سیاست اور سیاہ ست

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ملک شفقت اللہ
افسوس ہے کہ ملک مخالف پالیسیوں اور ہتھکنڈوں کو لگام ڈالنے کیلئے کچھ نہیں کیا گیا ، یا اگر کہا بھی گیا تو بہت کم اور دبی دبی آواز میں صرف بیان بازیوں کی حد تک۔ اسی وجہ سے اس کا اثر کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ایک خاص تبدیلی جو آئی ہے وہ عمران خان کے خطابات کے بعد سیاسی شعور پیدا ہونے اور بیداری ضمیر کی یہ حالت ہے کہ عام آدمی بھی اب دلچسپی لینے کے ساتھ ساتھ سیاہ ست اور سیاست میں تمیز کرنے لگا ہے۔ موجودہ حکومت نے پہلا وفاقی بجٹ پیش کیا ہے جس پر عوام میں بہت زیادہ تشویش پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس کے پیچھے قصور عوام کا یا موجودہ حکومت کانہیں بلکہ پاکستان کے سیاسی ماحول میں اس معلق گردو غبار کا ہے جس نے گزشتہ چالیس سال با العموم اور پچھلے دو ادوار میں باالخصوص عوام الناس کے نتھنوں کو سن کر کے ضمیر کو اپنی جکڑ میں لے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر چھینک پر گرد سے اٹیںخرافات نکلتی ہیں۔ اگر ہم سابقہ حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں اوردیکھیں کہ جتنا قرضہ ان دونوں حکومتوں میں پاکستان پر چڑھا اس کی نسبت سے اس سے بہتر عوام دوست بجٹ پیش نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کیونکہ جتنا قرضہ ہے اس کے سود کی مد میں ہم نے 2470 ارب روپے ہیں۔جتنا سود دینا اس کے حساب سے سوچیں تو جو چیزیں تھوڑی بہت مہنگی ہوئی ہیں وہ بھی نا ہونے کے برابر ہیں۔افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ جس شخص نے پارٹی پر انتخابات میں پانی کی طرح پیسہ بہایا اسے ایک ہی جھٹکے میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ کر کےفائدہ پہنچایا گیا ہے ، انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب کسی چیز پر ٹیکس لگتا ہے تو اس کی قیمت کمپنیوں ،ملوں میں تو وہی رہتی ہے ہاں البتہ ٹیکس کا پیسہ حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے۔فرض کریں مان بھی لیں کہ اگر جہانگیر ترین کو فائدہ ہوا تو کیا نواز شریف اور زرداری کی ملیں بند ہو گئیں ہیں؟ پیسہ جو گورنمنٹ کے کھاتے میں جانا ہے وہ واپس عوام پر خرچ ہوگا نہ کہ مل مالکوں کو فائدہ ہونا ہے۔دوسرا پہلو یہ بھی دیکھنے کا ہے کہ جس طرح سابقہ دور حکومت کے قرضے ہیں اور پھر حالیہ حکومت نے دوبارہ قرضہ لیا ہے ، ان کی قسطیں بھی ادا کرنی ہیں ، چاروں طرف مسائل کا سامنا ہے ، معاشی ایمرجنسی ہونی چاہئے، اس کے باوجود ایسا بجٹ پیش کرنا جس میں عوام کو ہر ممکن ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے حکومت کا قابل تعریف اقدام ہے۔ اگر معاشی بدحالی ، قرضوں اور دیگر کھٹائیوں کو مد نظر رکھ کر یہ بجٹ پیش کیا جاتا تو عوام الناس کی برداشت سے باہر ہوجاتا۔ کہیں نہ کہیں تو حکومت بھی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی ہے ، کم از کم پہلے جو شاہیاں تھیں وہ نظر نہیں آتیں ۔پارلیمنٹ اراکین کی تنخواہوں میں دس فیصد کمی کی گئی ہے،پہلے کابینہ اراکین کا بجٹ چار سو ساٹھ ارب روپے تھا لیکن اب اسے کم کر کے چار سو سینتیس ارب روپے کر دیا گیا ہے، جو عثمان بزدار کے حوالے سے افواہیں چل رہیں کہ پہلے سو فیصد تنخواہیں کابینہ کی بڑھا ئیں گئیں تھیں اب صرف دس فیصد کم کی ہیں ، یہ سرا سر جھوٹ پر مبنی ہیں کیونکہ وہ تنخواہیں بڑھائی ہی نہیں گئیں تھیں۔ اگر ن لیگ یا پی پی پی کی حکومت ہوتی تو جتنا آئی ایم ایف سے اب قرضہ اٹھایا گیا ہے اس سے چارگناہ زیادہ قرضہ لیا جاتا ، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی اولادیں اور جائیدادیں اس ملک میں نہیں ہیں ، وہ تو سب کچھ کھا پی کر بھاگ جائیں گے پیچھے عوام کو بھگتنا ہے جو اب بھگت رہے ہیں ۔اور یہ لوگ مر جائیں گے لیکن کھایا ہوا پیسہ واپس نہیں کریں گے ۔ ایک پیشہ ور چور کبھی چوری واپس نہیں لوٹاتا کیونکہ پھر اس کو ساری چوریاں واپس کرنی پڑتی ہیں۔ جتنا ذلیل یہ لوگ ہو چکے ہیں کوئی نسلی ہوتا وہ ڈوب کر مر جاتا ۔ ان کے ساتھ نکلنے والے وہی لوگ ہیں جو پناہ لینے والے مفاد پرست ہیں۔ مریم نواز نے حالیہ جو جلسہ کیا اس میں نواز شریف مردہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔مریم نواز جس کی لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں تھی وہ برانڈڈ سوٹ، کانوں میں لاکھوں کی بالیاں اور صرف اپنی نمائش پر لاکھوں خرچ کر کے غریب کی بات کرنے چلی ہیں ، یہ غریبوں کے ساتھ بھونڈا مذاق نہیں تو کیا ہے؟ حسین اور حسن نواز جو خود کو پاکستانی شہری ہی نہیں مانتے وہ بھی ٹویٹر پر پاکستانیوں کے ہمدرد بنے بیٹھے ہیں، پہلے اپنے باپ کیلئے تو ہمدردی جتلائیں!یہ سب ڈرامے بازی صرف اسی لئے ہو رہی ہے کیونکہ عمران خان نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ کمیشن بنائیں گے کہ پچھلی حکومتوں نے جو قرضہ لیا وہ کہاں خرچ ہوا، اس کے بعد مریم نواز نے جلسہ کر دیا ، سوشل میڈیا پر عمران خان کو یہودی ایجنٹ قرار دیا جانے لگا ہے، فتوے شروع ہو گئے ، جو مریم نواز ،زرداری اور عمران خان کو ایک ہی سکے کے دو رخ بتاتی تھی اسے آج زرداری کی گرفتاری کابڑا دکھ ہو رہا ہے، بلاول نے پھر سے اسٹیبلشمنٹ پر پریشر ڈالنے کیلئے بیانات دینے شروع کر دئیے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان ڈرامہ ہے پاکستان نے دہشتگردوں کو پناہ دے رکھی ہے ۔ حالانکہ سب نے دیکھا کہ منظور پشتین ، علی وزیر کے ساتھ یہی لوگ کھڑے ہوئے تھے جو رنگے ہاتھوں ریاست مخالف پراپیگنڈوں میں ملوث پکڑے گئے ہیں۔ ایک طرف یہ ملک کے وفادار بنتے ہیں دوسری طرف یہی لوگ ریاستی اداروں کو اپنی ذات کی خاطر بلیک میل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان سب سے زیادہ دہشتگردی کا شکار رہا ہے ، اوپر سے یہ بیان دینا کہ پاکستان نے دہشتگردوں کو پناہ دے رکھی ہے اس کیا مقصد ہے؟۔بار بار اس بات کو اچھالنے کا کیا مطلب ہے جن لوگوں نے راﺅ انوار جیسے پالتو پال رکھے تھے؟سندھ حکومت نے سرکاری سطح پر گندم کی خریداری نہ کر کے گندم کا مصنوعی بحران پیدا کرنے کی کوشش، اور ذخیرہ مافیا کو فائدہ دیا ہے۔پہچاننے کی ضرورت ہے کہ ملک دوست کون ہے اور ملک دشمن کون ہے؟سیاہ سیوں اور سیاست دانوں میں تمیز کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، سیاست دان ملک و ملت کی خدمت کو عین عبادت سمجھتا ہے اور باقی سیاہ سیوں کی پہچان میں عوام پر چھوڑتا ہوں۔

Short URL: http://tinyurl.com/y48ftxf2
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *