے ابو نے یہ بات کہہ دی۔
’’ہم پہلے اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں ۔اس کے بعد شادی کے بارے میں سوچیں گے ۔آپ کا فرزند ہمیں پسند ہے لیکن جب تک عنبرین کی پڑھائی مکمل نہیں ہو جاتی ،ہم اِس کی شادی نہیں کریں گے۔‘‘
*****
ایک دن ماموں ہمارے گھر آئے اور اُنہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ کچھ دن کے لئے مجھے اور امی کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں ۔ابو جان مان گئے ۔میں بھی کافی خو ش ہوئی ۔کیونکہ اِسی بہانے راحیل سے ملاقات بھی ہو جائے گی ۔میں نے ملتان پہنچ کر راحیل کو فون کیا کہ میں ملتان آگئی ہوں اور تم سے ملناچاہتی ہوں۔
پہلی بار ہم ایک ہوٹل میں ملے۔میں اور امی پندرہ دن ملتان رہے اور اکثر میری راحیل سے ملاقات ہو جاتی تھی،کیونکہ وہ نیبل بھائی کا دوست تھا اور اکثر ممانی جان کا حال احوال پوچھنے گھر بھی آجایا کرتا تھا۔
*****
اچانک راحیل کی گھروالوں سے لڑائی ہوگئی اور وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ رہنے لگا۔اُس کی جُدائی میں اُس کی امی بھی بیمارہوگئیں کیونکہ راحیل اڑھائی ماہ سے گھر نہیں گیا تھا۔جب راحیل کو اپنی امی کے بارے میں پتہ چلا تو وہ کبھی کبھی گھر چلا جایا کرتا تھا۔راحیل کی امی کی یہی خواہش تھی کہ راحیل کی شادی جلد از جلد ہو جائے۔راحیل جب بھی گھر جاتا تو وہ یہی باتیں کرتیں۔
’’امی!آپ بار بار کیوں یہ کہتی ہیں۔میں نے کہاناں کہ شادی صرف عنبرین سے کرواؤں گا بس۔‘‘راحیل کی امی یہ سب سن کر خاموش ہو جاتیں اور راحیل وہاں سے اُٹھ کر آجاتا۔ابھی میری پڑھائی مکمل ہونے میں پانچ سال باقی تھے۔راحیل نے مجھے کہنا شروع کردیا کہ۔
’’عنبرین !تم اپنے گھر والوں کو مناؤ،میں اتنا انتظار نہیں کر سکتا۔‘‘اِسی بات کو لے کر ہماری آپس میں کئی بار لڑائی ہوئی اور ہم اِس دوران کئی کئی دن تک ایک دوسرے کو فون نہ کرتے۔
*****
اچانک ایک دن راحیل کی امی کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور وہ اِس دُنیا سے چپ بسیں۔میں اس بات سے کافی پریشان ہوئی ۔مجھے سچ میں بہت دُکھ ہوا۔راحیل بھی کافی پریشان تھا۔میں نے اُسے تسلیاں دیں۔۔۔
دن گزرتے رہے۔ایک دن راحیل کا فون آیا ،وہ کہنے لگا۔
’’تم اور تمھارے گھر والے میری ماں کے قاتل ہیں۔تم لوگوں نے ہی میری ماں کو مار ڈالاہے۔وہ میری شادی کی خواہش اپنے دل میں لے کر دُنیاسے چلی گئیں۔‘‘میں اُ س کی بات سن کر بہت پریشان ہوئی ۔۔۔میں نے پوچھا۔
’’کیا بات ہے راحیل۔۔۔۔؟ایسی باتیں کیوں کر رہے ہو۔۔۔؟میرے امی ابو نہیں مانے تو اِس میں میرا کیا قصور۔۔۔۔؟بہر حال وہ میری باتوں کو ignor
کرنے لگا۔
اُس نے ضد میں آکر کسی او ر سے شادی کرلی۔جس کا پہلے سے ہی ایک بیٹا تھا۔یہ خبر سن کر میں بہت پریشان ہوئی۔میری تو دُنیا ہی اُجڑگئی تھی۔میری چاہت ۔۔۔میر ی محبت۔۔۔میرا محبوب۔۔۔کسی اور کا ہو چکا تھا۔
یہ سن کر میری حالت کافی خراب ہوگئی لیکن بعد میں مجھے یہ معلوم ہواکہ راحیل نشہ کرتا تھا اور شراب بھی پیتا تھا۔یہاں تک کہ اُ س نے ایک دوست کے ساتھ مل کر اپنا خم خانہ بھی بنا رکھا تھا۔مجھے یہ سب سن کر بہت دُکھ ہوا۔
******
جب میری پڑھائی مکمل ہوئی تو میں
M.B.B.S
ڈاکٹربن گئی۔ابو نے میری شادی ایک ایسے لڑکے سے کروادی جو کہ مجھے بالکل پسند نہ تھا۔
’’وہ آج بھی مجھے قصور وار ٹھہراتا ہے تابش صاحب!آپ بتاؤ ،اس میں میرا قصور کیا ہے۔۔۔جو اُس نے مجھے اِتنی بڑی سزادی۔وہ میرے جذبات سے کھیلاہے۔‘‘عنبرین نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
سلیم(میرا شوہر)مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔شادی کے بعد میں کراچی آگئی ۔سلیم ایک بہت بڑا بزنس مین ہے۔بس ابو نے ،اُس کی دولت ہی دیکھ کر میری اس سے شادی کروا دی۔آج میں ایک ناشاد ،زبردستی کی زندگی جی رہی ہوں۔وہ مجھے ذرابھی پیار نہیں کرتااور میں بھی اُس سے نجات چاہتی ہوں۔نہ چاہتے ہوئے بھی میں اُس کے ساتھ رہ رہی ہوں ۔راحیل سے مجھے آج بھی محبت ہے،لیکن مجھے اِس بات کا افسوس ہے کہ اُس نے مجھے دُھوکہ دیا۔
’’تابش صاحب!آپ بتائیں کہ میں قصوروار کیسے ہو سکتی ہوں۔؟‘‘ساتھ ہی اُس کی جھیل سی گہری آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گِرنے لگے۔
میں عنبرین کی داستان سن کر کافی افسردہ ہو گیااور میری آنکھیں بھی پُرنم ہو گئیں
’’عنبرین صاحبہ!قسمت کے فیصلوں پر کسی کا زور نہیں چلتا۔دیکھوآپ کو بعد میں معلوم پڑا کہ وہ نشہ کرتا ہے اور نجانے کیا کیا گُل کھلاتاہوگا۔۔۔۔میں تو یہی کہوں گااللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی رحمت میں لے لیااور اُس کے شر سے بچا لیا۔اِس میں آپ ہی کی بھلائی ہے۔جو ہوااچھے کے لیے ہی ہوا۔نجانے شادی کے بعد آپ کو کیا کیااذیتیں سہنا پڑتیں۔۔۔۔اور ہاں !رہی بات اُس کی امی کی وفات کی،تو اِس میںآپ قصور وار نہیں ہو۔۔یہ معاملات بڑوں میں طے پائے تھے۔آپ کے ابو نے ان سے جو بات کی تھی،اُ س میں،آپ کی شراکت نہیں تھی ناں۔۔۔۔۔باقی موت تو برحق ہے۔اِس دُنیا سے سب نے ہی ایک نہ ایک دن چلے جان ہے۔میری نظر میں آپ بے قصور ہیں۔میری بات مانو ایک اچھا لڑکا ہے۔آپ اُس سے اپنے معاملات درست کرنے کی کوشش کرو۔جب آپ اس سے سچے دل سے پیار کروگی تو وہ بھی آپ سے سچے دل سے پیار کرے گا۔گھر بار بار نہیں بسائے جاتے۔یہ تو پوری زندگی کے بندھن ہیں اور اِنہیں نبھانا پڑتا ہے۔
’’تابش صاحب!آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر۔۔۔۔۔۔۔؟
’’دیکھیں آپ نے میری رائے چاہی تو میں نے آپ کو دے دی۔باقی آپ کی اپنی لائف ہے اور اِسے اپنی مرضی سے گزارنے کا آپ کو پورا پورا حق ہے۔میں یہ بات مانتا ہوں کہ آپ کے ساتھ بے وفائی ہوئی ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہماری بھلائی کے لئے ہی ہوتے ہیں۔وہ اپنی مخلوق سے پیار کرتا ہے اور جو اُس کے حق میں بہتر ہو وہی کرتا ہے۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہم سمجھ پائیں یا نہ سمجھیں۔لہذا آپ راحیل کو بُھول جاؤ اوراپنی زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو،کیونکہ انسا ن اگر اپنے ماضی کو ہی یاد کرتارہے تو حال اور مستقبل خراب ہو جاتا ہے۔شوہر کی خدمت اور اطاعت ہی آپ کی زندگی ہے جس سے آپ کو دُنیا اور آخرت میں اچھا صلہ ملے گا۔اپنے گھر کو بساؤ اورماضی کی تلخ حقیقتوں کو بُھول جاؤ۔آپ کا خیال بالکل ٹھیک تھا کہ عشق پیار ومحبت سب دُھوکہ ہے۔‘‘
*****
رات کافی ہو چکی تھی۔اُ س نے مجھ سے اجازت چاہی اور اپنے ڈرائیور کو فون کیا۔چند منٹوں بعد گاڑی آئی اور وہ چلی گئی۔میں کافی دیر تک اس کے کہے الفاظوں کے بارے میں سوچتا رہا۔۔۔۔مجھے اپناماضی یاد آنے لگا۔سچ ہی کہتے ہیں یہ پیار کچھ نہیں بس ایک دُھوکہ ہے۔راحیل نے خود ہی پیار کیا اور عنبرین کو قصوروا ٹھہرا کر چھوڑ دیا۔عنبرین کی زندگی کو ایک سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا۔
ڈر لگتا ہے کہ آج کی نئی نسل اپنی زندگیوں کو سپرد خرافات نہ کر دے۔ان سب کاموں سے حاصل کچھ نہیں ہوتا سوائے پچھتاوے کے۔میرا خیال ہے کہ راحیل جیسے انسان سے تو ویسے ہی کنارہ کشی اختیارکرنی چاہیے۔کیونکہ اُس کا نہ اپنا مقام تھا او ر نہ ہی وہ ایک نارمل انسان تھا۔عنبرین کی لائف تباہ ہو جاتی اگر وہ اُس کے ساتھ شادی کرلیتی ۔اِسی لیے کہتے ہیں کہ
’’اللہ تعالیٰ انسان کے لیے جو کرتا ہے بہت ہی کرتا ہے۔‘‘
دوستو!یہ عشق ومحبت یہ پیار سب دُھوکہ ہے۔کچھ بھی حقیقت نہیں ہے ۔ہاں۔۔۔۔دُنیا میں چند ایک ایسے خوش نصیب ہوں گے جن کو اُن کا پیار مل سکا ہو گا۔۔مگر اِس کھیل میں دُشواریاں ہی دُشواریاں ہیں۔۔خار دار راستے ہیں۔۔۔اور محبت مل جانا تو بڑے نصیب کی بات ہے۔محبت کا درد بہت جان لیوا ہوتا ہے۔انسان اپنے ماضی کو جتنا بھی بُھلانا چاہیے لیکن ہر کوشش ناکام ہوتی ہے۔عنبرین تو چلی گئی پر اُس کی باتیں دیر تک میری سماعتوں سے ٹکراتی رہیں۔۔۔مگر۔۔
چند دنوں بعد اخبار میں ایک سُرخی پر نظر ٹک گئی۔۔لکھا تھا۔
ایک حسینہ شوہر کی دولت،محل چھوڑ کر اپنے ڈرائیور کے ساتھ فرار ہو گئی۔۔۔سننے میں آیا ہے کہ وہ دونوں محبت کرتے تھے۔۔۔۔جدید زمانے کی جدید محبت۔۔۔۔۔۔۔
سُرخی کے نیچے تصویر بھی لگی تھی اور وہ تصویر عنبرین کی تھی جو اپنے سابقہ ڈرائیور اور موجودہ شوہر کے ساتھ مسکراتی نظر آئی۔
میں حیرتوں کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔محبت اور عورت کو کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔آپ کا کیا خیال ہے۔۔۔۔؟

Short URL: http://tinyurl.com/zfbgda2
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *