اتحاد امت یا انتشار امت!

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ملک شفقت اللہ

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا نے مضبوط قدم جما رکھے ہیں۔ فنون لطیفہ،حالات حاضرہ,قومی و بین الاقوامی,بین البر اعظمی,سیاسی,معاشرتی,سماجی,معاشی اور مذہبی امور,بین الکائناتی ابلاغ میں جس قدر وسعت الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے ہوئی ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ اسی قدر تمام پیرایوں میں انسانیت اور کائنات کی تذلیل کی بھی مثال نہیں ملتی۔ آزادی ء اظہارِ رائے اور ذریعہ ابلاغ ہونے کی آڑ میں صرف اور صرف کاروبار کیاجا رہا ہے جس نے تمام انسانی و اخلاقی پہلوؤں کو پچھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ جو لوگ تماشا کرنا اور تماشا لگانا جانتے ہیں انہیں برقی ذرائع ابلاغ میں بھرپور پذیرائی حاصل ہے۔ اس کے بر عکس معاشرے کو سدھارنے والے,انسانیت کا سینے میں درد رکھنے والے اور توازن قائم رکھنے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کیا ہی حیف ناک امر واقع ہوا ہے کہ دین بھی اسی کاروبار کی زد میں ہے۔ اور بیچنے والے یہی کلمہ گو مسلمان بلکہ علامہ اور مفتی کی ڈگریاں لینے والے لوگ ہیں۔ خِرد نے کہہ بھی دیا ’لااِلہ‘ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں پروفیسر حمیداللہ ہاشمی علامہ اقبال کے اس شعر کی شرح میں لکھتے ہیں کہ: علامہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان زبان سے کلمہ توحید پڑھ بھی لے اور خدا کو الٰہ مان بھی لے تو اس سے اس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ دل سے بھی اس کا اقرار نہ کیا جائے۔ اقرار دل سے مسلمان کی نگاہ میں بھی فرق پڑ جاتا ہے اور یہی مقصود مسلمانی ہے۔ آج کا مسلمان زبان سے تو کلمہ پڑھتا ہے لیکن اس کا دل اور اس کی نگاہ اس کلمے کے مطابق نہیں ہے۔ پاکستان میں آغازی نشریات میں جب بہت کم نجی برقی ادارے ہوتے تھے تو اس وقت تماش بین بھی شاذ و نادر ہی میسر تھے۔ یا شاید آپ یوں کہہ لیں کہ ان اداروں کو چلانے والوں کے دلوں میں ایمان باقی تھا۔ اس وقت زیادہ تر پروگرام اسلامی,فلاحی اور تربیتی ہوا کرتے تھے۔ رمضان شریف میں قیام الیل کے وقت مسجد نبوی اور حرم میں ہونے والی عبادت کی ریکارڈنگز کو چلایا جاتا تھا۔یا قرآن کی تلاوت چلا دی جاتی تھی جو سحر تک چلتی تھی۔ اذانوں کے وقت اذانیں ہوا کرتی تھیں جہاں سے سن کر بہت سے لوگوں نے یاد کی اور اس جیسی صداکاری بھی سیکھی۔ لیکن اب ٹی وی چینلز بھی بڑھ چکے ہیں۔ تماش بین بھی بڑھ گئے ہیں۔ ان کی قابلیت یا علم کا معیار کچھ معنی نہیں رکھتا۔ سوشل میڈیا پر انہیں سننے والوں کی تعداد حجم رکھتی ہے۔ یہ شاید ساتواں رمضان المبارک ہے جس میں سحر و افطار کے وقت پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں جس کا میزبان بڑا تماشا اور مہمان اس سے بھی بڑے ایکٹرہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ یہ پروگرام عدالت عالیہ نے ان تماش بین عورتوں سے واپس لئے ہیں جن کے سامنے اللہ کا حکم پردہ اور پاکبازی کے بارے میں سنایا جا رہا ہوتا تھا اور وہ اس حکم کو بھی کاؤنٹر کر رہی ہوتیں تھیں۔لاحولا ولاقوۃ! اور پچھلے سال ان پروگراموں پر مکمل پابندی عائد کرنے کا عدالتی حکم نامہ جاری ہوا تھا۔ اس رمضان المبارک میں بھی تمام قومی چینلز پر ایسے پروگرامز منعقد ہو رہے ہیں۔ افسوس کہ ان میں شمولیت کرنے والے لوگوں کا حال علامہ اقبال کے شعر سے ہٹ کر کچھ نہیں۔ کاش یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہوتے اور غزوہ تبوک میں شامل نہ ہوتے کم از کم ان کے دلوں کے حالوں بارے کسی گمان یا تجسس کی گنجائش باقی نہ رہتی۔ حال ہی میں ایک قومی ٹی وی چینل کے پروگرام میں موضوع دیا گیا کہ فرقہ واریت کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے!مجھے افسوس ہے کہ اس میں ہر مکتبہ فکر اور مسلک کے عالم لوگ بیٹھے تھے اور انہوں نے موضوع کی بجائے اپنی بین سنانی شروع کر رکھی تھی۔ یہ بھی دور جاہلیت کی ایک قسم سمجھیں جس میں ایمان حلق سے نیچے اترتا دکھائی نہیں دیتا۔ کسی نے یہ بات نہیں کی کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی فرقہ یامسلک کے ساتھ منسلک ہونے کی بات نہیں کی۔ انہوں نے قرآن سے اللہ کا حکم نہیں سنایا کہ ابراہیم و موسی،عیسی و مریم، ذکریا و داؤد، یعقوب و یوسف،و آدم و اسماعیل، یونس و دانیال علیہم السلام الغرض کہ دنیا میں جتنے بھی پیغمبر آئے اور نبی اکرم محمد رسول اللہ و خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان تھے۔ان کے ماننے والے اور اللہ پر ایمان لانے والے بھی مسلمان ہیں۔ اور اس پر بات کرنی چاہئے کہ اللہ کے نذدیک صرف ایک ہی دین ہے اور وہ اسلام ہے۔ اور اسلام کے ماننے والے مسلمان ہیں۔ قرآن کا یہ حکم کیوں نہیں سنایا گیا کہ فرقوں میں مت پڑو اللہ کی رسی یعنی قرآن کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ جو تفرقہ کرتا ہے یا فتنہ پھیلاتا ہے اس سے اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی تعلق نہیں۔یہ کونسے عالم ہیں کہاں کے عالم ہیں جو اپنی ناقص عقل کی تاویلیں پیش کرتے ہیں مگر اللہ کا حکم پیش نہیں کرتے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جن آئمہ کی پیروکاری کا یہ دعوی کرتے ہیں انہوں نے کبھی نہیں کہا ہوگا کہ تم فرقوں میں بٹ جاؤ۔ ایسا کونسا عالم ہو سکتاہے جو ایسی بات لکھے یا ایسا فتوی جاری کرے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ساتھ ٹکرا جائے۔ اگر نہیں تو پھر انہیں شرم کرنی چاہئے,حیا کرنی چاہئے!!۔ ایک اور نجی قومی ٹی وی چینل پر ایساہی پروگرام ہوتا ہے جس میں مختلف فروحی موضوعات پر بحث کروائی جاتی ہے۔ تمام مسالک کے علماء سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے فقہ کا کیا مؤقف ہے اور دوسرے کے فقہ کا کیا مؤقف ہے۔ یہ کہاں سے آگیا بھائی۔ سوال تو یہ بنتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس موضوع کے بارے میں کیا حکم ہے۔ کیا ان علماء کے فقہی دلائل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے بڑھ کر ہیں؟؟ اور یہی حال باقی تمام چینلز کے پروگراموں کا بھی ہے۔ یہ کونسا طریق ہے جس سے امت متحد ہو سکتی ہے؟ یہ تو تقسیم کرنے کا عمل ہے۔ اگر ٹی وی چینلز ان مذہبی موضوعات کو متنوع سمجھتے ہیں اور ان مسلکی تقسیم کرنے والوں سے ڈرتے ہیں تو انہیں ایسے پروگرامز بند کر دینے چاہئیں کیونکہ وہ پہلے ہی ثواب یا نیکی کی نیت سے نہیں بلکہ پیسوں کیلئے کر رہے ہیں۔ اور اگر ہمت کرنی ہی ہے تو صرف قرآن و حدیث کے درس تک محدود رہنا چاہئے جو صرف مستند عالم ہی دے سکتا ہے۔ عوام اور مقتدر حلقہ اس بارے میں سوچے! پاکستان کی عوام بہت زیادہ تقسیم کا شکار ہے۔ اس تقسیم کو اب روکا جانا چاہئے۔۔۔

Short URL: https://tinyurl.com/267uc33l
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *