۔ 55سالہ پیپلزپارٹی عوام کی آخری امید

Yasir Khan Babbar
Print Friendly, PDF & Email

the last hope of the people the last hope of the people the last hope of the people the last hope of the people the last hope of the people the last hope of the people the last hope of the people the last hope of the people

تحریر: سردار یاسر خان ببر

دنیا آج کچھ بھی کہے مگر پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد پاکستان کی بقااور سلامتی کے لیے رکھی گئی ایک وقت ایسا آیا جب شہید زوالفقار علی بھٹو نے محسوس کیا کہ اس ملک کے عوام کی حقیقی نمائندگی کے لیے ایک مظبوط اور متحرک پارٹی کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے انہوں نے17جون 1966کو بطور وزیرخارجہ جنرل ایوب کی کابینہ سے استعفیٰ دیدیا،یہ جمعرات کادن تھا30نومبر 1967 کو ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے قیام پاکستان کے بعد پہلی بار ایک عوامی، نظریاتی اور انقلابی منشور دیا جو عوام کے دلوں کی آواز بن گیا، اس منشور کا بنیادی فلسفہ روٹی کپڑا اور مکان تھا جو اس وقت لوگوں کی زبان وعام پر موجود تھا۔ لاہور کے ایک مقامی کالج کے کچھ نوجوان طلبا نے بھٹو صاحب سے ملاقات کی جو اپنے ساتھ نئی پارٹی کا پرچم بھی بناکر لائے تھے انہوں نے بھٹو ڈصاحب کو پارٹی کانام بھٹوز پیپلزپارٹی تجویز کیا مگر اس وقت بھٹو صاحب نے کہا کہ میری پارٹی نہیں بلکہ عوام کی پارٹی ہے اس لیے اس کا نام میرے نام سے نہیں بلکہ عوام کے نام سے ہی ہونا چاہیے بھٹو صاحب کی اس انقلابی سوچ کی بدولت ملک بھرمیں بھٹو صاحب کی کرشماتی شخصیت اور انقلابی منشور کا جادو سر چڑھ کر بول رہاتھا، انہوں نے صرف چند ماہ کے اندر 1970کے انتخابات میں روایتی جماعتوں اور بڑے بڑے سیاستدانوں کو سیاست سے نکال باہر کیا،راولپنڈی اسلام آباد سے جب وہ ٹرین مارچ کی شکل میں کراچی کی جانب روانہ ہوئے تو ہر اسٹیشن پر انسانوں کا ٹھاٹھے مارتا سمندر ان کا استقبال کرتا ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ گھنٹوں ان کا انتظارکرتے،اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پیپلزپارٹی دنوں میں مغربی پاکستان کی مقبول ترین پارٹی بن گئی،ایک ایسی پارٹی جس کی جڑیں محلوں میں نہیں بلکہ غریب عوام کے گھروں میں تھی،ان کی اس مقبولیت کو ختم کرنے کے لیے سازشوں کا بھرپورسلسلہ چل نکلاسرکاری خزانوں کے منہ کھول دیئے گئے، پاکستان پیپلز پارٹی کو جب پہلی بار اقتدار ملا تو پاکستان دولخت ہوچکا تھا، ملک کی معیشت تباہ ہوچکی تھی، پی پی پی کی قیادت نے دو سال بڑی گرمجوشی کے ساتھ اپنی پارٹی کے منشور پر عمل کیا اور انقلابی اصلاحات کیں۔1973کا متفقہ آئین دیا،کامیاب اسلامی سربراہی کانفرنس کرائی،ایٹمی صلاحیت کی بنیاد رکھی اور عوام کو پہلی بار ان کے حقوق کا شعور دیا، پہلی بار پاکستانیوں کو شناختی کارڈ دیا گیا۔عوامی خدمت کا سلسلہ جاری تھا کہ ا شہیدزوالفقار علی بھٹوکی صاحبزادی بینظیربھٹو 1977ء میں وطن عزیز پاکستان واپس آئیں ان کی وطن واپسی سے صرف دو ہفتے بعد ملکی حالات کشیدہ ہونے پہ5جولائی 1977کو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے بھٹو صاحب کو جیل بھیجنے کے ساتھ ساتھ ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کو بھی گھر کے اندر نظر بند کر دیا گیااپریل 1979ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک جھوٹے اور متنازع کیس میں پھانسی کی سزا سنا دی مارشل لاکے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے 1981ء میں ایم آر ڈی کے نام سے اتحاد بنایا گیا دسمبر 1983ء میں تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کیا، 1984ء میں بے نظیر کو جیل سے رہائی ملی، دو سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری انہیں پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے پارٹی کا سربراہ بنا دیا، جونیجو حکومت نے ملک سے مارشل لا ختم کیا تو 10 اپریل 1986ء میں بے نظیربھٹو لاہور ایئر پورٹ پہ اتریں ان کا فقید المثال استقبال کیا گیالاکھوں لوگ بھٹو کی بیٹی کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب نظر آئے لاہور میں یہ پیپلز پارٹی کا پاور شوسیاسی تاریخ میں ایک بار پھر سے بھٹو کی یاد تازہ کرچکا تھا، 1987ء میں نواب شاہ کے حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ان کے ہاں تین بچے بلاول،بختاور اور آصفہ ہوئے ان کے بڑے صاحبزادے بلاول بھٹو ہیں مسلسل سیاسی تگ ودو کے بعدپہلی بار بے نظیر بھٹو نے دو دسمبر1988ء میں 35 سال کی عمر میں ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا لیکن صرف 20 مہینوں کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا 1990ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی پی پی پی الیکشن ہار گئی اور بطور قائد حزب اختلاف کا رول کیا جبکہ1993ء کے الیکشن میں دوسری مرتبہ پھر وزیر اعظم منتخب ہو گئیں اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے بعد دوسری شخصیت تھیں جو دوسری بار وزیر اعظم کے عہدہ پہ فائز ہوئیں دوسری مرتبہ بھی انہیں اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہ دیا گیا سازشیوں کی وجہ سے انہیں جلاوطنی اختیار کرنا پڑی، پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو تقریباً ساڑھے آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کر کے 18 اکتوبر کو وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی ائیرپورٹ پر فقید المثال استقبال کیا گیا2008 ء کے عام انتخابات میں الیکشن مہم کے سلسلہ میں 27دسمبر2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ عام کے بعد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئیں انہیں راولپنڈی جنرل اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ زخموں سے جاں بر نہ ہوسکیں اور شام 5 بجکر 10 منٹ پر اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کرگئیں اگلے روز انہیں آہوں اور سسکیوں میں ان کے والد اور بھائیوں کے پہلو میں گڑھی خدا بخش، لاڑکانہ میں سپردخاک کردیا گیا،ان کے بعد جس انداز میں مرحر آصف علی زرداری نے پارٹی کی روایات کو دھرایا اور پارٹی کو سنبھالا دیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے انہوں نے پہلی بار دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستان کھپے کا نعرہ لگایااور عوامی خدمت کا الم اٹھالیا اور اپنے سسر شہید زوالفقار علی بھٹو اور بیگم شہید بی بی کی جدوجہد کو آگے بڑھاان کی بہن جیالی محترمہ فریال ٹالپرنے بھائی کے ساتھ ملکر اپنی بھابھی اور ان کے والد شہید بھٹو کے فلسفے کو زندہ رکھنے کے لیے سندھ بھر میں عوام کی خدمت کی،پارٹی کی خاطر جیلوں کی صعوبتیں برداشت کی محترمہ فریال ٹالپر اور آصف علی زرداری کی عوامی خدمت کااندازہ اس بات سے لگایا جاتاہے کہ انہوں نے عید کے تہواروں میں بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے وقت گزارا اور وقت نے ان تمام مقدمات کو جعلی اور سیاسی ثابت کرکے انہیں سرخروکیا، اس قدر پارٹی قربانیوں کے باوجود آصف علی زرداری کا حوصلہ بلند تھا انہوں نے جس انداز میں نوجوان قیادت بلاول بھٹو کو سیاست کے میدان میں اتارا وہ لمحہ پوری دنیا نے دیکھا اور جس انداز میں بلاول نے والدہ اور نانا کی لاج رکھی ہے اسے بھی سب جانتے ہیں،آج بلاول بھٹو بطوروزیرخارجہ ملک وقوم کی خدمت کررہے ہیں،بلاول کی موجودہ حکومت کے اوائل میں ہی ملک کو سفارتی کامیابیاں ملیں اور تباہ حال قومی تشخص کی بحالی کا سفر احسن انداز میں جاری ہے یہ سفارتی کامیابی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی سیاسی بصیرت کی مرہون منت ہے جو انہیں اپنے سیاسی ورثے کی بدولت حاصل ہوئیں، کیونکہ وہ بھٹو کے نواسے اور بینظیر بھٹو کے سیاسی وارث ہیں ذوالفقار علی بھٹو نے جب وزارتِ خارجہ کا منصب سنبھالا تھا تو وہ بھی 35 برس کے تھے۔ اسی طرح بلاول بھٹو زرداری جب وزیرِ خارجہ بننے جا رہے ہیں،تو اِن کی عمر لگ بھگ 34 برس تھی۔یوں بلاول بھٹو زرداری، اہم عہدے سنبھالتے وقت تقریباً اپنے نانا اور والدہ کے جیسی عمر کے حامل ہیں،بلاول پی پی پی رہنما نے اپنے دورہ امریکہ میں جہاں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کوہونے والے نقصانات پر عالمی رہنماؤں کے ضمیر جھنجھوڑے ہیں وہیں انھوں نے پاکستان میں سیلاب اور بارشوں سے ہونے والی تباہی پر عالمی برادری کی بھی خوب توجہ سمیٹی یہ ہی وجہ ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی کامیاب حکمت عملی سے دنیا بھر کے سفیر پاکستان کے سیلاب متاثرین کا دورہ کررہے ہیں اور اپنے ممالک پر سیلاب متاثرین کی مزید امداد کے لیے زور دے رہے ہیں۔یو این او کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کا پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ بھی بلاول بھٹو زرداری کی کامیاب خارجہ پالیسی کا عکاس ہے بلاول بھٹو نے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کا مقدمہ زبردست انداز میں لڑ کہ امریکہ نے اپنے وسائل میں سے پاکستان کے سیلاب متاثرین کو مزید 10 ملین ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیاجبکہ آج پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا سہرا بھی پی پی کے نوجوان قائد بلاول بھٹوکے سر جاتاہے۔

Short URL: https://tinyurl.com/2pn6ak5d
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *