قربانی کے فضائل ومسائل

Print Friendly, PDF & Email

تحریر:استاذالعلماء شیخ الحدیث مفتی محمدجنیدرضاخان قادری،
ناظم اعلیٰ جامعہ انوارالحدیث حنفیہ غوثیہ نزدشیل پمپ داؤدخیل،میانوالی


حامدا و مصلیابعد حمد وصلاۃ,اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا’’ فصل لربک و النحر‘‘ (پ۳۰ الکوثر) اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔قربانی کی تعریف یہ ہے کہ مخصوص جانور کو مخصوص دنوں بہ نیت تقرب ذبح کرنا ہے ۔مخصوص جانور سے مراد وہ جانورہے جس میں قربانی کی شرئط پائی جائیں جن کا ذکر آگے تفصیل سے بیان کیاجائے گا۔مخصوص دنو ں سے مراد دسویں ذی الحجۃ سے لیکر بارھویں ذی الحجۃ تک ہے۔ان دنوں کو ایام نحر کہتے ہیں۔نیت تقرب سے مراد یہ ہے کہ قربانی کرنے والے کا مقصد صرف گوشت کا حصول نہ ہو ۔
قربانی واجب ہونے کی شرائط : (۱) مسلمان ہونا (۲)مقیم ہونا۔مسافر پر قربانی واجب نہیں ھے۔(۳) مالک نصاب ہونا۔مالک نصاب سے مراد وہ شخص ہے جس پر صدقہ فطر واجب ہو۔صدقہ فطر ہر اس شخص پر واجب ہے جسکے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم یا مالیت کا سامان حاجات اصلیہ سے زائد ہو۔مثلا کسی آدمی کے پاس ۳ مکان ہیں ایک رہنے کا ہے دوسرا مکان مہمانوں کے لیئے ہے۔تیسرا مکان اسکی کسی ضرورت میں فی الحال شامل نہیں مطلب نہ رہنے کے لئے نہ مہمانوں کیلئے نہ کسی اور مقصد کیلئے،اسے صرف بنایا جب ضرورت پڑا استعمال کریں گے۔تو اب اگر اس مکان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہے تو اسپر قربانی واجب ہے۔اسی طرح اگر گھر میں برتن ہیں کچھ استعمالی کچھ مہمانوں کیلئے کچھ کسی اور مقصد کے لئے اور کچھ برتن ایسے ھیں جو حاجت سے زائدہیں جو کبھی استعمال ہی نہیں ہوتے صندوقوں میں بکسوں میں بند محفوظ پڑے ہوتے ہیں جیساکہ عموما جہیز کا سامان ہوتاہے اگر ان برتنوں کی قیمت بھی نصاب کو پہنچ گئی تو بھی قربانی واجب ہے۔یاد رکھیے! اگر مختلف جنسیں ملکر بھی نصاب کو پہنچ جائیں تو بھی صاحب نصاب ہو جائے گا یعنی اگر کچھ حاجت سے زائد رقم ہے اور کچھ برتن اسی طرح کوئی اور سامان تو اگر ان سب کی قیمت ملا کر بھی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ گئی تو بھی قربانی واجب ہے۔حاجت اصلیہ سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی زندگی گزارنے کے لئے ضرورت ہو جیسے پہننے کے کپڑے،رہنے کو مکان ،سونے کو بستر،کھانے کے لئے برتن وغیرہ۔یاد رہے ہر آدمی کی ضرورت اس کے اپنے اعتبار سے ہے مثلاً کسان ھے تو ہل ،ٹریکٹر،وغیرہ اسکی ضرورت ہے اسی طرح موٹرسائیکل ،گاڑی وغیرۃ ہر آدمی کے اعتبار سے ضروریات میں شامل ہونگے۔ظاھر الروایہ کے مطابق نابالغ پر نہ خود قربانی واجب ہے نہ اسکی طرف سے اسکے باپ پر قربانی واجب ہے۔اسی بات پر فتویٰ ہے ۔جن پر قربانی واجب ہے اگر انکے پاس نقدی نہ ہوتو انہیں قرض لیکر بھی قربانی کرنا واجب ہے۔قربانی کی تمام شرائط کا پورے وقت میں پایا جان ضروری نہیں بلکہ قربانی کے لئے جو وقت مقرر ہے اس کے کسی حصہ میں قربانی کے واجب ہونے کے لیے ان شرائط کا پایا جان کافی ہے مثلا ایک آدمی بارہویں ذی الحجۃ کی عصر کو صاحب نصاب ہوجاتا ہے تو اسپر قربانی واجب ہے۔سال کا گزرنا یا پورے وقت کا گزرنا شرط نہیں ۔یونہی اگر کوئی غیر مسلم قربانی کے تین دنوں میں مسلمان ہوگیا اور اس میں باقی شرائط بھی ہیں تو اس پر قربانی واجب ہے۔مسافر تھا قربانی کے ایام میں مقیم ہو گیا باقی شرائط بھی موجود ہیں اس پر قربانی واجب ہے۔اگر کسی شخص کے پاس مال نصاب بھی ہے اور اس پر قرض بھی ہے۔اگر مالیت سے قرضہ نکالیں تو بقیہ مالیت نصاب نہیں بنتی تو اس پر قربانی واجب نہیں یعنی صاحب نصاب ہونے کے لئے ضروری ے کہ قرض نکال کر بقیہ مالیت نصاب کے برابرہو۔ایک گھر کے دس افرادہیں اور سب صاحب نصاب ہیں تو سب پر علیحدہ علیحدہ قربانی واجب ہے ایک قربانی سب کی طرف سے کافی نھیں ہو گی۔جیساکہ عموما ہمارے ہاں چلتاہے کہ گھر میں سب ملکر ایک کر دیتے ہیں اگر چہ صاحب نصاب کئی ہوتے ہیں۔یونہی شوہر بیوی کا حکم ہے۔عموما عورتوں کے پاس زیورات یا نقدی ہوتی ہے لیکن وہ قربانی نہیں کرتی تو ان پر بھی قربانی اپنی علیحدۃ واجب ہے۔قربانی میں مرد و عورت کا فرق نہیں ہے اگر کوئی بھی صاحب نصاب ہے مرد ہویا عورت ،شوہرہویا بیوی سب پر علیحدہ قربانی واجب ہے۔
قربانی کا وقت شہر والوں کے لئے جن پر عید کی نماز واجب ھے دس ذی الحجہ کو عید کی نمازعید کے بعد کرنا واجب ہے۔اور دیہاتیوں کے لئے طلوع فجر کے بعد بھی قربانی کرنا جائزہے۔اگر شہر میں کئی جگہ عیدہوتی ہو تو کسی ایک جگہ بھی عید ہو جائے تو قربانی کرنا جائز ہے۔
قربانی گائے،بھینس،بکرا ،دنبہ،بکری،بھیڑ ،اونٹ سب کی جائزہے۔بکرا ،بکری ،دنبہ ایک سال کا ہونا ضروری ہے البتہ دنبہ ۶ ماہ کاہو اور سال بھر والوں میں فرق نہ ہو سکے تو اسکی قربانی بھی جائزہے۔گائے بھینس دو سال کی،اونٹ ۵ سال کا ہونا ضروری ہے۔گائے اونٹ میں ۷ آدمی شریک ھو سکتے ہیں۔کسی آدمی کا حصہ ساتویں سے کم نہیں ہوناچاہیے ورنہ سب کی قربانی نہیں ہو گی۔اسی وجہ سے قربانی کا گوشت اندازہ سے تقسیم نہیں کرنا چاہیے۔
قربانی کا جانور بے عیب ہو،جسکے پیدائشی سینگ نہ ہوں،خصی،بھینگا،پیدائشی دم نہ ہو ان سب کی قربانی جائز ہے۔جس کے پیدائشی کان نہ ہوںیا ایک کان نہ ہو ،جس کے دانت نہ ہوں،تھن کٹے ہوں یا خشک ہو ں،بکری میں ایک، گائے بھینس میں دو خشک ہو ں تو ناجائز ہوگی ،ناک کٹی ہو،خنثیٰ، ہیجڑا،جلالہ ان سب کی قربانی جائزنہیں ہے۔
قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا امیر و غریب سب کو دے سکتاہے،اگر اپنے اہل و عیال زیادہ ہیں سارا گوشت گھر بھی رکھ سکتاہے۔
جانور کی رسی،گنگھرو،گلے کا ھار،چمڑا سب چیزیں صدقہ کر دیں۔قربانی کا چمڑا قصاب کو اجرت میں نھیں دے سکتا۔

Short URL: http://tinyurl.com/hnvc6wz
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *