میڈیا دہشت گردی کا نشانہ کیوں؟۔۔۔۔ تحریر:ممتاز حیدر

Mumtaz Haider
Print Friendly, PDF & Email

کراچی میں الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد میڈیا ہاؤسز پر حملے آزادی صحافت پر حملہ کے مترادف ہیں۔پاکستان میں مختلف ادوار میں میڈیا کو دھمکیوں کا سامنا رہا ہے تو دوسری جانب دہشت گردوں و شرپسند عناصر کی جانب سے صحافیوں پر حملے کئے گئے اور آزادی صحافت کے لئے صحافی شہید ہوتے رہے۔پرویز مشرف نے جب ایمر جنسی لگائی تھی اسوقت نجی چینلز کی نشریات بند کر دی گئی تھیں تو ایمرجنسی کے خلاف جہاں سیاسی جماعتوں نے تحریک چلائی تھی وہیں کراچی کے صحافیوں نے بھی جمہوریت کو بچانے کے لئے تحریک میں بھر پور حصہ لیا تھا۔ایک سو سے زائد صحافیوں نے گرفتاریاں دی تھیں جو پاکستانی تاریخ میں پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئی تھیں۔کراچی میں ہی ولی بابر کو شہید کیا گیا ۔لاہو ر میں بھی میڈیا ہاؤسز کو نشانہ بنایا گیا لیکن اب الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد جو ہوا اس پر پاکستانی قوم سراپا احتجاج ہے ،ملک بھر کے پریس کلب،صحافی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔لاہور میں پاکستان فیڈر ل یونین آف جرنلسٹ،لاہور پریس کلب،پنجاب یونین آف جرنلسٹ،الیکٹرانک میڈیا رپورٹر ایسوسی ایشن کے باہمی اشتراک سے لاہورپریس کلب میں’’ میڈیا انتہا پسندی کا شکار کیوں‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں سینئر صحافیوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنا مؤقف پیش کیا۔سیمینار میں صحافیوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔کامیاب سیمینار کے انعقاد کا سہرا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر رانا عظیم کے سر جاتا ہے جنہوں نے ایک اہم ایشو پر صحافی برادری کو نہ صرف اکٹھا کیا بلکہ سیاسی عمائدین کو بھی دعوت دی کہ جمہوری دور میں صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز پر حملے ہو رہے ہیں حالانکہ جمہوریت کے لئے صحافی بھی اپنا قلم اور کیمرہ لے کر صف اول میں ہوتے ہیں۔سیمینار میں پنجاب حکومت کی جانب سے صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ نے شرکت کرنا تھی لیکن وہ نہ آ سکے ،اپوزیشن جماعتوں سے تحریک انصاف کے رہنما چوہدری سرور،جماعت اسلامی کے امیر العظیم اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدرعلی ظفر نے شرکت کی۔سیمینار میں صحافیوں کے اتحاد پر زور دیا گیا۔سیمینار کے ابتدائیہ میں لاہور پریس کلب کے صدر شہباز میاں نے کہا کہ جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی پاکستان میں کوئی بھی محفوظ نہیں،میڈیا ورکر ز کے حالات بہت گھمبیر ہو گئے ہیں۔اس جنگ میں درجنوں صحافی شہید ہو چکے ہیں اور زخمی بھی ہوئے ہیں جو معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔سانحہ کوئٹہ کے بعد صحافی دوست لاہور آئے انہیں اپنے ادارے قبو ل کرنے کو تیار نہیں اور وہ اب بے روزگار ہیں۔جب کسی واقعہ میں کوئی صحافی زخمی ہوتا ہے تو چینلز اپنی بریکنگ نیوز بناتے ہیں اس کے بعد اس زخمی یا شہید کو بھول جاتے ہیں ،اداروں کے مالکان کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ہمارے ادارے میں کام کرنے والا صحافی جو اس دنیا میں نہیں رہا اسکے بچے سکول جا رہے ہیں یا نہیں،اسکے گھر میں کچھ کھانے کو ہے یا نہیں اور یہی سب سے بڑ االمیہ ہے،میڈیا مالکان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ورکروں کا خیال رکھیں۔وفاقی و صوبائی حکومتیں صحافیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہیں۔دس دس لاکھ تنخواہیں لینے والے اینکرز کو تو حکومت سیکورٹی دیتی ہے لیکن رپورٹرز اور کیمرہ مین کی سیکورٹی کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا،مالکان کیمرہ انشورڈ کروا لیتے ہیں لیکن کیمرہ چلانے والے کو نہیں یہ بھی بدقسمتی ہے۔میڈیا ورکرز دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول کا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن کسی بھی ادارے نے حالت جنگ میں رپورٹنگ کرنے کی کوئی تربیت نہیں دی ۔موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنے رپورٹرز،کیمرہ مین،فوٹو گرافرز،ڈی ایس این جی سٹاف کو تربیت دینی چاہئے،پیمرا میڈیا مالکان کو تربیت دینے کا پابند کرے۔الیکٹرانک میڈیا رپورٹر ایسوسی ایشن کے صدر عابد خان کا کہنا تھا کہ عدم برداشت کا زہر معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے۔میڈیا کا کام سیکورٹی فورسز کی طرح ہے،رپورٹرز و کیمرہ مین فورسز کی طرح خبر کے لئے سب سے پہلے پہنچتے ہیں،انکو سیکورٹی فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔کراچی میں دن دیہاڑے میڈیا ہاؤسز پر حملہ کیا گیا ،اس سے پہلے ولی خا ن بابر کو قتل کیا گیا اور اس کے گواہ کو بھی قتل کر دیا گیا،میڈیا میں جسکے خلاف خبر چلتی ہے وہ اس ادارے کا دشمن بن جاتا ہے حالانکہ خبر سچی ہوتی ہے۔معاشرے سے انتہا پسندی کی سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔پنجاب یونین آف جرنلسٹ کے صدر شہزاد حسین بٹ کا کہنا تھا کہ الطاف حسین اب اپنا مشن پورا کر چکا ،اس کے عزائم سب کے سامنے ظاہر ہو گئے ہیں اب حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کام کرے،نائن زیرو سیل ہو چکا لیکن پنجاب حکومت نے ابھی تک ایم کیو ایم کے دفاتر کو سیل نہیں کیا ،پنجاب میں بھی ملک دشمن جماعت کے دفاتر فوری بند کئے جائیں۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر رانا محمد عظیم کا کہنا تھا کہ وکلاء اور میڈیا نے جمہوریت کے لئے سب سے زیادہ جنگ لڑی۔کوئٹہ میں جو ہوا اس سے وکلاء بیس برس پیچھے چلے گئے،کراچی میں میڈیا ہاؤسز پرحملوں کی ذمہ دار صرف ایم کیو ایم نہیں بلکہ حکومت بھی ہے۔الطاف حسین کی تقریر کے بیس منٹ بعد میڈیا ہاؤسز پر حملہ ہوا حکومت نے کیوں نہیں روکا؟ادارے کیوں خاموش رہے؟بہت سی طاقتیں ایسی ہیں جو سچ کو برداشت نہیں کرتی،صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ پنجاب میں بھی صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے،اوکاڑہ کے صحافیوں پر صرف اسلئے مقدمہ درج کیا گیا کہ انہوں نے ڈی پی او کے خلاف خبر لگائی تھی،خوشاب میں ایک رکن اسمبلی کے خلاف خبر لگانے پر صحافی کی ٹانگیں توڑی گئیں،لیکن کسی بھی سیاسی جماعت نے صحافیوں کے حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کی،مذمتی بیان سے بات نہیں بنے گی۔صحافیوں نے سیاسی جماعتوں اور جمہوریت کی خاطر قربانیاں دیں لیکن جب اہل قلم پر مشکل وقت آتا ہے تو اہل سیاست خاموش ہو جاتے ہیں۔کراچی اور کوئٹہ میں جو ہوا اب کسی اور شہر میں نہیں دیکھنا چاہتے۔سینئر تجزیہ نگار مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کوئی صوبہ ایسا نہیں جہاں صحافی محفوظ ہوں۔ہم پچھلے سات سال سے ملک دشمنو ں کو بے نقاب کر رہے تھے لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں تھا ۔میڈیا کو قاتل،بھتہ خور ،دہشت گرد کی سائیڈ نہیں لینی چاہئے۔میڈیا کو یہ ضابطہ اخلاق بنانا چاہیے کہ جو شخص فرقہ واریت ،لسانیت کی بات کرے گا،پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بولے گا اسے قطعی کوریج نہیں دی جائے گی ۔میڈیا اور بار کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔وکلاء ایک ایسا فورم تشکیل دیں جو صحافیوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرے ۔تحریک انصاف کے رہنما چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ سانحات و حادثات میں شہید اور زخمی ہونے والے صحافیوں کو فوج اور پولیس کو جو مراعات ملتی ہیں ،لواحقین کو اتنی ہی ملنی چاہئے۔سینئر صحافی بیدار بخت بٹ کا کہنا تھا کہ میڈیا آسان ٹارگٹ ہے اور سچ کو سامنے لانے کی وجہ سے نشانہ بن رہا ہے۔میڈیا پاکستان کی بہت بڑی فورس ہے لیکن بدقسمتی سے متحد نہیں ہے۔حکومت کبھی بھی صحافیوں کو تحفظ دینے میں سنجیدہ نہیں رہی اور سیاسی جماعتیں بھی صرف مذمتی بیان ہی دیتی رہیں گی۔سینئر صحافی و تجزیہ نگار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ پاکستان کا میڈیا انتہا پسندی کے خلاف یکسو ہے۔ہم انسانی حقوق کی بات کر رہے ہیں اور قومی مسائل کو اجاگر کر رہے ہیں۔جمہوریت کے نام پر آمریت مسلط کرنے والوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔کراچی میں میڈیا ہاؤسز ہمارے مورچے اور قلعے ہیں۔تکبیر کے ایڈیٹر صلاح الدین نے 30برس قبل کہا تھا کہ الطاف حسین را کا ایجنٹ ہے۔کراچی میں پندرہ سے بیس ہزار لوگ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔12مئی کراچی اور پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے،جس شخص نے پاکستان کے خلاف بات کی ابھی تک اسلام آباد میں اس کے خلاف اسلام آباد میں کوئی ریفرنس ابھی تک نہیں لایا گیا۔پاکستان کے مفادات کا تحفظ اہل قلم پر فرض ہے۔دھرتی ماں کو ٹارگٹ کرنے والے کو ہم کسی صورت معاف کرنے کو تیار نہیں۔جماعت اسلامی کے امیر العظیم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام پریس کلبز پر مشتمل ایک باڈی تشکیل دی جائے جو ضابطہ اخلاق طے کرے،آزادی صحافت پر حملہ ناقابل برداشت ہے،شہید ہونے والے صحافیوں کی تصاویر پریس کلب میں لگائی جائیں۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی ظفر کا کہنا تھا کہ صحافیوں اور وکلاء کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اپنے حقوق کے لئے متحد ہونا پڑے گا۔وکلاء میں گروہ بندی نہیں بلکہ وہ متحد ہیں۔صحافی بھی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرین اور وکلاء کے ساتھ ملکر تحریک چلائیں ۔جب صحافت آزاد ہو گی ،عدالتی نطام مضبوط ہو گا اور سول سوسائٹی کا ساتھ ہو گا تو پھر کسی بھی تحریک کو کامیابی سے نہیں روکا جا سکتا۔

Short URL: http://tinyurl.com/z572ech
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *