زادگانِ راہ۔۔۔۔ (سید اکبر شاہ، پشاور)۔

Print Friendly, PDF & Email

سیکرٹ۔۔۔انٹیلی جنس۔۔۔را۔۔۔کے احمدآباد سیکٹر میں ۔۔۔راہول۔۔۔جیسا خاموش طبع اور نڈر ایجنٹ شاید کوئی اور نہ تھا۔اس کی عقبی آنکھیں ذہانت اور متانت کی عملی تفسیر تھیں۔۔۔اس کی توجہ ہر وقت اپنے کام پر مرکوز رہتی۔۔۔خاموش طبع راہول کا یہ طلسم تب ٹوٹا جب اس نے۔۔۔ شردھا۔۔۔نامی سیکریٹ ایجنٹ سے محبت کا اظہار کیا۔۔۔مجھے تم سے بہت محبت ہے شردھا۔۔۔راھول کے لفظ لفظ میں محبت کی انمول مہک رچی بسی تھی۔۔۔میرا ہاتھ تھام لو۔۔۔میں غریب ہوں مگر تجھے ہر خوشی دوں گا۔۔۔راہول جیسے ذمہ دار ایجنٹ کے منہ سے یہ الفاظ سن کر شردھا چند لمحوں کے لئے سن ہوکر رہ گئی۔۔۔محبت تو انمول ہے،جو دلوں کو جوڑ دیتی ہے،ہر مشکل توڑ دیتی ہے اور ہر طوفان کا رخ موڑ دیتی ہے۔۔۔راہول اپنے سچے پیار کا اظہار کررہا تھا،اور اقرار چاہ رہا تھا۔۔۔سمجھنے کی کوشش کرو کچھ دل کی بجائے دماغ سے سوچو،میرے سر پر ذمہ داریوں کا انبار پڑاہے،مگر پھر بھی میں تمہارے پیار کے حوالے سے سوچوں گی۔۔۔شردھانے اسے کھوئی کھوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔اور اس کے پاس سے اٹھ کر چلی گئی۔۔۔
اس کا نپا تلا انکار سن کر راہول کا دل پاش پاش ہوکر رہ گیا،اس نے مزید کچھ ہاتھ پاوں مارنے چاہیں۔۔۔لیکن شردھا کی سردمہری نے اسے مزید آگے بڑھنے سے روک دیا،وہ بے اختیار دل مسوس ہوکر رہ گیا۔
******
سلیم کے شب وروز آوارہ گردی میں گزر رہے تھے۔کبھی کبھار اگر کالج جانے کا اتفاق ہو بھی جاتا تو کلاس میں لمبی تان کر سوجاتا،اور اونگھتے ہوئے ہی اس کی واپسی ہوتی۔گھر میں امی کی نصیحتیں اور ابو کی فصیحتیں اس کی جان کو دوڑتیں۔۔۔
نالائق ،نکمے انسان؛تجھے سمجھا سمجھا کر تو میرا گلا بیٹھ گیا ہے۔امی کھانستے کھانستے بولی۔اوہو،درد ہے گلے میں،لایئے دبادوں۔سلیم زیر لب مسکراہٹ سجائے شرارت سے بولا۔تیری تو ۔۔چل پرے ہٹ،ابو کی آواز گونجی۔اس کے ساتھ ہی ان کی پشاوری چپل تیر کی طرح اس کی طرف لپکی۔۔۔لیکن وہ صاف بچ گیا،پاس بیٹھی ہوئی امی کی پپی لی اور باہر کی طرف دوڑ لگادی۔باہر آکر اس نے ایک لمحے کے لئے کچھ سوچا۔۔پھر اپنے جگری یار شہزاد کی طرف چلنے لگا۔
شہباز ایک پرانے اور خستہ حال فلیٹ میں رہتاتھا۔اس کے ساتھ سلیم کی جان پہچان کچھ عرصہ پہلے ہی ہوئی تھی۔پہلی ملاقات میں شہبازنے اسے بتایا تھا کہ وہ کباڑیئے کاکام کرتا ہے۔۔۔بقول اس کے پہلے وہ یہ کام گاوں میں کررہاتھا،اور اب حال میں ہی شہر شفٹ ہوگیا ہے۔وہ عمر میں سلیم سے تقریبا ۱۰ سال بڑا تھا،آس پاس کے لوگوں کے ساتھ اس کا میل جول بہت کم اور نہ ہونے کے برابر تھا۔اس کے ماضی کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔۔۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس میں پتہ نہیں ایسی کیا بات تھی کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے قریب آتا چلا گیا۔۔۔وہ دونوں بہت کم عرصے میں بے تکلف ہوچکے تھے۔وہ کئی بار سلیم کے ہاں آیا بھی تھا۔سلیم کے والدین ہمیشہ بڑی شفقت سے اس کے ساتھ ملتے ۔شہبازجس فلیٹ میں رہتا تھا وہ خود کسی کباڑخانے سے کم نہیں تھا۔۔۔اور جب وہ وہاں پہنچا تو فلیٹ مالک شہزاد کے ساتھ اس کی زوردار جھڑپ جاری تھی،شہبازپچھلے ۶ ماہ سے کرایہ دینے میں ٹال مٹول کرتا۔۔۔آرہا تھا۔
حسب معمول شہزاد کو جھوٹی تسلیاں اور دلاسے دے کر بڑی مشکل سے دونوں نے اسے رخصت کردیا،سلیم کی فرمائش پر شہباز نے اپنی بائیک نکالی اور دونوں نزدیکی گراونڈ کی طرف روانہ ہوئے۔اس کے بائک کی حالت زار کباڑی کے کسی پیس سے کم نہ تھی ،اپنی حالت کے مطابق آہستہ آہستہ اسپیڈ پکڑتی چلی جارہی تھی۔اچانک ایک گاڑی کو دیکھ کرشہباز نے ایک جھٹکے سے بائیک روک دی ،اور جلدی سے سلیم کو اترنے کا کہا۔جیسے ہی سلیم اترا اس نے بغیر کچھ سنے بائیک گاڑی کے تعاقب میں آگے بڑھا دی،اس سے پہلے کہ سلیم اس سے کچھ پوچھتا۔۔۔۔وہ یہ جاوہ جا۔۔۔
سلیم زیر لب اسے کوستا ہوا واپس گھر کی جانب چل پڑا،وہ بہت دور نکل آئے تھے اس لئے گھر پہنچتے پہنچتے شام گہری ہوگئی تھی۔اس نے کئی بار شہباز کا نمبر ملا یا،اسے میسج بھی کیا۔۔لیکن اس کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔گھر پہنچ کر نہ جانے کیوں سلیم کے دل کی دھڑکن ایکدم سے تیز ہوگئی،گھر میں سناٹا چھایاہوا تھا،اس سے پہلے ابو کے بہادری کے قصے اور امی کے شکوے سنائی دیتے تھے لیکن آج ابو خاموش اور گم سم دکھائی دے رہے تھے اور امی غموں کی دکھی داستاں۔۔۔ٹی وی سکرین پر نظر پڑی تو سلیم کے پیروں سے بھی زمیں کھسکنے لگی اور دل بیٹھنے لگا۔۔۔اس کا جگری یار شہزاد شہید ہوچکا تھا۔
سلیم بے حال سا ہوکر گرپڑا،نیوز کاسٹر تفصیل بتا رہا تھا،شہزاد نامی جوان نے اپنی جان پر کھیل کر سائنس داں حسن مرزا کو اغوا کاروں کے چنگل سے آزاد کیا۔ان دشمنان وطن کے مکروہ عزائم میں قریب سے گزرتی ایک سیاسی پارٹی کے احتجاجی مظاہرے میں دھماکہ کرنا بھی شامل تھاجس سے افراتفری مچ جاتی اور ان کے آسانی سے بچ نکل جانے کا راستہ ہموار ہوجاتا۔مگر شہزاد جیسے نڈر اور بہادر جوان نے ان کے ارادوں کو خاک میں ملادیا۔
اتنی بدقسمتی کہ اپنے جگری یار کا آخری دیدار بھی نہ کرسکا،انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ اس کی لاش کہاں لے جائی گئی۔ایک ہفتے بعد بشیر،سلیم سے ملنے آیا۔وہ بہت افسردہ نظر آرہا تھا۔اس نے سلیم کو ایک ڈائری تھمائی اور کہا کہ ۲ دن پہلے ایک صاحب آئے تھے اس نے مجھے نہ صرف میرا پورا کرایہ ادا کرکے دیدیابلکہ آپ کے لئے شہباز کے نام کی یہ ڈائری بھی دیدی۔سلیم نے اس سے ڈائری لی۔اور اسے پڑھنے لگا ۔۔۔ڈائری اس کے لئے کسی حیرت کدے سے کم نہیں تھی،لکھا تھا۔۔میرا تعلق ایک امیر گھرانے سے ہے،مجھے اپنے وطن پاکستان سے بے حد محبت ہے۔میں آئی ایس آئی کا سپر ایجنٹ ہوں۔ایک اسپیشل مشن پر انڈیا گیا تھاجہاں میری ملاقات شردھاسے ہوئی اور اس کی محبت میں گرفتار ہوا۔۔۔لیکن وہ محبت پروان نہ چڑسکی۔مشن مکمل ہونے پر میں واپس وطن آگیا۔۔لیکن میرا دل سروس سے سے اچاٹ ہوچکا تھا اس لئے استعفیٰ دے کر گمنامی کی زندگی بسر کرنے لگا۔ایک دن کچھ ذرائع سے پتہ چلا کہ شردھا پاکستان آئی ہے،اس سے ملنے کی کچھ امید بندھ گئی۔۔شاید اس سے ملنے کی کوئی سبیل نکل آئے اور میں اسے منالوں۔۔۔اپنی محبت کا یقین دلاکر اپنا بنالوں۔۔۔نہ جانے کتنی ہی باتیں اس نے مزید اور لکھی تھیں لیکن الفاظ سلیم کے سامنے دھندلانے لگے۔۔اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو چھلکنے لگے تھے۔۔۔

Short URL: http://tinyurl.com/hec9ndt
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *