موت کے دوسری طرف۔۔۔۔ تحریر: محمد رضوان خان

Muhammad Rizwan Khan
Print Friendly, PDF & Email

میں جب بھی بلا وجہ تنی ہوئی کوئی گردن دیکھتا ہوں تو میری بے اختیار ہنسی چھوٹ جاتی ہے مٹی کا بنا ہوا انسان اور زمین پر اکڑ اکڑ کر چلے بات ہے بھی ہنسنے کی بلکہ دل کھول کر ہنسنے کی۔اوپر والے نے اسی لئے حکم دیا ہے کہ زمیں پر اکڑ اکڑ کر مت چلو ۔کہیں کوئی کسی محکمے کا افسر ہے تو چند لوگوں پر تسلط کا سوچ کر بلا وجہ غرور میں مبتلا ہے۔کوئی سیکرٹری صاحب اپنی معمولی سے سلطنت اور اختیار کے نشے میں چور جھومتے جھامتے چل رہے ہیں ۔چھوٹی موٹی وزارتوں کے قلمدان سنبھالنے والے جو متعلقہ قلم کے استعمال سے بھی اکثر معذور نظر آتے ہیں ۔ان کا کروفر اور جھوٹی شان الگ ہی بیہودہ نظارے دکھا رہی ہوتی ہے۔یہ سلسلہ لا متناہی ہے ۔سوچتے جائیں دیکھتے جائیں اور مسکراتے جائیں ۔لوگ موت کو بھولے ہوئے ہیں مسلمان ہو کر خدا کو بھولے ہوئے ہیں ۔خدا کے بندوں پر حاکمیت کے جذبے سے مغلوب ہو کر دن گزارتے ہیں ۔اور رات خدا کے بندوں کو تنگ کرنے کے نت نئے پلان سوچنے اور بنانے میں ضائع کرتے ہیں ۔ہر گزرتے دن کے ساتھ اور کئی اخلاقی بیماریوں کے ساتھ یہ مرض بھی بڑھتا جا رہا ہے۔مسلمانوں میں یہ مرض کافی پرانا ہیکوئی نیا نہیں۔آج طاقت کے نشے میں چور بونے سے حکمرانوں کی خدمت میں چند طاقت ور حکمرانوں کے وقت آخر کے واقعات اور حسرتیں پیش خدمت ہیں۔اسکندر اعظم جی وہی اسکندر جس نے بڑی بڑی فتوحات کیں مگر جب وقت آخر آیا تو اس کی حسرت کی انتہا نہ تھی۔اس نے کہا کہ میں دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا مگر موت نے مجھے فتح کر لیا۔افسوس کہ مجھے زندگی کا وہ سکون بھی حاصل نہ ہو سکا جو ایک معمولی آدمی کو حاصل ہوتا ہے۔نپولین بونا پارٹ کے آخری احساسات مایوسی سے لبریز تھے ۔اس کا کہنا تھا کہ مایوسی میرے نزدیک جرم تھی مگر آج مجھ سے زیادہ مایوس انسان دنیا میں کوئی نہیں ۔میں دو چیزوں کا بھوکا تھا ایک حکومت دوسری محبت ۔حکومت مجھے ملی مگر میرا ساتھ نہ دے سکی۔محبت کو میں نے بہت تلاش کیا مگر میں نے اسے کہیں نہیں پایا۔انسان کی زندگی اگر یہی ہے جو مجھ کو ملی تو یقیناًانسانی زندگی ایک بے معنی چیز ہے۔کیونکہ اس کا انجام مایوسی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ہارون الرشید بہت بڑی سلطنت کا حکمران تھا مگر آخر عمر میں کہا کرتا تھا کہ میں نے ساری زندگی غم غلط کرنے کی کوشش کی مگر پھر بھی غم غلط نہ کر سکا۔میں نے بے حد غم اور فکر کی زندگی گزاری ہے۔زندگی کا کوئی دن ایسا نہیں جو میں نے بے فکری سے گزارا ہو۔اب میں موت کے کنارے ہوں جلد ہی قبر میرے جسم کو نگل لے گی یہی ہر انسان کا آخری انجام ہے۔مگر ہر انسان اپنے انجام سے غافل رہتا ہے۔خلیفہ منصور عباسی کی موت کا جب وقت آیا تو اس کی حسرت ملاحظہ کیجئے۔پکار اٹھا کہ اگر میں کچھ اور دن زندہ رہتا تو حکومت کو آگ لگا دیتا جس نے مجھے بار بار سچائی سے ہٹا دیا۔حقیقت یہ ہے کہ ایک نیکی اس ساری حکومت سے بہتر ہے۔مگر یہ بات مجھے اس وقت معلوم ہوئی جب موت نے مجھے اپنے بے رحم شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔
یہ کوئی انوکھی باتیں نہیں دنیا کے اکژکامیاب ترین انسانوں نے اس حسرت اور افسوس کے باوجود میں ان کو خوش قسمت سمجھتا ہوں بھلے موت سے پہلے ہی سہی آنکھ بند ہونے سے قبل انہوں نے دنیا کی حقیقت کو نہ صرف جان لیا بلکہ مان بھی لیا۔ایسے بد بخت بھی ہوتے ہیں جو آخری دم تک حقیقت کو ماننے کا حوصلہ نہیں جٹا پاتے۔دنیا ان کیایذا اور لوٹ مار کے قصے کہانیوں پر کا نوں کو ہاتھ لگا رہی ہوتی ہے اور وہ بستر مرگ پر یہ سوچ سوچ کر خوچ ہو رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کی فلاح اور بہبود کے لئے نایاب کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں۔نام مسلمانوں والے رہ گئے ہیں باقی رہے کرتوت تو وہ بد سے بھی بد تر ہیں۔جن لوگوں کا اوپر ذکر گزرا وہ کسی دفتر کے بیس پچیس ملازمیں کے باس نہ تھے وہ چھوٹے سے کسی صوبے کے سیکرٹری نہ تھے نہ ہی وہ چار صوبوں پر مشتمل کسی چھوٹے سے ملک کے وزیراعظم یا کسی بے کار سی وزارت کے جس کے اپنے پلے کچھ نہ ہو کے وزیر تھے۔وہ کئی ملکوں کو یکجا کر کے بنی ہوئی عظیم سلطنتوں کے حکمران تھے۔جب وہ موت کے قریب اپنی اوقات اور حقیقت جان گئے تو اور کسی کان ٹوٹے کی کیا مجال ہے کہ اپنی اوقات کو جاننے اور ماننے سے انکار کرے۔اس دنیا میں وہ انسان سکھی رہتے ہیں جن کا دو باتوں پر دل و جان سے ایمان ہوتا ہے ایک مرنے کے دن پر یقین کہ یہ جان خدا کی امانت ہے اور یہ واپس بھی لوٹانی ہے ۔وہ مردے کو دفن کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ مرنا تو اسی نے تھا جسے آج دفن کر دیا ۔ان کا موت پر یقین ان کی زندگی کے بہت سے اوہام اور جھوٹے شکوک و شبہات کو نگل جاتا ہے۔دوسرا ان کو موت کے ساتھ اس بات پر بھی دل سے یقین ہوتا ہے کہ رزق کا فیصلہ ایک ذات کرتی ہے جو بلند آسمانوں پر ہے۔کوئی کسی کا رزق نہیں چین سکتا ہر انسان مرنے سے پہلے اپنے حصے کا رزق کھا کردنیا سے رخصت ہو گا۔انسان کا وہ ہے جع اس نے پہن لیا یا کھا لیا باقی سب وہ ہے جع دوسروں کے لئے جمع کیا جا رہا ہے۔ان دو باتوں پر ایمان لانے کے بعد انسان خدا کے علاوہ کسی سے ڈرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ہم بھی عجیب لوگ ہیں ہم زندگی فرعوں جیسی جیتے ہیں مگر عاقبت موسی جیسی چاہتے ہیں ۔ہم پورا سال یزید کی طرح جھوٹ و ظلم کا پرچار کرتے ہیں لیکن دس محرم کی نیاز دینا بھی نہیں بھولتے۔منافقتوں کی پگڑیاں پہن کر چہرے پر فرعونیت سجا کر من و سلویکے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہم انتہائی بے کار لوگ ہیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/hhj8dkl
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *