اب ہمیں اپنے کپڑے بیچنے پڑ رہے ہیں

Waris Denari
Print Friendly, PDF & Email

تحر یر: وارث دیناری

دیکھا جائے تو ہمارے حکمرانوں نے ہمیں ہر دور میں سبز باغ دیکھائے ہیں اور ہم لوگ بھی جلد ہی ان کی باتوں پر یقین کرکے روشن مستقبل کے لئے سہنانے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر ایک عرصے تک ان سنہرے خوابوں میں کھوئے رہتے ہیں اسی طرح خوشحالی کے سنہرے خواب دیکھتے دیکھتے ایک صدی ہونے کے قریب ہم پہنچ گئے۔لیکن تعبیر سے اب تک محروم ہیں دیکھا جائے توہمارے حکمرانوں کے تمام دعوے ہمیشہ خواب ہی رہتے ان کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہتا ہے سنہرے خوابوں کی ابتدا تو وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے سے قبل شروع ہوا جو۔تاحال جاری ہے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کمی کے بجائے تیزی آتی جارہی ہے ستم تو یہ ہے کہ اقتدار حاصل کرنے والے ہر شخص نے عوام کی خدمت کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کی یا اس پر قبضہ کیا ہے اس اقتدار کی کھیل میں تمام طاقتور لوگ شامل ہیں سبز باغ اور دلکش نعروں کی بات کی جائے تو ہر دور میں مختلف نعرے لگا کر عوام کو بے وقوف بناتے رہے کبھی روٹی کپڑا اور مکان کا تو کبھی نظام مصطفی۔یا پھر یوتھ کیلئے یہ نعرہ جب آئے گا عمران بڑھے گئی اس قوم کی شان بنے گا نیا پاکستان۔ مہنگائی کو ختم کرنے اور سستے آٹے کی فراہمی کیلئے مجھے اپنے کپڑے بیچنے پڑے تو میں یہ بھی کرونگا عوام کوہر حال میں ریلیف دونگا۔نہ تو ملک میں نظام مصطفی نافذہوانہ ہی لوگوں کو روٹی۔کپڑا۔مکان ملا بلکہ بعض تو یہاں تک کہتے رہے ہیں۔روٹی کی جگہ گولی کپڑے کے بدلے میں کفن اور مکان کی جگہ قبر ملا ہے۔اسی طرح نا تو نیا پاکستان بنا اور نا ہی قوم کی شان بڑہی ہے جبکہ پرانے پاکستان کا بیڑہ بھی غرق کردیا ہے عوام کو ریلیف دینے کیلئے مجھے اپنے کپڑے بیچنے پڑے تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کرونگا۔آج کل کے جو حالات ہیں لگتا ہے کہ صرف دو ایک ماہ میں 99فیصد عوام احساس پروگرام کے مستحق بن جائیں گئیں جبکہ ملک کی ایک فیصد آبادی وہ جوملک چھوڑ کر جا چکے ہیں یا جانے والے ہیں ان میں حکمران بھی شامل ہیں وزیر اعظم صاحب آپ نے تو اپنے کپڑے نہیں بیچے ہیں آپ نے ہمیں اپنے کپڑے اپنے بچے اپنی خوداری بیچنے پر مجبور ضرور کردیا ہے۔اقتدار سے پہلے میں یہ کرونگا وہ کرونگا ملک کی معیشت کو اس طرح ٹھیک کیا جاتا ہے میرے پاس تجربہ کار ٹیم ہے ہم ملک کی معاشی حالات بہتر بنانے کیلئے سادگئی اختیار کریں گئے۔کفایت شعاری ہماری منشور میں شامل ہے کابینہ کا حجم مختصر ہوگا عوام پر بے جا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔اس طرح کے دل کش نعرے ہر آنے والے حکمران کا وطیرہ رہا ہے۔لیکن ہر دور میں ہم نے دیکھا کہ بے جا اخراجات کم نہیں بلکہ ختم کرنے کے دعوے کرنے والے جب اقتدار میں آتے ہیں تو پھر ان کا ٹون تبدیل ہوجاتا ہے۔اور پھر یہی لوگ اس طرح کا۔راگ شروع کردیتے ہیں سابقہ حکومت نے ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے ملک کی معاشی حالت ہماری سوچ سے کہیں زیادہ ابتر ہیں سابقہ حکومتوں نے عوام کو اندھیرے میں رکھ کر انھیں سبز باغ دیکھائے ہیں ہم ایسا نہیں کریں۔ہم اصل حقیقت اپنی قوم کو بتائیں گئے۔ ہمیں مشکل فیصلے کرنے پڑیں گئے۔ ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہاہے۔ جب سے یہ ملک بنا ہے نازک دور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ہے۔قوم کو آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے جب اس وقت حکومت نے نعرہ لگایا تھا قرض اتارو ملک سنوار یا پھر ڈیم بناو پاکستان بچاو۔پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب ہوں یا پھر قیامت خیز زلزلہ۔کرونا ریلیف فنڈزہوں۔نا ملک سنورا نا ہی عوام کو ریلیف ملا لیکن حکمرانوں کی نسلوں کی زندگیاں سنور گئی ہیں۔موجودہ ہمارے برسر اقتدار رہنما یہ گیت گا رہے ہیں ہم نے سیاست کی قربانی دے کر ریاست بچائی ہے جو دراصل یہ سب ان کی ڈارمے بازی ہی ہے حقیقت تو نہیں بتاتے ہیں بلکہ عوام کو مذید اندھیروں میں دھکیلتے ہیں۔جب موجودہ حکمران کہہ رہے ہیں کہ ہم نے سیاست کی قربانی دے کر ریاست کو بچا یا ہے حیرانی تو اس بات پر ہوتی ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق چھ ماہ میں 22سولگژری کاریں امپوررٹ کی گئی
ہیں جن کی مالیت ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر بیان کی جا رہی ہے جبکہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کی خاطرپوری قوم کی خوداری کو داو پر لگا دی ہے۔آئی ایم ایف کمال مہربانی کرتے ہوئے گیس بجلی مہنگی کرنے کے ساتھ عوام کو مختلف مد میں دی گئی سبسیڈی ختم کرنے کا مطالبہ کرکے عوام کی کمر توڑنے پر تلی ہوئی ہے جبکہ اشرفیاں کے بے جا اخراجات کو کنٹرول کرنے مراعات یافتہ طبقے کی مراعات کم کرنے کی تو بات ہی نہیں ہے عالمی مالیاتی اداروں کا ہمیشہ اسی پر زور رہا ہے گیس بجلی پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے ساتھ غریبوں کوسبسیڈی کے نام پر دی گئی ریاعت کو ختم کیا جائے۔یہاں میں کسی دل جلے پاکستانی کا ذکر نا چاہوں گا۔جس نے کہاکہ میں جب اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں۔تو بہت ہی زیادہ افسوس ہوتا ہے اس وقت ملک میں مہنگائی کی سونامی آئی ہوئی ہے دووقت کی روٹی کا حصول دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔لیکن پاکستان کے کچھ طبقے جن میں حکمران۔ بیوروکریٹ دیگر کچھ طبقے ہیں جن کا نام انھوں نے تو لکھا لیکن میرے لئے لکھنا بہت مشکل ہے وہ تو کروڑپتی سے ارب پتی بنتے جارہے ہیں جبکہ ملک ڈیفالٹ کی جانب جارہا ہے آخر کب تک عوام کو دور سے یہ لولی پاپ دیکھاتے رہیں گئے اور ہم کب تک اس دیہاتی کی طرح ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتے رہیں گئے۔دیہاتی کو کئی روز کی جدوجہد کے بعد منزل مل گئی۔لیکن حکمرانوں نے ہماری منزل سے کوسوں دور رکھا ہوا ہے

Short URL: https://tinyurl.com/2jtexgaa
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *