۔7ستمبر 1974: عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کاایک تاریخی اور یادگار دن

M. Tariq Nouman Garrangi
Print Friendly, PDF & Email

Preservation of the Faith of Khatm-e-Nabuwat
Preservation of the Faith of Khatm-e-Nabuwat
Preservation of the Faith of Khatm-e-Nabuwat
Preservation of the Faith of Khatm-e-Nabuwat
Preservation of the Faith of Khatm-e-Nabuwat
Preservation of the Faith of Khatm-e-Nabuwat
Preservation of the Faith of Khatm-e-Nabuwat

تحریر: مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

عقیدہ ختم نبوت دین کا بنیادی عقیدہ ہے اور اس پر اسلام کی پوری عمارت قائم ہے۔ عقیدہ ختم نبوت پر ایمان اور اس کا تحفظ دین کا لازمی اور بنیادی تقاضا ہے۔ قرآن مجید میں تقریبا100آیات اور 210 احادیث مبارکہ میں ختم نبوت کا ذکر پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔عقیدہ ختم نبوت انسانیت پر ایک احسان عظیم ہے۔ مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ قرآن کریم آخری آسمانی کتاب اور امت محمدیہ آخری امت ہے۔
امت کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ ختم نبوت کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہری میں مسیلمہ کذاب، اسود عنسی اور سجاح بنت حارث نے بھی نبوت کا دعوی کیا مگر ذلت و رسوائی سے ہم کنار ہوئے۔ امت مسلمہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تما م تر عظمت و شان کے ساتھ تمام انبیا ء اور رسولوں کا امام و سردار اور نبی آخر الزماں تسلیم کیا ہے۔

فتح بابِ نبوت پہ بے حددرود
ختم دورِ رسالت ؐ پہ لاکھوں سلام

قادیانیت، اسلام کے خلاف سازش اور اعلانیہ بغاوت ہے۔ صلحائے امت اور علما و مشائخ نے متحد ہوکر ان باطل عقائد کی بیخ کنی کے لیے ہر محاذ پر ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں دندان شکن جواب دیا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں ختم نبوت کا صحیح مفہوم اپنی تالیفات، تصانیف اور بیانات کے ذریعے واضح کر کے امت مسلمہ کی صحیح، فکری، علمی اور اعتقادی راہ نمائی کی اور جھوٹے مدعیان نبوت کی ناپاک سازشوں کو ناکام بنایا اور عملی جہاد کرتے ہوئے اس فتنے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔
سات ستمبر 1974 کا دن ہماری قومی اور ملی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن مسلمانوں کے دیرینہ مطالبے پر اس وقت کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو جمہوری اور پارلیمانی بنیاد پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخ ساز فیصلہ کیا، جس میں قادیانیوں اور مرزائیوں کو مکمل طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا۔ یہ یادگار فیصلہ مسلمانوں کی طویل جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ یہ فیصلہ یوں ہی بیٹھے بٹھائے نہیں کردیا گیا،بلکہ مکمل غور و خوض اور بحث و مباحثہ، سوال و جواب کے بعد ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد کیا گیا جس کی صورت یہ ہوئی کہ 29 مئی 1974 کو ربوہ اسٹیشن پر قادیانی گماشتوں نے نشتر میڈیکل کالج کے طلبا ء کو زد و کوب کیا، جس کے نتیجے میں پورے ملک میں ایسی جاندار منظم مگرپر امن تحریک چلی کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ پوری قوم کراچی سے لیکر خیبر تک متحد تھی اور ایک آواز تھی ایک ہی مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اس تحریک کے نتیجے میں حکومت مجبورہوئی اور اس نے قومی اسمبلی کے تمام امور روک کر اسے ایک خصوصی کمیٹی کا درجہ دیتے ہوئے یہ مسئلہ اس کے سپرد کیا کہ اس پر مکمل غور و خوض کے بعد یہ کمیٹی اپنی سفارشات پیش کرے۔
قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلے پر بحث شروع ہوئی، قادیانی اور لاہوری گروپ دونوں نے اپنی خواہش اور درخواست پر اپنے محضر نامے قومی اسمبلی میں علیحدہ علیحدہ پیش کیے، ان کے جواب میں علماء اہلسنت نے بھی قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا موقف کے نام سے اپنا تفصیلی موقف پیش کیا۔ لاہوری، قادیانی محضر نامے کا شق وار جواب کی سعادت مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور حکیم ملت مولاناعبدالحکیم ہزاروی ؒ کے حصے میں آئی۔قادیانیوں کے خلیفہ مرزا ناصر احمد آف ربوہ نے بتاریخ 22 جولائی 1974 کو اپنی پارٹی سمیت پاکستان کی قومی اسمبلی کی کمیٹی کے سامنے 192صفحات کا جو محضر نامہ پیش کیا اس کے جواب میں بطل حریت، محافظ ختم نبوت،مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور حکیم ملت حضرت مولانا عبد الحکیم ہزاروی ؒکی طرف سے 260صفحات پر مشتمل جواب محضرنامہ 30اور 31 اگست 1974 کو مولانا عبد الحکیم ؒ نے مسلسل آٹھ گھنٹے تک کھڑے ہوکر اسمبلی کمیٹی (جو تمام ممبران قومی اسمبلی پر مشتمل تھی)کے سامنے پڑھا۔42 گھنٹے مرزا ناصر پر جرح ہوئی۔ لاہوری پارٹی کی طرف سے ان کے سربراہ مسٹر صدر الدین پیش ہوئے۔ 27،28اگست کو ان کا بیان ہوا اور ان پر 7گھنٹے جرح ہوئی، صدر الدین چوں کہ کافی بوڑھاتھا، پوری طرح بات بھی سننے کی قوت نہیں رکھتا تھا،اس لیے ا س کا بیان میاں عبد المنان عمر کے وسیلے سے ہوا۔گواہوں پر جرح اور ان سے سوالات کے لیے اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحیی بختیار کو متعین کیا گیا، انہوں نے پوری قومی اسمبلی کی اس سلسلے میں معاونت کی اور بڑی محنت و جاں فشانی سے اپنی ذمہ داری کو نبھایا۔ قومی اسمبلی کے ممبران اپنے سوالات لکھ کر اٹارنی جنرل صاحب کو دیتے اور وہ سوالات کرتے تھے، اس سلسلے میں مفتی محمودؒ، مولانا ظفر احمد انصاری اور دیگر حضرات نے اٹارنی جنرل کی معاونت کی۔
بالآخر پوری جرح، بیانات اور غورو خوض کے بعد قومی اسمبلی کی اس خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی۔ وزیر اعظم پہلے ہی فیصلے کے لیے 7ستمبر کی تاریخ طے کرچکے تھے،چنانچہ 7ستمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں خصوصی کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں اور آئین میں ترمیمی بل پیش کیاگیا۔
وزیر قانون نے اس پر مختصر روشنی ڈالی، اس کے بعد وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم نے تقریر کی۔ تقریر کے بعد بل کی خواندگی کا مرحلہ شروع ہوا اور وزیر قانون نے بل منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کردیا، تاکہ ہر رکن قومی اسمبلی اس پر تائید یا مخالفت میں رائے دئے۔ رائے شماری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے پانچ بج کر باون منٹ پر اعلان کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کے حق میں ایک سو تیس ووٹ آئے ہیں، جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا، اس طرح قومی اسمبلی میں یہ آئینی ترمیمی اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد و نظریات اور ملحدانہ خیالات سامنے آئے تو علماء کرام نے اس کا بھرپور تعاقب کیا اور اس کے مقابلہ میں میدان عمل میں نکلے۔ مرزا قادیانی کے فتنہ سے نمٹنے کیلئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر جو کوششیں کی گئیں ان میں بڑا اہم کردار علما دیوبند کا ہے، بالخصوص حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ اور امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کی خدمات اور مساعی اس سلسلہ میں امت مسلمہ کے ایمان کے تحفظ و بقا کا سبب ہیں۔ علامہ سید انور شاہ کشمیری گویا کہ اس فتنہ کے خاتمے کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے اس فتنے کے لئے وہ ہمیشہ بے چین و بے قرار رہتے۔

خدماتِ تحفظ عقیدہ ختم نبوت امام العصر مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ

امام العصرحضرت مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ نے خود بھی اس موضوع پر گرانقدر کتابیں تصنیف کیں بعد میں اپنے شاگردوں کو بھی اس کام میں لگایا جن میں مولانا بدر عالم میرٹھیؒ، مولانا مرتضی حسن چاند پوریؒ، مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ،مولانا محمد علی جالندھریؒ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مولانا محمد منظور نعمانیؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جدید طبقہ تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے مولانا ظفر علی خانؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کو تیار و آمادہ کیا۔
امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ اپنے شاگردوں سے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور ردِ قادیانیت کے لئے کام کرنے کا عہد لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: جو شخص قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن شفاعت سے وابستہ ہونا چاہتا ہے وہ قادیانی درندوں سے ناموس رسالت کو بچائے۔

توپھرگلی کاکتا ہم سے بہتر ہے

حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ تو ختم نبوت کے کام کو اپنی مغفرت کا سبب بتایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: اگر ہم ختم نبوت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا ہم سے بہتر ہے۔

قادیانی سب سے بڑا اور سنگین فتنہ

حضرت علامہ شمس الحق افغانی فرماتے ہیں کہ جب حضرت انور شاہ کشمیری ؒ کا آخری وقت تھا کمزوری بہت زیادہ تھی، چلنے کی طاقت بالکل نہ تھی، فرمایا کہ مجھے دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں پہنچا دیں، اس وقت کاروں کا زمانہ نہ تھا ایک پالکی لائی گئی،پالکی میں بٹھا کر حضرت شاہ صاحب کو دارالعلوم کی مسجد میں پہنچا دیا گیا، محراب میں حضرت کی جگہ بنائی گئی تھی وہاں پر بٹھا دیا گیا تھا، حضرت کی آواز ضعف کی وجہ سے انتہائی ضعیف اور دھیمی تھی۔ تمام اجل شاگرد حضرت انور شاہ کشمیر یؒ کے ارداگردہمہ تن گوش بیٹھے تھے آپ نے صرف دو باتیں فرمائیں، پہلی بات تو یہ فرمائی کہ تاریخ اسلام کا میں نے جس قدر مطالعہ کیا ہے اسلام میں چودہ سو سال کے اندر جس قدر فتنے پیدا ہوئے ہیں، قادیانی فتنہ سے بڑا اور سنگین فتنہ کوئی بھی پیدا نہیں ہوا۔

جنت کا میں ضامن ہوں

دوسری بات یہ فرمائی حضور ﷺ کو جتنی خوشی اس شخص سے ہو گی جو اس کے استیصال کیلئے اپنے آپ کو وقف کرے گا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے دوسرے اعمال کی نسبت اس کے اس عمل سے زیادہ خوش ہوں گے اور پھر آخر میں جوش میں آکر فرمایا:کہ جو کوئی اس فتنہ کی سرکوبی کیلئے اپنے آپ کو لگا دے گا، اس کی جنت کا میں ضامن ہوں۔

۔ 1951میں امیرشریعت کے خطاب کی جھلکیاں

حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒنے عقیدہ ختم نبوت کے کام کو باقاعدہ منظم کرنے کے لئے تحریک آزادی کے عظیم مجاہد حضرت مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کو امیر شریعت مقرر کیا اور انجمن خدام الدین لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اس اجلاس میں پانچ سو جید اور ممتاز علما ء و صلحا موجود تھے ان سب نے حضرت سید عطا اللہ شاہ بخاری کے ہاتھ پر بیعت کی۔
امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری نے تحریک آزادی کے بعد عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دیا اور قید وبند کی صعوبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور پورے ملک میں بڑھاپے اور بیماری کے باوجود جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے قادیانیت کے کفر کو بے نقاب کر کے نسل نو کے ایمان کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا۔
امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری نے ستمبر 1951 میں کراچی میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ:۔۔۔۔ تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے، اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قدوقامت میں تناسب نہ تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کریکٹر کی موت تھی، سچ کبھی نہ بولتا تھا، معاملات کا درست نہ تھا، بات کا پکا نہ تھا، بزدل اور ٹوڈی تھا، تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی، وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا، قوی میں تناسب ہوتا،چھاتی45 انچ کی، کمر ایسی کہ سی آئی ڈی کو بھی پتہ نہ چلتا، بہادر بھی ہوتا، کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا، شاعر ہوتا، فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اس کا پانی بھرتا، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا،انگریزی کا شیکسپیئر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا پھر نبوت کا دعوی کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟ نہیں ہرگز نہیں، میاں!آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج نبوت و رسالت جس کے سر پر ناز کرے۔
قارئین کرام۔۔! سات ستمبر 1974کا دن صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے،اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تحفظ ہوا۔اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس کا جھنڈابلند ہوا۔ اس دن آپ کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والے ذلیل و رسوا ہوئے،آپ کی رادئے ختم نبوت کو چوری کرنے والے ناکام و نامراد ہوئے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تاج ختم نبوت کو چھیننے والے خائب و خاسر ہوئے،اس دن پاکستان کی پارلیمنٹ اور پوری قوم نے مل کر مرزا ئی اور قادیانیوں کو جسد ملت اسلامیہ سے کاٹ کر علیحدہ کردیا اس پر صرف پوری پاکستانی قوم نے ہی نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ نے سجدہ شکر ادا کیا،کیوں کہ قادیانیت کے تعفن اور اس کی سڑھاند نے پوری امت مسلم کو بے چین اور مضطرب کیا ہوا تھا۔
اس تاریخی اورعظمت کے حامل دن کو تو چاہئے تھا کہ پوری قوم ملکی اور سرکاری سطح پر مناتی، اس کے لیے مجالس منعقد کی جاتیں،پروگرام ہوتے،شکرانے کے نوافل اداکئے جاتے اور آئندہ کے لیے اس فتنے اور اس طرح کے دیگر فتنوں سے تحفظ کی دعائیں بھی مانگی جاتیں اور ان سے بچنے،خصوصا نسل نو کو اِن سے بچانے اور محفوظ رکھنے کی تدابیر سوچی جاتیں اور اس کے مطابق عملی اقدامات کئے جاتے، زندہ قومیں اس طرح کے تاریخ ساز اور تابناک ایام و لمحات کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں، بلکہ زندہ بھی رکھتی ہیں،مگر یہ دن آتا ہے اور گز ر جاتا ہے کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کتنا اہم اور عظیم دن گزرگیا اور ہم سے مطالبہ کرگیا۔ یہ ہماری اجتماعی اور قومی بے حسی کی علامت ہے۔لہذاعقیدہ ختم نبوت کے تحفظ، نسل نو کے ایمان کی حفاظت اور قادیانیت کے کفر کو بے نقاب کرنے کیلئے ہر ایک مسلمان کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکے۔

یہ فیصلہ ہے اپنا یہی بات ہے آخر
ہے ختم نبوت کے لیے جان بھی حاضر

Short URL: https://tinyurl.com/2q38uqrm
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *