بعثت نبویؐ؛ بشریت کی نجات کے لیے نسخہ کامل

M. Tariq Nouman Garrangi
Print Friendly, PDF & Email

Prophethood: Salvation of Humanity Prophethood: Salvation of Humanity Prophethood: Salvation of Humanity Prophethood: Salvation of Humanity Prophethood: Salvation of Humanity Prophethood: Salvation of Humanity Prophethood: Salvation of Humanity

تحریر: مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی

اسلامی مہینوں کے اعتبار سے یہ مہینہ ربیع الاول کہلاتاہے اس مہینہ کویہ فضیلت اوراعزاز حاصل ہے کہ اس میں محسن انسانیت،شفیع المذنبین،رحمۃ للعالمین محمدمصطفی ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔عربی زبان میں ربیع بہار کوکہتے ہیں،بہار جب آتی ہے غنچے چٹکتے ہیں،پھول کھلتے ہیں،کلیاں مسکراتی ہیں،سبزہ زار مہک اٹھتے ہیں،پرندے چہچہاتے ہیں،بہار کی آمدسے دل ودماغ معطر ہوجاتے ہیں اورہر طرف ایک کیف ومستی اورسرور کاعالم ہوتاہے۔آج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے عرب کی ویران وادی میں بہار آئی تھی۔بی بی آمنہ کے گھر کے آنگن میں ایک صدابہار پھول کھلاتھاجس کی مہک سے ساری کائنات معطر ہوگئی تھی۔دلوں کے خلوت کدے روشن ہوگئے تھے،تھکی ماندی انسانیت کوشادمانی نصیب ہوئی،نسلِ آدم کاوقار بلند ہوا،شرف انسانی کومعراج نصیب ہوئی،عظمت انسانی کوسربلندی ملی،خاک کے زروں کوحیات نوملی۔یہ آنے والی بہار اوراس میں کھلنے والاپھول حسنِ ازل کی تجلیِ خاص اورجانِ کائنات فخرِموجودات محمدمصطفی ﷺ کی ذات مبارکہ تھی آپﷺ کے آنے سے بہار ہی بہار آئی
اسی وجہ سے شاعر نے کہاکہ
؎محمدمصطفی آئے بہار اندر بہار آئی
زمیں کوچومنے جنت سے خوشبوبار بار آئی
اس مبارک ماہ میں آپ ﷺ کی ولاد ت بھی ہوئی اور اسی ماہ میں آپ ﷺ نے اس دنیا سے پردہ فرمایا۔جو اس دنیا والوں کے لئے سب سے بڑا حادثہ رہا۔
آپ ﷺ کی ولادت با سعادت سے قبل ساری دنیا میں عموما اور عرب علاقوں میں خصوصا جہالت کی انتہا تھی اور عرب لوگ اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ اس بات پر کہ ایک قبیلے کا اونٹ دوسرے قبیلے کے اونٹ سے پہلے تالاب سے پانی پی لیتادو قبائل میں کئی سال تک جنگ جاری رہتی۔ایسے کفر و جہالت کے دور میں اللہ تعالی نے رحمت اللعالمین ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کے63سال اور نبوت کے عہدے پر سرفراز ہونے کے صرف 23سال میں اللہ کے فضل سے ایسی محنت کی کہ اپنی بچیوں کو زندہ دفن کردینے والی جاہل قوم ایسی باکردار ہوگئی کہ بچیوں کی پیدائش پہ خوشی کااظہار کرتی اور ان کے مان پورے کرنااپناحق سمجھنے لگی۔آپ ﷺ منصف اعظم تھے آپ کے وصال کے بعد انصاف کا یہ عالم کہ حضرت عمر کے دور میں شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے اور شیر میں یہ مجال نہیں تھی کہ وہ بکری پر حملہ کرتا۔
جب حضرت عمرؓ ؓ کا انتقال ہواتو آپ کی سلطنت کے دوردرازعلاقے کا ایک چرواہابھاگتاہواآیااورچیخ کر بولا۔۔
لوگو!حضرت عمرؓکا انتقال ہوگیاہے۔لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں ہو۔تمہیں اس سانحہ کی اطلاع کس نے دی؟
چرواہا بولا!جب تک حضرت عمر فاروق ؓزندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اُٹھاکر نہیں دیکھتاتھالیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیامیری بھیڑکابچہ اٹھاکرلے گیا۔میں نے بھیڑیے کی جرات سے جان لیاآج دنیامیں عمر فاروق ؓموجود نہیں ہیں چنانچہ ان لوگوں نے جب تحقیق کی تو پتاچلاکہ اِسی روز حضرت عمرؓکاانتقال ہواہے۔
اندھیری رات میں ماں بچی سے کہتی کہ دودھ میں پانی ملادے خلیفہ تو نہیں دیکھ رہے ہیں تو ایمان کی طاقت سے سرشار بچی کہتی ہے کہ ماں امیر المومنین نہ دیکھیں تو کیا ہوا میرا تمہار اور امیر المومنین کا رب تو ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اور میں کیسے دودھ میں پانی ملانے والا دھوکے کا کام کر سکتی ہوں۔
؎یہ سب رعنائیاں تھیں اک وجود پاک کی خاطر
یہ نقش آرئیاں تھیں سید لولاک کی خاطر
یہ وہ حالات تھے جوحضور اکرم ﷺ کی دعوت کے بعد عام مسلمانوں اورامراء کے تھے لیکن زمانہ گذرنے کے ساتھ شیطان نے اپنا کام کرنا شروع کردیا۔ لوگ دین اور اسلام کی تعلیمات سے دور ہونے لگے۔ اور مسلمان جن کی آدھی دنیا پر حکومت تھی۔ آہستہ آہستہ زوال پذیر ہونے لگے۔ ایسے زوال آمادہ دور میں مسلمانوں کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کا واحد حل یہی ہے کہ وہ مخبر صادق حضرت محمد ﷺ کی سنتوں کو اپنی زندگی میں لائیں۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھا م لیں۔ اور کفر و الحاد ترک کریں۔ لیکن دنیا اور مادہ پرستی کی دعوت اس قدر عام ہے کہ دین غالب ہونے کے بجائے مغلوب ہورہا ہے۔ مسلمان کو پتہ ہی نہیں کہ اس کی پیدائیش سے موت تک زندگی کے ہر موڑ اور ہر منزل پر اللہ کا حکم کیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کا مبارک طریقہ کیا ہے۔ اللہ نے قران کریم کی قیامت تک حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کرم اور فضل کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے خلوت اور جلوت غرض زندگی کے ہر پہلو کو سیرت پاک اور سنت نبوی ﷺ کے طریقو ں کو قران و حدیث میں محفوظ کردیا۔
حضور اکرم ﷺ کی سیرت پاک کے کئی پہلو ہیں جن کا اعادہ اس ماہ میں خصوصیت سے اور زندگی بھرحسب ضرورت ہونا ضروری ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے اخلاق حسنہ سماجی زندگی,گھریلو زندگی ازواج مطہرات کے ساتھ روابط سیاسی زند گی دین اسلام کی دعوت غزوات کے دوران عمل کفار کے ساتھ طرز عمل طب نبوی ﷺ اور پیدائیش سے لے کر موت تک انسانی زندگی کے ہر پہلو پر آپ ﷺ کی سیرت پاک انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔
اتر کرحراسے سوئے قوم آیا
اوراک نسخۂ کیمیاساتھ لایا
وہ بجلی کاکڑکاتھایاصوت ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
حضور اکرم ﷺ کی سیرت پاک کا ایک روشن ستارہ آپﷺ کے مبارک اخلاق ہیں۔سورہ قلم میں اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ و انک لعلی خلق عظیم(اور آپ کے اخلاق بہت اعلی ہیں)سارا قران ہی آپ ﷺ کا اخلاق ہے۔انسانی زندگی عمل سے عبارت ہے۔ انفرادی طور پرانسان کی سیرت اس کے اخلاق و کردار سے ظاہر ہوتی ہے اور اجتماعی طور پر معاشر ت تہذیب و تمدن اور بین الاقوامی تعلقات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔زندگی کے ان انفرادی اور اجتماعی دو دائروں میں اگر زندگی مثالی گذرے تو وہ اللہ کی مرضی اور حضوراکرم ﷺ کی سیرت پاک کے مطابق ہوگی۔ اور اللہ کے ہاں پسندیدہ ہوگی۔
دنیا کے انسانوں کو مثالی شخصیت کی تلاش تھی اور وہ مثالی شخصیت حضور اکرم ﷺ ہیں جن کے اخلاق سب سے افضل و اعلی ہیں۔جنہوں نے انسانیت کی اعلی و ارفع مثالیں پیش کیں۔ ایک خاتون مسلسل آپ ﷺ کی ذات اقدس پر کچرا ڈالتی تھی۔ اس خاتون سے آپﷺ نے بہتر معاملہ فرمایا۔ تو وہ قبولیت اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئی۔
وہ پتھر مارنے والوں کودیتے ہیں دعااکثر
کوئی لاؤ مثال ایسی شرافت ہوتوایسی ہو
حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس سراپا اعلی اخلاق و کردار کی مالک تھی اور اس روئے زمین پر آپﷺ سے ذیادہ کسی اور نے بہتر انسانی اخلاق کی مثال پیش نہیں کی۔ واقعہ معراج آپﷺ کی سیرت میں چمکتا ایک درخشاں ستارہ ہے۔ اس واقعہ کی تصدیق پر حضرت ابوبکرؓکو صدیق کا لقب ملا۔ قران شریف آپﷺ کا ایسا عظیم معجزہ ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔ دیگر انبیا علیہ السلا م کو ملنے والے معجزے ان کی حیات میں رہے لیکن آپﷺ کا معجزہ قران کریم قیامت تک باقی رہے گا۔
کتاب عظمت کے ہرصفحے پر خدانے ان کاہے نام لکھا
کہیں کہیں پہ درودلکھا،کہیں کہیں پہ سلام لکھا
سیرت النبی ﷺ کا ایک اہم پہلو معاشرتی اور تمدنی زندگی ہے۔ آپ ﷺ نے واضح کردیا کہ نکاح سنت ہے اس سنت کو اپنی عفت کو بچانے اور نسل انسانی کو بڑھانے کے لئے اختیار کیا جائے۔اگر کسی میں نکاح کی گنجائیش نہ ہو تو اس سے کہا گیا کہ وہ ذیادہ سے ذیادہ روزے رکھا کرے تاکہ اس کی نفسانی خواہشات پر قابو پایا جاسکے۔ نکاح کے لئے لڑکی میں دینداری اور حسب نسب دیکھنے کے لئے کہا گیا۔ اللہ کے رسول ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ نکاح کو آسان بناؤ تاکہ زنا مشکل ہوجائے۔شادی کے ایک مقصد جیسا کہ کہا گیا حصول اولاد ہے۔چنانچہ بچوں کے بارے میں آپﷺ کی سنت یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کے کلمات کہے جائیں ساتویں دن بچے کا عقیقہ کیا جائے بال صاف کیے جائیں اور اس کا اچھا سا اسلامی نام رکھا جائے۔ لڑکا ہو تو اس کا ختنہ کیا جائے۔ بچہ جب بات کرنے لگے تو اسے پہلے کلمہ سکھایا جائے۔ جب اس کی تعلیم کا مرحلہ در پیش ہو تو اس کی دینی تعلیم کا اہتمام کیا جائے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم لازمی ہے۔ بچہ جب سات سال کا ہو تو اسے نماز کی ترغیب دی جائے اور جب وہ بالغ ہو تو اس پر نماز کے لئے سختی کی جائے۔اس کی بہتر تربیت کی جائے۔ اللہ کے رسول نے جوان بچوں کا جلد نکاح کردینے کی ترغیب دی ہے۔ آپﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ مسلمانوں کو تین کاموں میں جلدی کرنی چاہئے۔ایک جب نماز کا وقت ہو تو فوری نماز اد ا کی جائے۔ دوسرے جب اولاد جوان ہو تو اس کی فوراً شادی کی جائے۔ تیسرے جب کسی کی موت واقع ہو تو اسے فوری دفن کرنے کا اہتمام کیا جائے۔اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو کھانے پینے لباس رہن سہن ر،شتہ داروں پڑوسیوں غیر مسلموں اور دیگر انسانوں کے ساتھ برتاؤ کے حقوق سکھائے۔ لوگوں کو دین کی دعوت پیش کرنے اور مسلمانوں کو دین پر عمل کرنے کی ترغیب دی۔ آپ ﷺ کی سیرت پاک کا منشا یہی ہے کہ ساری دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے۔ لوگ شیطان کے طریقے پر چلنے کے بجائے رحمن کے حکم کے تابع رہیں۔
؎اگرخموش دلوں میں تو،توہی سب کچھ ہے
جوکچھ کیاتوتیراحسن ہوگیامحدود
آج مسلمانوں کا یہ عالم ہے کہ امت کا بیشتر طبقہ آپ ﷺ کے حالات زندگی اور سیرت کے روشن پہلوؤں سے واقف نہیں۔ لوگوں کو دنیا والوں کے حالات اور اچھے برے کی خبر ہے لیکن نہیں معلوم تو آقاﷺ کے حالات۔ یہ نہیں معلوم کے آقا نے زندگی میں کبھی دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اور ہر لمحہ امت مسلمہ کی فکر کرتے رہے کہ کیسے یہ امت کامیاب ہوجائے اور اس امت کا بیڑا پار ہوجائے۔
معراج کے موقع پر آپﷺ نے نمازوں میں تخفیف کرائی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ امت پانچ نمازیں پڑھے گی تو اسے پچاس نمازوں کو ثواب ملے گا۔ آپﷺ کو معراج کی سعادت نصیب ہوئی اللہ سے ہم کلامی کا شرف ملا تو آ پ ﷺ کی امت کو یہ انعام ملا کہ اگر آپﷺ کا امتی نماز پڑھتا ہے تو وہ ایسا ہے جیسے اللہ کے دربار میں کھڑا ہے اور اللہ سے بات کر رہا ہے۔یہ نماز کے حوالے سے امت محمدیہ ﷺ کو ملنے والا ایسا انعام ہے جو دیگر امتوں کو نہیں ملا۔ چنانچہ اب ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ربیع الاول کے مبارک ماہ میں اورسیرت کے جلسوں میں آپﷺ کی سیرت کے تمام گوشوں کو منظر عام پر لایا جائے اور امت کو اس بات پر راغب کرایا جائے کہ امت نبی ﷺکی نام لیوا بھی ہو اور نبی ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا بھی۔ اللہ کی مدد کے وعدے زبانی دعووں سے نہیں بلکہ عمل سے ہیں۔ جنگ بدر میں 313نہتے صحابہ کو اللہ کی مدد ایمان اور عمل صالح کی بدولت ملی تھی۔ آج مسلمان سمجھتے ہیں کہ انہیں بغیر عمل کے صرف عشق نبی ﷺ کے زبانی دعووں سے اللہ کی مدد ملے گی۔ یہ اللہ کی عادت نہیں ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے اللہ کی مدد کے طلب گار ہوں اور نبی ﷺ کو سنتوں سے اپنی زندگی کو آراستہ کریں نبی پاک ﷺ مقصود کونین اورمطلوب دارین ہیں ہمیں آپ ﷺ کی سیرت اورصورت کواپناناہوگااسی مین دارین کی کامیابی ہے

Short URL: https://tinyurl.com/2oofb3na
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *