ایمان بچائیں

تحریر: الماس العین خالد
کسی مولوی یاں عالمِ دین کی مانند تو دین سیکھنے سے قاصر رہے، جو کہ یقیناً باعثِ شرمندگی ہے ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے۔ لیکن جو بات تھوڑی بہت سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ایمان والوں کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اپنا خالق ومالک صرف اللّٰہ تعالیٰ کی ذات کو مانیں۔ کسی اور سے امیدیں وابستہ نہ کریں کہ یہ بھی شرک کے زمرے میں آتا ہے، ذرا مزید ورق گردانی کی تو عقل میں جو بات بیٹھی وہ یہ کہ رب العالمین نے کسی بھی انسان کو کسی بھی انسان کی غلامی کے لئے پیدا نہیں کیا، بڑے بڑے فرعون، نمرود، شداد جیسے کئیں جابر اور طاقتور بادشاہ تاریخ نے دیکھے مگر اپنے اپنے بھیانک انجام تک اس طرح پہنچے کہ آج بھی دنیا ہزاروں برس بیت جانے کے باوجود انھیں عبرت کے نشان کے طور پر یاد کرتی ہے۔ انکی بادشاہت کے نشے کا تو یہ عالم رہا کہ کوئی سجدے کرواتا لوگوں سے، کوئی خدائی کا دعوے دار رہا، کسی نے اپنا ہی دین بنا ڈالا، غرض اپنے جاہ و جلال کا اثر ڈالا ضرور عوام الناس پہ، حالانکہ تاریخ نے پھر وہ بادشاہ بھی دیکھا، کہ جس کا ہاتھ ہی اس کا سرہانہ ہوتا تھا اور سخت زمین ہی اس کا بچھونا، حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی عاجزی اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنے آنے پر تعظیم کی خاطر کھڑے ہونے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی سختی سے یہ عمل دہرانے سے منع کر دیا۔ تو دوسری طرف پیکرِ عدل و انصاف حضرت عمر فاروق سے بڑے مجمعے میں موجود ایک عام شخص بھی انگلی اٹھا کر سوال کرنے کا حق رکھتا تھا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ جناب مزاجاً سخت تھے، باوجود اس کے کہ وہ کوئی سخت ردعمل دیتے ، بلکہ اعتراف کیا کرتے تھے کہ ” یاد رکھنا جب تک امت میں تم جیسے لوگ رہیں گے، مجھ جیسا عمر بھی نہیں بھٹک سکتا”. یعنی کہ دنیا کے بہترین علم و عمل والوں نے بارہا اس حقیقت کا احساس دلایا کہ حاکمیت صرف اللّٰہ کی۔۔۔پر افسوس، فی زمانہ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ صاحبان علم و فن نے تو اس عقیدے کی دھجیاں اڑا دیں ہیں، ان کے سامنے عبرت کا نشان بنی داستانیں ابھی باقی ہیں تو دوسری طرف عدل و انصاف کے پیکروں کی مثالیں بھی زندہ و جاوید ہیں۔ یہاں تو جو آواز اٹھاتا ہے، اسے پہلے وطن چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور پھر دیار غیر میں ہمیشہ کے لیے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ جو سوال اٹھاتا ہے اسے اٹھا لیا جاتا ہے۔ تشدد کیا جاتا ہے، ننگا کیا جاتا ہے، حالانکہ ہر ذی شعور علم رکھتا ہے کہ عورت کا عورت اور مرد کا بھی مرد سے ایک حد تک پردہ لازم ہے، یاں پھر اس طاغوتی نظام میں گناہ ثواب کی تمیز ختم ہو چکی ہے،اور صاحبان سخن شناس میں کوئی اتنا بھی کم علم نہیں کہ جسے اس بات کا مسلمان ہوتے ہوئے شعور نہ ہو کہ کسی معصوم اور مظلوم کا نا حق خون بہانہ پوری انسانیت کا قتل ہے اور قیامت کے روز سب سے پہلے قتل کے مقدموں کا فیصلہ ہو گا۔ یاں پھر جیسے میں نے اپنے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ ذومبیز کے نظام میں رہنے والی پہلی قسم کے لوگ حق سوچنے، سمجھنے اور دیکھنے کی صلاحیت کھو چکے ہوتے ہیں، اس لئے اپنے انجام یاں باری کعبہ کے حضور ممکنہ بلکہ یقینی پیشی کی حقیقت کو بھی تسلیم کرنے سے قاصر ہیں، انھوں نے اپنے اپنے قرین کو کھلا پلا کر اتنا طاقتور کر دیا ہے کہ انھیں ظلِّ شاہ جیسے نہتے اور بے گناہ کا خون بہانا باعثِ شرمندگی محسوس نہیں ہوا۔بڑے ہی ادب اور معذرت کے ساتھ لیکن ایمان والا جانتا ہے کہ برائی دیکھو تو ہاتھ سے روکو، کم ہمت ہو تو زبان سے روکو اور اگر بے حد کمزور ایمان والے ہو تو کم از کم برائی کو دل میں ہی سہی پر برا جانو۔ فکر کی بات تو ہے کہ ہم ایمان کے اس قدر کمزور درجے پر فائز ہیں کہ دل میں ہی برا کہنے کو عافیت جانتے ہیں، اور خود کو تسلی دیتے ہیں کہ چلو کمزور درجے پر ہی سہی پر ایمان والوں میں سے تو ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ قرآن کے اوراق بہت واضح انداز میں یہ بتاتے ہیں کہ پچھلی قوموں پر جب عذاب آیا تھا تو صرف نافرمانی کرنے والوں پر ہی نہیں آیابلکہ وہ سب بھی عذاب کی لپیٹ میں آئے جو ایمان کے کمزور ترین درجے پر ہوتے ہوئے برائی کو دل ہی دل میں برا جانتے تھے لیکن نافرمانی کرنے والوں کو منع نہیں کرتے تھے،اور زبان کھولنے کی جسارت نہیں رکھتے تھے، تو کمزور درجے والوں کو کسی خوش فہمی کو پالنے کی قطعاً ضرورت نہیں، بلکہ انھیں بھی اپنے انجام سے، عذاب کی زد میں آ جانے سے ڈرنے کی ضرورت ہے، وقت کے فرعون ہاتھ اور زبان سے برائی کو روکنے والوں کو اٹھا لے جاتے ہیں، یاں اس قابل نہیں چھوڑتے کہ دوبارہ کوئی احتجاج کر سکے۔۔ تو خیال رہے کہ فرعون نے بھی آسیہ کو نہیں چھوڑا تھا، مگر مقدس ترین کتاب میں فرعون کو عبرت کا نشان بنانے کی گواہی موجود ہے تو دوسری طرف آسیہ کی جنت میں گھر کی گواہی بھی سورہ تحریم کی آخری آیات سے ثابت ہے۔ہے پرواز دونوں کی اسی ایک جہاں میںکرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اورصاحبان بات کچھ یوں ہے کہ اگر حق سے پیٹھ پھیر دی جائے تو یقیناً ہلاکت ہے، لیکن اگر بولیں، آواز اٹھائیں تو بھی ارشد شریف کی طرح خاموش کروا دیئے جاتے ہیں، اب ایمان بچانا بھی ضروری ہے، اور حق تو یہی ہے کہ انسان دنیا میں کسی بھی دوسرے انسان کی غلامی کے لئے پیدا نہیں کیا گیا، یہ حق صرف اللّٰہ کے پاس ہے کہ اسکی غلامی کی جائے، اسکے ہر حکم پر سر تسلیم خم کیا جائے۔ اس پر بھروسہ کیا جائے۔ یاں پھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی معجزے کا یاں کسی مسیحا کے آنے کا انتظار کیا جائے، جو ان حالات کا مقابلہ کر سکے۔ لیکن معجزے بھی تب ہوتے ہیں، جب قوم اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اللّٰہ کے دیے حقوق کو چھین کر ، شور مچا کر یاں جنگ لڑ کر حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور یہی جہاد فی سبیل اللّٰہ ہے، اللّٰہ کی حاکمیت کو سربلند کرنے کی خاطر وقت کے فرعونوں کو للکارنا۔اللّٰہ کی بندگی کی خاطر انسانوں کی غلامی سے انکار کرنا۔ہو حلقہء یاراں تو بریشم کی طرح نرمرزمِ حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومنآخر میں سوال اٹھتا ہے کہ یہ طے کیسے ہو کہ کون حق پر ہے اور کون باطل کے پیروکار، تو جواب سادہ سا ہےکہ دعائیں تقدیر بدلتی ہیں۔ رمضان کے اس با برکت مہینے میں پوری قوم کو اللّٰہ کے حضور سرنگوں ہو کر دعا کرنی چاہئے، کہ اے اللّٰہ حق کو حق کر کے دکھا اور باطل کو نیست و نابود کر دے۔ اگر برائی کو ہاتھ سے یاں زبان سے روکنے کی سکت نہیں تو کم از کم دل میں برا کہیں، اگر اٹھا کر لے جانے کا ، مارنے کا خوف ہے تو دلوں پر پہرے بھی نہیں بٹھائے جا سکتے۔ اللّٰہ سے دعا ہے کہ جس جس نے ارضِ پاک کے ساتھ بد نیتی کی ہے اسے کسی بھی قسم کا نقصان پہنچایا ہے وہ اپنے انجام تک پہنچیں اور عبرت کا نشان بنیں، آمین۔ کمزور درجے کا ہی سہی مگر ایمان ضرور بچا لیں۔ آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیداآگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
Leave a Reply